ایک تیسرا منظرنامہ بھی ہوسکتا ہے

پانامہ لیکس کے آفٹر شاکس چل ہی رہے ہیں۔حکمرانوں کو ایک کریڈٹ بہرحال دینا چاہیے کہ وہ معاملات کو لٹکانے کے ماسٹر ہیں۔ یہ سلیقہ اور ہوشیاری مسلم لیگ ن ہی کا خاصا ہے کہ اچھے بھلے سلگتے ایشو کو وہ ایسے طریقے سے طول کھینچتے ہیں کہ اکثر اوقات وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ ان وعدوں کی جو میاں صاحب نے اپنے ووٹروں سے کئے، مگر پھر ان کی طرف مڑ کر نہ دیکھا۔ اگلے روز بہاولپور سے ادیب اور محقق ابوبکر انصاری کا فون آیا ،بڑا زور دے کر انہوں نے کہا کہ آپ اپنے کالم کے ذریعے میاں نواز شریف صاحب کو یاد دلائیں کہ انہوں نے مئی تیرہ کے الیکشن سے پہلے اپنے جنوبی پنجاب کے ووٹروں کو یہ کہا تھا کہ وہ بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب کا صوبہ بنائیں گے۔ پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ ن ہی کی حکومت تھی۔ میاں برادران نے پیپلزپارٹی پر تنقید کہ کہ وہ بہاولپورجنوبی پنجاب صوبہ کا نام لے کر سیاسی ڈرامہ بازی کر رہے ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے ناموں سے الگ الگ صوبے بنائے گی۔ پنجاب اسمبلی سے اس کی قرارداد بھی منظور کرائی گئی تھی۔انصاری صاحب کے بقول بہت سے پیپلزپارٹی کے ووٹروں نے صرف اسی الگ صوبہ بنانے والے ایجنڈے پر انہوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا اورجتوایا۔ جیتنے کے بعد میاں نواز شریف نے مڑ کر اپنے اس وعدے کی جانب نہیں دیکھا۔
سرائیکی وسیب سے تعلق کی وجہ سے اس قسم کے خطوط اور ای میلز مجھے اکثر آتی رہتی ہیں۔ابوبکر انصاری کو میں کیا کہتا کہ بھائی وہ تو ووٹروں کو بے وقوف بنانے کی ایک ترکیب تھی، پیپلزپارٹی نے بھی سیاسی مفادات کے تحت اپنا اقتدار ختم ہونے سے کچھ عرصہ پہلے اس ایشو کو اٹھایا۔ اگر آصف زرداری سنجیدہ ہوتے تو اس معاملے کو پہلے اٹھاتے اور اٹھارویں ترمیم جسے وہ اپنا سب سے بڑا کریڈٹ قرار دیتے ہیں، اس میں نئے صوبے بنانے کے عمل کو اس قدر پیچیدہ نہ بناتے اور صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کی شرط نہ عائد کرواتے۔وہی کام میاں صاحب نے کیا، ووٹ لے لئے اور پھر مڑ کر جنوبی پنجاب کی طرف نہ دیکھا۔
یہ کوئی ایک وعدہ نہیں مئی کے الیکشن کے بعد جب عمران خان نے دھاندلی کا ایشو اٹھایا اور احتجاجی تحریک شروع کی تو اسے کمزور بنانے کے لئے نواز شریف صاحب نے الیکشن اصلاحات کی بات کی۔ ان کے وزراء بار بار یہ کہتے رہے کہ حکومت انتخابی نظام میں اصلاحات لانا چاہتی ہے، مگر یہ کام پارلیمنٹ میں ہوگا، پارلیمانی کمیٹی اس پر کام کرر ہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان نے تو خیر اپنی نادانی اور عجلت پسندی کی وجہ سے شدید احتجاج کی راہ اختیار کی اور پھر وہ دھرنے میں ایسے پھنس گئے کہ باہر نکلنا ہی ان کے لئے آسان نہیں رہا۔ حکمران جماعت اور میاں نواز شریف صاحب سے البتہ پوچھنا چاہیے کہ دھرنا ختم ہوئے بھی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے، کہاں گئیں وہ الیکشن ریفارمز؟اور تو اور بائیومیٹرک انتخابات کی تجویز پچھلے دو برسوں سے زیربحث ہے، اس پر کس حد تک سنجیدہ پیش رفت ہوئی؟نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے پچھلے سال کہا تھا کہ ایک سال کی تیاری کر لی جائے تو یہ ممکن ہوسکے گا۔ وزیراعظم، کابینہ، الیکشن کمیشن کسی کو یہ خیال نہیں کہ کم از کم ہر ضمنی انتخاب بائیو میٹرک پر لے جائیں۔صوبائی یا قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں اس سسٹم کو پہلے ٹیسٹ کر لیا جائے ، کچھ خرابی سامنے آئے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے۔ اگلے انتخابات کوشفاف بنانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بائیومیٹرک انتخاب کرایا جائے، مگر تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کی اس میں دلچسپی نہیں۔ 
کرپشن کے خاتمہ، احتساب کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھی وزیراعظم نواز شریف کے درجنوں بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے تو خیر اس حوالے سے سینکڑوں بیانات شائع اور نشر ہوئے ہیں۔ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ پنجاب کا طاقتور ترین وزیراعلیٰ، جو صوبے میں ہر سفید وسیاہ کا مالک ہے، جس کے وزیروں میں سے کسی کی اتنی جرأت ہی نہیں کہ اپنے نام سے ایک بیان ہی چھپوا سکیں، اس وزیراعظم کو کس چیز نے روک رکھا ہے کہ وہ صوبے میں کرپشن کا خاتمہ نہ کریں، احتساب کو یقینی نہ بنائیں، اس ظالمانہ تھانے ، کچہری کے نظام کو نہ بدلیں ، لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچاپائیں؟ ان کے پاس اقتدار، اختیارات اور تمام تر قوت موجود ہے۔ اب اگر کچھ نہیں کر پا رہے تو اس کی واحد وجہ نیت نہ ہونا ہے۔ 
ہمارے اہل دانش کا ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ ملک کو امن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ، اس لئے ہمیں اس لیڈر کو چنناچاہیے، جو ملک میں استحکام یقینی بنا سکے۔ اس حلقے کے بقول ایسا لیڈر جو ہیجان پیدا کرے، احتجاجی سیاست کرتا ہو، اس کی ملک کو فی الوقت کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دراصل اوورسمپلی فکیشن ہے ۔ بات اتنی سادہ ہے نہیں۔ ملک کو امن اور استحکام یقینی چاہیے، مگر اس کے ساتھ ساتھ کرپشن ختم کرنے، احتساب یقینی بنانے اور گڈ گورننس رائج کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ برسوں میں ایک ہی پارٹی نے پانچ سال مدت پوری کی، مگر اس کا ملک کو کیا فائدہ پہنچا؟ ان پانچ برسوں میں ملک پر اربوں ڈالر کا بیرونی اور کھربوںروپے کا اندرونی قرضہ چڑھ گیا۔ ایک ایک کر کے قومی ادارے تباہ ہوگئے اور بدترین گورننس ہم سب نے دیکھی۔ الیکشن اگرچہ پیپلزپارٹی ہار گئی (سندھ میں اپنی مرضی کی انتظامیہ ہونے کے باعث وہ جیت گئی)، مگر اس کے وہ تمام لوگ جنہوں نے ملکی دولت لوٹی، وہ محفوظ بیٹھے مزے کر رہے ہیں۔ اب 
جس سٹائل کی سیاست اور حکومت شریف برادران کر رہے ہیں، اس میں بھی خواہ اگلے دو برسوں تک جتنا امن اور سیاسی استحکام رہ جائے،لوٹ مار ختم نہیں ہوگی۔ اربوں ڈالر کا بیرونی قرضہ مزید بڑھ جائے گا، ادارے ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں گے اور یہ ظالمانہ استحصالی نظام مزید ظالمانہ اور تکلیف دہ ہوجائے گا۔ الٹا کمزور انتخابی نظام ، بے پناہ دولت اور طاقتور الیکٹ ایبلز کی بنیاد پر اگر ن لیگ الیکشن جیت گئی تو پھریہ کہا جائے گا کہ عوام نے انہیں مینڈیٹ دے کر ان تمام الزامات کو دھو ڈالا ہے۔ 
سچ یہ ہے کہ امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ کرپٹ اور طاقتور لٹیروں کو پکڑنے کا مکینزم بنانا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ امن اور استحکام صرف لوٹ مار اور کرپشن کے ساتھ ہی آئے۔گڈ گورننس کے چھ اصول ہیں۔ جمہوریت،قانون کی عملداری، شفافیت، احتساب، میرٹ پر تقرریاں اور نچلی سطح تک عوام کی شمولیت۔ یہ اکٹھا پیکیج ہے۔ ضروری نہیں کہ بدترین جمہوریت کا الٹ مارشل لاء ہو۔ بدترین جمہوریت کا موازنہ آمریت یا بہترین آمریت سے نہیں بلکہ بہترین جمہوریت سے کرنا چاہیے۔ یہ تیسرا منظرنامہ ہے۔ ہم سب یہی چاہتے ہیں۔ منتخب وزیراعظم، حکمران جماعت، سیاسی قوتوں پر تنقید کا مطلب آمریت کی حمایت نہیں۔ یہ تنقید اس لئے ہے کہ جمہوری نظام کی تطہیر کی جائے، اس میں مثبت قدریں شامل کی جائیں ، تب جا کر اس کے ثمرات عوام کو مل سکیں گے۔ ورنہ'' موجودہ خصوصیات‘‘کے ساتھ چلنے والے سسٹم کو خواہ جتنا وقت دیا جائے، بار بارانہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے، اصلاح قطعی نہیں ہوسکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں