عدم برداشت کے واقعات، حل کیا ہے؟

پچھلے چند برسوں کے دوران ہمارے سماج میں عدم برداشت بڑھی ہے۔ لوگوں میں تحمل نہیں رہا۔ مختلف نقطہ نظر سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ ردعمل کے بے باک اظہارکا رجحان بھی بڑھ گیا ہے، جس کا جوجی چاہتا ہے، کرگزرتا ہے۔ تجزیہ کرنے لگیں تو ذاتی پسند ناپسند اور سوچ آڑے آتی ہے۔ سیکولر حضرات اسے مذہبی شدت پسندی کا نام دیںگے۔ ان کے خیال میں ریاست کو سیکولر بنا دینا ہی اس کا واحد حل ہے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ گویا حسنی مبارک یا جنرل سیسی کا مصر اورکمالسٹوں کے زمانے کا سیکولر ترکی ہی مسئلے کا حل ہے۔ مذہبی گروہوں سے پوچھا جائے تو وہ اس کا ذمہ دار این جی اوز، مغربی ایجنڈے اور امریکہ نواز حکومتوںکو ٹھیرائیںگے۔ پیپلزپارٹی والوںکی نظر میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا مجرم جنرل ضیاء الحق تھا، وہ طے کر چکے ہیں کہ پاکستان میں ہر جرم کی ذمہ داری جنرل کے کاندھوں پر ہے۔ کچھ لوگ اس شدت پسندی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیںگے، ایسے عالی دماغوں کی کمی نہیں جو ہر واقعہ مقتدر قو توںکے کھاتے میں ڈال کر نچنت ہو جاتے ہیں۔ 
ملین ڈالر سوال پھر یہی ہے کہ کیا حل نکالا جائے۔ ہمارے نزدیک بات بڑی سادہ ہے۔ ریاست آہستہ آہستہ اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوتی جا رہی ہے۔ صحت، تعلیم جیسے اہم کام نجی شعبے پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر جیسے معاملے سے بھی پیچھے ہٹا جا رہا ہے، ہر جگہ نجی سیکورٹی گارڈز پر ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے۔ ایسے کام مگر چل نہیں سکتے۔ ریاستی وسائل صرف اللوں تللوںکے لئے نہیں وقف کئے جا سکتے کہ سیاستدان پیسے کے زور پر الیکشن جیت کر آئیں اور پھر مزے لوٹیں، اپنے حصے کا کام نہ کریں۔ مذہبی شدت پسندی سے لے کر عدم برداشت، عدم رواداری تک سب مسائل صرف اس لئے پیدا ہوئے کہ ریاست نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور مختلف گروہوںکو اپنی مرضی سے سب کچھ کرنے کی اجازت دے دی۔ ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا رہے، کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ناعاقبت اندیش مولوی صاحبان مضحکہ خیز فتوے دے کر دوسروں کی زندگی اجیرن بنا دیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی گروہ سڑکوں پر قابض ہوکر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دے، مذ ہبی، سیاسی تقریبات کے لئے گلیوں، سڑکوں پر قبضہ کر کے راستے بند کردے، کسی کو اعتراض نہیں۔ یہ سب انتظامی اور حکومتی کمزوری کی علامات ہیں۔ آج ریاست طے کر لے کہ ملکی قانون پر عملدر آمد کرنا ہے تو چند ہفتوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
قانون کی طاقت کے سامنے کوئی شدت پسند فرد یا گروہ نہیں ٹھیر سکتا۔ یہ سب پاکستان ہی میںکیوں عدم برداشت دکھاتے ہیں، مغربی ممالک میں انہیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ چلو وہ تو غیر مسلم ممالک ہیں، عرب دنیا میں ان سب کو اپنے مسلکی اختلافات، جذباتی رد عمل کیوں یاد نہیں رہتا؟ کسی کی جرأت ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت وغیرہ میں ایسا کچھ کرنا تو دور کی بات ہے، اس کا اعلان ہی کر کے دکھا دے۔ وہاں سب جذبے ٹھنڈے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ہرکوئی جانتا ہے کہ رعایت نہیں ملے گی۔ جیلوں میں برسوں سڑنا پڑے گا یا فوراً ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
یہی سب کچھ پاکستان میں کرنے کی ضرورت ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے یہ لگ رہا تھا کہ فاٹا اور کے پی کے تو ہاتھ سے نکل ہی گئے ہیں، کراچی پر اب صرف فسطائی، بھتہ خور جماعتیں اور گینگ وار گروپ ہی مسلط رہیں گے، بلوچستان کے بارے میں شدید تشویش پیدا ہوچکی تھی۔ صرف سال کے اندرکم وبیش سب کا صفایا ہوگیا۔ شمالی وزیرستان جہاں جانا انتہائی کٹھن تھا، اسے کلیئر کرایا جا چکا ہے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے دہشت گرد کمانڈر چوہوں کی طرح افغانستان کی غاروں میں گھسنے پر مجبور ہوگئے۔ بلوچستان میں ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر منان جیسے بھارتی سپانسرڈ دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ گئے،ان کی تنظیموں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا اور اب صوبائی حکومت کھل کر کہہ رہی ہے کہ کسی نام نہاد ناراض بلوچ رہنما سے مذاکرات نہیں کریںگے۔ جس نے آنا ہے پاکستانی آئین کو تسلیم کرکے وطن واپس آئے اور سسٹم کا حصہ بنے۔کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین کی دہشت ختم ہوگئی۔ ٹارگٹ کلرز قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں، لیاری گینگ وار پر موت منڈلا رہی ہے۔ بابا لاڈلا جیسے سفاک گینگ لیڈر مارے گئے، عزیر بلوچ سرنڈر کرچکا، کراچی کی رونقیں واپس آ رہی ہیں۔ یہ صرف ریاستی عزم اور قانون پر عملدرآمد سے ممکن ہوا۔ 
اسی رویے اور عزم کا مظاہرہ ہرجگہ کرنا چاہیے ۔کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں ملنا چاہیے کہ وہ اپنی من پسند مذہبی تعبیر کی بنا پر ازخود کوئی فیصلہ کرے اور پھرخود ہی اس پر عمل درآمد کرنے نکل کھڑا ہو۔ ایسے ہر شخص یا گروہ کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے اور ایسی قوت کے ساتھ سزا دی جائے کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ صرف ریاست ہی کو ملکی قوانین کے مطابق کسی کے خلاف کارروائی کا حق ہے اور ایسا کرتے ہوئے عدل وانصاف کے بہترین تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری آپشن موجود نہیں۔
میرے خیال میں یہ شدت پسندی ہر طبقے میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ مذہبی حلقوں میں بھی ہے اور غیر مذہبی حلقے بھی اس سے خالی نہیں۔ روایتی مذہبی حلقہ ہمارے ہاں اس حوالے سے بدنام رہا ہے، مگر ہم نے سیکولر اخلاقیات اور علمی روایات کے علمبردارکئی قوم پرست گروہوں (سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی) کو بھی ایسے شدت پسندانہ رویہ کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے خود ایسے گروپس کو اپنی فرینڈز لسٹ سے باہر کیا یا انہیں بلاک کرنا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ اپنے سے مختلف موقف رکھنے والوں کے لئے ان میں برداشت نہیں تھی اور وہ ان پر متعصبانہ لیبل چسپاں کر دیتے تھے۔ یہ رویہ ہمارے بیشتر قوم پرست حلقوں میں ترقی پسند ہونے کے دعوئوں اور سیکولرازم سے محبت کے اظہار کے باوجود پایا جاتا ہے۔ سیکولرازم کے علمی فریم میں حالانکہ ایسے رویوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ویسے یہ بھی ایک الگ سٹڈی کا عنوان ہے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کے قوم پرست (پنجابی قوم پرستوں سمیت) لوگ غیر مذہبی سوچ کے حامل کیوں ہوتے ہیں؟ ان کی فکری گرہیں بھی کھلنی چاہئیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ ایسا کرنے والے مذہبی افراد یا گروہ اپنے مذہب کی ترجمانی نہیں کر رہے ہوتے نہ ہی ایسا کرنے والے غیر مذہبی لوگ درحقیقت سیکولرازم یا لبرل ازم کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ ویسے ایمان داری تو یہ ہے کہ اس قسم کی شدت پسندی اور عدم برداشت کی مثالوں میں مذہبی حلقوںکا حصہ زیادہ رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ یہاں جذباتیت کا دور دورہ ہے اور جذباتی، غیر عقلی تقریریںکثرت سے ملتی ہیں، جن سے متاثر ہو کر کچے ذہن اس قسم کی کارروائیاں کر بیٹھتے ہیں۔ 
دو دن پہلے جنید جمشید کے ساتھ ایئرپورٹ پر جس بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اس پر پچھلے دو دنوں سے سوشل میڈیا پر بڑی ڈیپریس کرنے والی پوسٹیں دیکھیں۔ جنید جمشید والے معاملے کو بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک اور منفی طرز عمل نظر آرہا ہے، وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو معاف کرنا اور اپنی مرضی سے بعض کو مورد الزام ٹھیرانا اور ان کے لئے معافی کی ذرا بھر لچک پیدا نہ کرنا ہے۔ اپنے مسلک کے لوگوں کے لئے روایتی مذہبی حلقے سلیکٹو انصاف برتتے ہیں۔ جن چند لوگوں نے ایسا کیا، انہوں نے غلط کیا، اس میں دوسری کوئی رائے نہیں۔ ان کے چہرے واضح فوٹیج میں موجود ہیں۔ ان کے خلاف قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردی اور اس کی خوفناک تکفیری مذہبی شکل کا صفایا کر دیا ہے۔ اس قسم کی ہراسمنٹ کے واقعات بھی آپریشن ضرب عضب کے دائرہ کار میں لائے جائیں۔ جب تک ریاست اپنی عمل داری نہیں منوائے گی، قانون سب پر نافذ نہیں ہوگا، اس وقت تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں