کتابیں اور مطالعہ

دس بارہ سال پہلے کی بات ہے، ایک دوست کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ دوران گفتگو ان کے ایک عزیز تشریف لائے۔ معلوم ہوا کہ خاصے سینئر سرکاری ملازم ہیں۔ گپ شپ ہو رہی تھی، بات کتابوں اور مطالعہ کی طرف مڑ گئی۔ وہ صاحب کہنے لگے: ''میرے نزدیک کتاب اور مطالعہ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ جس گھر میں کتاب اہمیت کھو بیٹھے اور مطالعہ کا عمل رک جائے تو سمجھ لیں کہ مکینوں کی شخصیت، ان کے ذہن اور اخلاق جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے دو چیزوں پر خاص فوکس ہے، ایک ان کی اخلاقی تربیت، دوسرا مطالعہ کا رجحان پیدا کرنا۔ اس مقصد کے لئے روزانہ رات کو ایک گھنٹہ نکالتا ہوں۔ ہم نے اسے سٹڈی آور (مطالعہ کا گھنٹہ) قرار دے رکھا ہے۔ اس وقت میں ہر کوئی اپنی پسند کی کتاب پڑھتا ہے، ہر ویک اینڈ پر دو گھنٹوں کا خصوصی سیشن کیا جاتا ہے، جس میں انہیں مشہور کتابوں سے اقتباسات پڑھ کر سناتا ہوں‘ اور مختلف نامور ادیبوں جیسے اقبال، شیکسپیئر، مولانا آزاد وغیرہ کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے گھر میں کسی روز کھانا نہ پکے یا نہ کھایا جائے، مگر یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے ویک اینڈ کا یہ سیشن نہ کریں‘‘۔
اس وقت تو یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ بچوں میں مطالعہ کا رجحان پیدا کرنے کے لئے اس قدر محنت اور یکسوئی سے کوئی جدوجہد کر سکتا ہے‘ بعد میں اپنے بچوں کے لئے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی۔ مصروف زندگی میں جتنا وقت ہو سکا، نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، جدوجہد جاری ہے، اگرچہ ہمارا مقابلہ ٹی وی کے کارٹون چینلز، گیمز اور انٹرنیٹ جیسے عفریتوں سے ہے۔ مقابلہ قطعی آسان نہیں، مگر بچوں میں کتب بینی کا شوق، ذوق پیدا کرنا ہی ہو گا۔ آج کے بھیانک کنزیومرازم اور نہایت تیز رفتار مشینی لائف سٹائل کو دیکھتے ہوئے کتاب اور مطالعہ ہی واحد دفاعی شیلڈ رہ گئی ہے۔ یہی ایک ایسا ذریعہ ہے، جو ہمیں باطنی دنیا کے ساتھ جوڑے رکھنے کا باعث بنے گا۔ فرصت کے چند لمحات نکال کر علم و ادب کی دنیا میں گزارنا ایک ایسی عیاشی ہے، جس کا اندازہ اس لذت سے آشنا لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب والدین اپنے بچوں کو کہانیاں، ڈائجسٹ پڑھنے سے روکتے ہیں۔ وہ شاید اسے معیاری لٹریچر نہیں سمجھتے‘ ایک نہایت سادہ بات سے شاید بے خبر ہیں کہ سنجیدہ اور معیاری کتابیں پڑھنے کے لئے مطالعہ کی عادت اور سٹیمنا ہونا ضروری ہے۔ جو بچہ پندرہ بیس منٹ تک کتاب نہیں پڑھ سکتا، وہ کیسے مشکل موضوعات پر گھنٹوں مطالعہ کر پائے گا؟ 
اہل علم کے مطالعے اور ان کی پسندیدہ کتابوں سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک ایسی ہی کتاب پڑھنے کا موقعہ ملا، جس نے سرشار کر دیا۔ یہ اہل علم کی مطالعاتی زندگی کے حوالے سے کتاب ''میرا مطالعہ‘‘ ہے۔ عرصہ بعد کوئی ایسی چیز ملی، جس نے پوری رات جاگ کر ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور کیا۔ شاہد اعوان نے ایمل پبلی کیشنز سے اسے شائع کیا۔ شاہد اعوان خود بھی اچھے لکھاری ہیں۔ وہ کئی عمدہ کتابیں چھاپ چکے ہیں۔ یہ کتاب دراصل مختلف اہل علم و ادب سے ان کے مطالعے کی عادات، پسندیدہ کتابوں اور پسندیدہ مصنفین کے بارے میں کئے گئے انٹرویوز ہیں۔ بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عرفان احمد نے اس مقصد کے لئے لاہور سے کراچی اور اسلام آباد تک کے سفر کر کے یہ مواد اکٹھا کیا، جس کی تدوین عبدالرئوف نے کی ہے۔ اس میں ممتاز دانشور، صوفی اور شاعر احمد جاوید، معروف ادیب اور معلم ڈاکٹر اسلم فرخی، دینی سکالر اور سابق وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی (مرحوم)، ممتاز ادیب اور نقاد ڈاکٹر انور سدید، ادیبہ زاہدہ حنا، مورخ ڈاکٹر مبارک علی، عالم دین مولانا زاہدالراشدی، صحافت کے استاد اور کالم نگار ڈاکٹر طاہر مسعود، ادیب ڈاکٹر معین الدین عقیل، ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مورخ ، دانشور ڈاکٹر صفدر محمود، دانشور ڈاکٹر طارق جان (مصنف سیکولرازم، مغالطے، مباحثے)، معروف ادیب، مترجم ڈاکٹر آصف فرخی، بزرگ ادیب اور حکیم محمد سعید کے قریبی ساتھی حکیم محمود احمد برکاتی، لکھاری، تجزیہ کار اوریا مقبول جان، ادیب، سکالر ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم، ماہر اقبالیات ڈاکٹر سہیل عمر اور سکالر پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم شامل ہیں۔ 
یہ کتاب اس قابل ہے کہ اسے پڑھا جائے، اس سے سیکھا جائے، ان سینئر لوگوں کی بتائی کتابیں لی اور پڑھی جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مطالعے کے شائق لوگوں کے لئے یہ کتاب ایک نعمت سے کم نہیں۔ ایک سوال ہر ایک سے پوچھا گیا کہ آپ کو اگر کہیں کسی جزیرے پر تنہائی کے چند ماہ گزارنے پڑیں تو کون سی تین کتابیں لے کر جائیں گے؟ ہر ایک کا جواب دلچسپ اور اپنی اپنی شخصیت کا عکاس تھا۔ احمد جاوید صاحب کی فہرست ریاض الصالحین، دیوان شمس اور دیوان حافظ پر مشتمل تھی، اگرچہ انہوں نے مولانا مودودی کی کتاب ''قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا کہ اس میں مولانا کی فکر اور تمام کتابوں کا نچوڑ آ گیا۔ احمد جاوید مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ کے بڑے مداح ہیں، ان کے بقول ہندوستان میں کسی نے ان جیسا نثری مواعظ پیدا نہیں کیا۔ مولانا تھانوی کی کتاب ''تعلیم الدین‘‘ پڑھنے کی وہ خاص تاکید کرتے ہیں۔ مولانا زاہدالراشدی اپنی تین ناگزیر کتب کی فہرست میں قرآن کریم، احادیث نبوی کے کسی اچھے مجموعے، تاریخی واقعات کی کوئی ضخیم کتاب اور ریاست اخبار کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون کی کتاب ''ناقابل فراموش‘‘ کے نام گنواتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ پر بڑا اہم کام کر رکھا ہے۔ وہ حضرت جی کے ملفوظات پر مبنی کتاب ''فوائدالفواد‘‘ کے زبردست مداح ہیں۔ بقول ڈاکٹر اسلم فرخی‘ ان کی صبح کا آغاز ایک سپارے کی تلاوت اور فوائدالفواد کی ایک مجلس کے مطالعے سے ہوتا رہا۔ اس کتاب کے علاوہ دوسری دو کتب میں وہ دیوان غالب اور صوفیا پر اپنی لکھی کتاب ''دبستان نظام‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کا انٹرویو بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے ول ڈیورانٹ کی کتاب ہسٹری آف سولائزیشن اور برٹرینڈ رسل کی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی کا خاص طور پر ذکر کیا، جن سے انہیں مغربی افکار اور تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملی۔ ڈاکٹر غازی کو کشف المحجوب، حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں بہت کشش محسوس ہوئی۔ ان کے بقول پورے چودہ سو سال میں کسی بھی صوفی کی اتنی جامع اور ٹھوس تحریریں نہیں ہیں، جتنی حضرت مجدد نے لکھیں۔ اے کے بروہی کی کتاب ''فنڈامینٹل لا آف پاکستان‘‘ بھی انہیں بہت پسند تھی۔ 
ڈاکٹر انور سدید اپنی تین ناگزیر کتب کی فہرست میں دیوان غالب، کلیات اقبال اور فیض کی کلیات نسخہ ہائے وفا کو شمار کرتے ہیں۔ زاہدہ حنا والے مضمون سے ان کے اردو، انگریزی کے وسیع مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تین کتابوں میں ول ڈیورنٹ کی دی سٹوری آف سویلائزیشن، جاتک کہانیاں اور دیوان غالب کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی تحریروں کا خاص طور پر ذکر کیا، خصوصی طور پر 'برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ‘۔ عزیز احمد کی اسلامک کلچر پر کتابیں اور ان کے ناول گریز، ایسی بلندی ایسی پستی بھی انہیں پسند آئے۔ ڈاکٹر سہیل عمر نے مثنوی مولانا روم، مجموعہ مشتاق احمد یوسفی اور سیرت نبویﷺ از مارٹن لنگز کو چنا۔ ڈاکٹر آصف فرخی‘ جو دنیا زاد جیسے رسالے کے ایڈیٹر اور نہایت متحرک ادبی شخصیت ہیں، کا کہنا تھا کہ باقی زندگی کے لئے کتابوں میں ڈکشنری ضرور رکھنا چاہوں گا، انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ قرآن کی بھی ستائش کی۔ آصف فرخی نے ادیب حسن منظر کا حوالہ دیا کہ وہ تین کتابوں کے بغیر سفر ہی نہیں کرتے، قرآن پاک، دیوان غالب اور شیکسپئیر۔ ڈاکٹر طارق جان نے نسیم حجازی کا تذکرہ کیا کہ وہ ایک خاص عمر تک اپیل کرتے ہیں، مگر انہیں آج بھی نسیم حجازی پسند ہیں۔ عالی جاہ عزت بیگووچ کی کتاب کی انہوں نے کھل کر تعریف کی۔ اوریا مقبول جان کے بقول ان کی شخصیت پر مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کی تین ناگزیر کتابوں میں ول ڈیورانٹ کی کتاب نشاطِ فلسفہ (The Pleasures of Philosophy)، خطوط غالب اور کشف المحجوب شامل ہیں۔ پروفیسر عبدالقدیر سلیم کی فہرست میں موطا امام مالکؒ، سیرت النبیﷺ از علامہ شبلی، کلیات اقبال اور افلاطون کے ڈائیلاگ ہیں۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر دینی دائرے میں قرآن مجید کے علاوہ فتح الباری، حجتہ اللہ ا لبالغہ، جبکہ ادبی دائرے میں جاوید نامہ، مثنوی روم اور دیوان غالب کا انتخاب کرنے کے حامی رہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں