آپریشن ضرب احتساب!

ہمارے بیشتر لکھنے والوں اور ٹی وی اینکر حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ اب عام آدمی سے ان کا تعلق اس طرح جڑا ہوا نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سوں کا تعلق عام گھرانوں سے ہو گا، مگر وقت کی لہروں پر بہتے بہتے وہ اب کسی اور کلاس کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس میں کوئی برائی کی بات بھی نہیں، اپنی محنت اور صلاحیتیں استعمال کر کے انہوں نے اپنے وسائل بہتر بنائے ہیں۔ دنیا بھر میں کارپوریٹ ورلڈ کا یہی سبق ہے۔ بڑی کمپنیاں، بڑے میڈیا ہائوسز سے جڑنے کا نتیجہ اچھی تنخواہوں اور دیگر سہولتوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے بچے چند ہی برسوں میں اپر مڈل کلاس یا اپر کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب لائف سٹائل بہتر ہوتا، سفر کا ذریعہ بدلتا ہے تو فطری طور پر آدمی اپنی رہائش بھی بدل لیتا ہے۔ وہ زیادہ بڑی، کھلی سڑکوں والی بہتر رہائشی آبادی میں منتقل ہو جاتا، کھانے پینے کے لئے زیادہ مناسب، صاف ستھرے ریستوران کا انتخاب کرتا، خریداری کے لئے جدید برانڈڈ دکانوں، مارکیٹوں کی طرف جاتا اور دوستو ں کا حلقہ بھی رفتہ رفتہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ اس میں طعنے یا شرمندہ ہونے والی کوئی بات نہیں۔ اس حقیقت کا البتہ ادراک ضروری ہے۔
عام آدمی، اس کے مسائل، لوئر مڈل کلاس، ان کی الجھنوں، غصہ، اشتعال، تلخیوںکا اندازہ لگانے کے لئے ان میں رہنا یا کم از کم کچھ وقت گزارنا ضروری ہے۔ ہمارے دانشور، لکھاری اور تجزیہ کاروں کی اکثریت عوام سے دور مختلف جزیروں میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ان کی تحریریں، ٹاک شوز اور تجزیے اسی بات کی گواہی دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو قطعی طور پر اندازہ نہیں کہ عام آدمی بلکہ مڈل کلاس کے اندر کیسا غصہ پل رہا ہے، موجودہ کرپٹ، ظالمانہ، استحصالی نظام کے خلاف وہ کس قدر اشتعال، بیزاری اور نفرت رکھتے ہیں۔ کسی بھی عام چائے خانے میں چلے جائیں، لاہور، کراچی، پشاور، پنڈی، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد... غرض کسی بھی چھوٹے بڑے شہر کے بازار میں جائیں، وہاں تھڑے پر بیٹھے لوگوں سے گپ شپ کریں، ریڑھی والوں سے بات کریں، ان سے حکمرانوں اور موجودہ حکمران سسٹم کے بارے میں سوال کریں۔ ہر ایک ایسی ایسی خوفناک، وحشیانہ سزائیں ان سب کے لئے تجویز کرے گا کہ انہیں اخبار میں چھاپنا یا ٹی وی پر چلانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ایسا ہر آدمی کرپشن کو ملک کا نمبر ون مسئلہ قرار دے گا۔ تھانوں کو وہ ظلم کے اڈے، ہسپتالوں کو قصائیوں کے ڈیرے، سکولوں کو بیکار اور ہر قسم کے انتظامی دفاتر کو ناانصافی کا مرکز سمجھتا ہے۔ جس کسی کو شک ہے، وہ آج کا دن گلیوں، بازاروں میں گزار کر رائے عامہ سے آگہی حاصل کر لے۔ 
اس وقت حیرت ہوتی ہے، جب ہمارے اکثر دانشور اور سوچنے سمجھنے والے لوگ حیران کن طور پر کرپشن کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انتظامی سسٹم کے کرپٹ اور ظالمانہ ہونے کی بات کی جائے، اس میں تبدیلی لانے، اس کے گلے سڑے حصوں کو آپریشن کے ذریعے الگ کرنے کا سوال اٹھایا جائے تو ہمیشہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ تو آئیڈیل ازم ہے، اس طرح تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا، نظام چلتا رہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے امن اور سیاسی استحکام ضروری ہے، کرپشن ثانوی ایشو ہے۔ ثانوی ایشو...؟ ایسی بات کہنا بذات خود ظلم ہے۔ ہر سال چھ سو ارب کی رقم سرکاری اداروں سے بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے۔ کئی ہزار ارب روپے ٹیکس اس ملک سے چوری کیا جاتا ہے، ماہرین کے مطابق تین چار کھرب سیلز ٹیکس، لوگوں سے وصول کر لیا جاتا ہے، مگر سرکاری خزانے میں نہیں پہنچ پاتا۔ اگر اس کرپشن کو نصف بھی کم کر لیا جائے تو عوام پر بہت سے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ 
جب موجودہ سیاسی نظام پر تنقید ہو، اس میں اصلاح کی بات ہو، کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی جائے تو ہمارے بہت سے دانشوروں، سیاستدانوں کو اس کے پیچھے آمریت کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔ اصلاحات لانا، گند صاف کرنا حالانکہ خود سیاستدانوں کے مفاد میں ہے۔ اس سے سیاسی نظام کی کریڈیبلٹی میں اضافہ ہو گا۔ ایسا مگر کبھی نہیں ہونے دیا جاتا۔ پاکستانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاستدانوں نے دیانت داری کے ساتھ سیاسی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہو۔ پارٹیوں میں جمہوریت لانے کا کوئی لائحہ عمل سوچا گیا ہو، کرپٹ ارکان اسمبلی اور کارکنوں کے شفاف احتساب کی راہ ہموار کی گئی ہو۔ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا اور یقینی طور پر مستقبل میں بھی نہیں ہو گا۔ 
دو باتیں اب اس طرح واضح ہو گئی ہیں، جس طرح آج جب یہ کالم پڑھ رہے ہیں، اپریل کی بائیس تاریخ اور سال 2016ء ہے۔ ایک یہ کہ موجودہ نظام بری طرح گل سڑ چکا ہے، ظلم اور استحصال اس کی رگ رگ میں سما چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنا‘ ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے اور اب معاملات زیادہ دیر چلائے نہیں جا سکتے۔ ہم اچھی طرح جان چکے ہیں کہ دہشت گردی اور کرپشن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے اور ظلم، ناانصافی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دہشت گرد بننے کی تو یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ بے شمار دہشت گردوں نے یہ اعتراف کیا کہ کسی ظلم، ناانصافی اور سرکار یعنی سسٹم کی طرف سے کسی بھی قسم کا ریلیف ملنے کی امید نہ ہونے کی وجہ سے وہ بدمعاشوں، دہشت گردوں کی طرف گئے۔ حال ہی میں پکڑے جانے والے چھوٹو گینگ کے پیچھے بھی یہ وجہ تھی۔ ایسی بے شمار مثالیں ملک بھر میں بکھری پڑی ہیں۔
دوسرا یہ حقیقت بھی ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ موجود حکمران، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ کو کوئی دلچسپی نہیں کہ کرپشن کو روکنے کے لئے کچھ کریں۔ شفاف احتساب کی روایت ڈال سکیں۔ ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے نہ ہی ان سے یہ بھولپن والی توقع رکھنی چاہیے۔ وجہ بھی بڑی واضح اور صاف ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن اور سیاست مکس ہو چکی ہے۔ سیاستدان کرپشن کو تحفظ دیتے اور خود کرپشن کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ وہ کیوں احتساب کا کوئی مضبوط ادارہ بنائیں گے کہ ایسے کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہو گا۔ سندھ حکومت میں جس بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ جاری ہے، اگر وزیر اعلیٰ احتساب شروع کر دیں تو خود ان کی اپنی کابینہ کی کتنی کرسیاں خالی ہو جائیں، دائیں بائیں بے شمار گردنیں پھندوں میں پھنسی نظر آئیں اور خود پارٹی قیادت سیاست سے فارغ ہو جائے گی۔ یہی حال پنجاب کا ہے۔ یہاں نیب تھوڑی سی فعال ہوئی تو سیاستدانوں کی بلند شگاف چیخیں زمین سے لاکھوں میل دور موجود سیاروں تک بھی گئی ہوں گی۔ خود جناب وزیر اعظم کو اپنے ایک جلسے میں معمول کی تقریر روک کر نیب کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کرنا پڑی۔ لاہورکے صحافتی حلقوں میں جو کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں، ان کے مطابق تو اگر احتساب کا عمل شروع ہوا تو پہلے ہی ریلے میں کئی مقدس گائیں قربان ہو جائیں گی۔ ایسے میں پنجاب حکومت کو کیا پڑی ہے کہ احتساب کرے یا کرپشن ختم کرنے کی کوشش کرے۔ بیانات اور دعوے کرنے میں کوئی نقصان نہیں۔ ہم سب روزانہ اخبار کے فرنٹ پیج پر خادم اعلیٰ کے بیان پڑھتے ہیں: '' تھانہ کلچر بدل دوں گا، طاقتور طبقات کو استحصال کی اجازت نہیں دوں گا، عام آدمی تک انصاف ہوگا... وغیرہ وغیرہ۔‘‘ کوئی نہیں پوچھتا کہ حضور والا، ایسا کرگزریں ناں۔ کون روک رہا ہے آپ کو؟ تھانہ کلچر بدلنے کے لئے کیا آپ کو بیس تیس سال مزید درکار ہوں گے۔ پچھلے آٹھ برسوں سے تو براہ راست حکمران ہیں آپ، پورے صوبے کے تھانوں میں سے ایک تھانہ بھی بدل کر دکھا دیا ہوتا۔ 
حرف آخر یہی کہ یہ سب کچھ بدلنا ہو گا۔ حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کو ادھر نہیں آنا چاہیے۔ ملک بچانے، سنوارنے کے لئے البتہ ہر ممکن حد تک جانا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہو گیا ہے۔ آرمی چیف نے فوج میں احتساب کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ اس عمل کوفوج کے ساتھ سول میں چلتے رہنا چاہیے۔ پاکستان کو آپریش ضرب عضب کے ساتھ آپریشن ضرب احتساب کی شدید ضرورت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو، یہ تو مجھے نہیں معلوم، مگر ہونا ضرور چاہیے۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اور پارلیمنٹ اس احتساب کے لئے فوجی عدالتوں کی طرز پر کوئی آئینی راستہ نکالے۔ میں ذاتی طور پر سسٹم کو گرائے بغیر اس میں اصلاحات کرنے کی ہر ممکن کوشش کا حامی ہوں۔ اس کے لئے مگر سیاسی قوتوں کو اپنے پرانے طور طریقے بدلنے اورکالی بھیڑوں سے خود کو پاک کر نا ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں