نرگس موال والا، بعض اہم سوالات

نرگس موال والا کے حوالے سے آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ جب بحث مناظرے کی شکل اختیار کر جائے، تب دونوں اطراف سے شدت آ جاتی ہے۔ یوں قائل کرنے سے زیادہ لاجواب کرنا اور دوسرے کے نقطہ نظر پر غور کرنے کے بجائے دندان شکن جواب دینے پر زور رہتا ہے۔ مولانا آزاد نے کہا تھا، جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے، مناظرے یا اس طرز کی بحثوں میں اعتدال اور توازن فوری طور پر نشانہ بنتے ہیں۔ 
چند دن پہلے گریوی ٹیشنل ویو یا جی ویو کی دریافت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ فطری طور پر سائنس دانوں کی جو ٹیم جی ویو کی تصدیق والے تجربے میں شریک رہی، اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہو گئی۔ وہ سائنس دان جو پہلے گمنام تھے، اچانک ہی لائم لائٹ میں آ گئے۔ انہی سائنس دانوں کی ٹیم میں ایک خاتون ڈاکٹر نرگس موالا والا بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی نژاد ہیں۔ ایک پارسی گھرانے سے تعلق ہے۔ میٹرک انہوں نے کراچی ہی سے کیا اور پھر بعد میں امریکہ چلی گئیں۔ وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ گریوی ٹیشنل ویوز کے موضوع میں ان کی دلچسپی تھی۔ قدرت نے انہیں اس بڑے پروجیکٹ میں شامل ہونے کا موقع بھی فراہم کر دیا اور یوں ڈاکٹر نرگس موال والا بھی اچانک سے دنیا بھر میں مشہور ہو گئیں۔ ڈاکٹر نرگس موال والا کے پاکستانی ہونے کی خبر پاکستان میں خوشگوار حیرت سے سنی گئی۔ یہ فطری ردعمل تھا۔ کسی بھی ملک کا کوئی شہری خواہ وہ بیرون ملک ہی کیوں نہ مقیم ہو، کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے، کسی حوالے سے اسے شہرت ملے، وہ شاعر ہو یا ادیب، گلوکار ہو یا اداکار، کھلاڑی ہو یا کوہ پیما، سائنس دان ہو یا ڈاکٹر یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ہم وطنوں کے لئے وہ عزت کا باعث ہی بنتا ہے۔ 
ڈاکٹر نرگس موال والا کے حوالے سے بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ لوگ خوش ہوئے، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پوسٹیں آنا شروع ہو گئیں۔ یہ خبر جلد آ گئی تھی کہ ڈاکٹر نرگس غیرمسلم ہیں اور ایک پارسی گھرانے سے ان کا تعلق ہے، اس کے باوجود ان کے بارے میں مثبت ہی لکھا جاتا رہا۔ ہمارے ہاں لبرل، سیکولر حلقے کو روایتی مذہبی طبقے سے دو بڑے شکوے ہمیشہ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں مذہبی لوگ یا رائٹسٹ حلقہ نئی سائنسی ایجادات یا دریافتوں کو قبول نہیں کرتا اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں دلیل کے طور پر لائوڈ سپیکر کے خلاف ایک صدی پرانے فتووں کو پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھیں اس وقت مولویوں نے لائوڈ سپیکر کو حرام قرار دیا‘ اور آج سب سے زیادہ وہی مستفید ہوتے ہیں۔ تصویر اور ویڈیوز کے حوالے سے بھی نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ آج تمام مولوی حضرات اپنے جلسوں اور تقاریر کی ویڈیوز اور تصاویر ہر جگہ پھیلاتے ہیں، مگر پہلے اس کے مخالف تھے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ لوگ کسی غیر مسلم پاکستانی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس حوالے سے نوبیل انعام یافتہ قادیانی سائنس ڈاکٹر عبدالسلام کا نام پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ پاکستانی قوم نے انصاف نہیں کیا۔
لبرل، سیکولر لکھنے والے دو شخصیات کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہتے ہیں۔ انہیں یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں تاریخ ان ''عظیم مشاہیر‘‘ کو ان کے شایان شان مقام سے محروم نہ کر دے۔ ایک مغل شہزادہ دارا شکوہ، جس کے بارے میں سیکولر لکھنے والوں نے بلامبالغہ ہزاروں کالم اور آرٹیکل لکھ مارے۔ اس غریب میں وہ وہ خوبیاں ڈھونڈ نکالیں جو اسے خود بھی معلوم نہیں ہوں گی۔ اورنگ زیب پر ہمیشہ لعن طعن کیا جاتا رہا کہ وہ مذہب کا نام لیتا تھا اور آج کل کے حساب سے ''بنیاد پرست‘‘ تھا، جبکہ دارا شکوہ چونکہ آج کل کے حساب سے الٹرا سیکولر تھا، جو ہندوئوں کے تہواروں میں والہانہ انداز سے شامل ہوتا بلکہ اس کا لبرل ازم اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ خود اس کے مداحین کے مطابق وہ کمربند میں چھوٹی مورتی باندھ کر جمعہ پڑھنے مسجد چلا جاتا تھا۔ دوسرے ''خوش نصیب‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں، جن کے لئے ہمارے سیکولر دوست ہمیشہ متردد اور متفکر رہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کے حوالے سے کبھی الگ سے بات کریں گے۔ اس وقت یہ ان دو مثالیںکسی اور تناظر میں دی ہیں۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اس بار سیکولر پوائنٹ آف ویو سے انہونی ہوگئی۔ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت یا تصدیق کی مذہبی حلقوں نے مخالفت کرنے کے بجائے اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا بلکہ بہت سے مذہبی خیالات رکھنے والوں نے اس واقعے سے کئی دلائل اخذ کئے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ قرآن کی بعض آیات کو پہلی بار اس سائنسی تناظر میں رکھ کر بات زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آئی ہے۔ ڈاکٹر نرگس موال والا کے پارسی ہونے نے بھی منفی اثر مرتب نہیں کیا۔ لوگوںنے کہا کہ اگر وہ غیر مسلم ہے، تب بھی بطور پاکستانی اس نے ایک بڑا کام کیا، اس کی تحسین ہونی چاہیے۔ 
اصولی طور پر تو ہمارے لبرل، سیکولر حلقے کو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ چلو کسی ایک معاملے پر تو روایتی رائٹ اور یہ لوگ یکساں ردعمل دے رہے ہیں، مگر ہوا اس کے الٹ۔ اگلے ایک دو دنوں میںسوشل میڈیا پر دھواںدھار بحث شروع ہو گئی کہ یہ مذہبی لوگ سائنس کی ہر بات کو کھینچ کر اپنے مذہب اور الہامی کتاب کی طرف کیوں لے جاتے 
ہیں؟ انہیں یہ بات ناگوار گزری کہ گریوی ٹیشنل ویو سے قرآن کی بعض آیات کی تصدیق کیوں کی جا رہی ہے، سفر معراج کے حقانیت اور سائنسی اعتبار سے اس کو ثابت کئے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ نرگس موال والا کے بعض نجی پہلوئوں کو دانستہ نمایاں کیا جانے لگا۔ عام طور پر سے ہمارے لبرل حلقے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی شخص کی نجی زندگی کی بنا پر اس کے پورے کام کو مسترد نہیں کرنا چاہیے اور نجی معاملات کونہیں اچھالنا چاہیے۔ اس بار یہ بات زور دے کر کہی جانے لگی کہ ڈاکٹر نرگس موال والا تو ہم جنس پرست ہیں، وہ نہ صرف ایک بھارتی خاتون کے ساتھ رہتی ہیں بلکہ ہم جنس پرستی کی حمایت میں ایک بڑے سیمینار سے ان کے خطاب کی ویڈیو بھی نیٹ پر موجود ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ردعمل میں یار لوگوں نے اسی پہلو پر بحث شروع کر دی اور اس میں مغرب کی سازش ڈھونڈ لی۔ 
یہ سب نہ صرف غیر ضروری بلکہ افسوسناک بھی تھا۔ ڈاکٹر نرگس کا اہم پہلو ان کا علم، سائنسی میدان میں قابلیت ہے۔ ویسے بھی ہر انسان کی زندگی کے دو اہم ترین پہلو ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے علم کو اہمیت اور فوقیت دی ہے۔ یہ ہر ایک کے لئے یکساں ہے۔ جو فرد، گروہ، تنظیم یا قوم اس طرف جائے گی، اس کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محنت کرے، اس کے حصے میں کامیابیاں آئیں گی۔ وہ فرد ہو یا قوم دوسرے سے ممتاز ہو جائے گا۔ دوسرا پہلو اس ہدایت کا ہے، جو رب کریم نے نازل کی۔ وہ راستہ جو اس نے بتایا۔ اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ ہدایت کے اس راستے پر نہ جانے والے کو اصل نقصان بعد کی دنیا اور زندگی میں ہے۔ وہ زندگی جو مرنے کے بعد ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں، جس میں فنا نہیں۔ 
علم کے راستے سے دنیاوی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں، اس حوالے سے بلندیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ مسلمان یا غیر مسلم، اللہ کو ماننے والا یا نہ ماننے والا۔ یہ البتہ واضح ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی (Life After Death) کا دارومدار کچھ اور چیزوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہدایت کا راستہ بھی واضح ہے اور اس طرف اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق چلنے ہی میں بعد کی زندگی کی فلاح ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے ٹکرائو نہیں ہے۔ دونوں راستے الگ الگ اور ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ کوئی چاہے تو دونوں حاصل کر لے۔ علم کے راستے پر چل کر حیران کن کامیابیاں بھی سمیٹ سکتا ہے، انسانی زندگی کے لئے بے شمار آسائشیں اور سہولتیںپیدا کر سکتا ہے، بلکہ علم اس لئے حاصل کرے کہ رب تعالیٰ نے اس کی تلقین کی ہے، حکمت، غور کرنے کا درس دیا ہے تو علوم و فنون کے راستے پر چلنے والا ہر قدم اس کے لئے باعث اجر بھی بن سکتا ہے۔ دوسرا راستہ بہت واضح ہے۔ جن چیزوں سے اللہ نے روکا ہے، وہ چھوڑ دے، جن کی ترغیب دی ہے، وہ سب کرے اور رب تعالیٰ کی رحمت سے آخرت میں سرخرو ہونے کی امید رکھے۔
اگر کوئی سائنس دان، عالم یا ادیب، شاعر یا کوئی اور علوم کے میدان میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرے تو وہ تحسین کا مستحق ہے، اسے سراہنا چاہیے، خاص کر اس کا تعلق جب ہماری دھرتی سے ہو، تب اس کے لئے ستائشی احساسات میں مزید نرمی اور لطافت آ جاتی ہے۔ یہ بات مگر واضح رہنی چاہیے کہ اگر اس کی اخلاقی زندگی میں کچھ ایسے پہلو ہیں جو رب تعالیٰ کی تعلیمات سے میچ نہیں کرتے، فطری اصولوں سے بھی انحراف کا باعث ہیں، تو ایسے معاملات میں وہ شخص ہمارے لئے باعث تقلید نہیں۔ ہم اس پہلو سے اختلاف کریں گے، اسے درست نہیں سمجھیں گے، بلکہ دعا کریں گے کہ قدرت اس کی یہ کجی دور کر دے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں