صادق خان سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

ہمارے بعض قارئین یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ بعض اوقات ایک موضوع پر کالم لکھ کر اس کے کسی خاص پہلو پر اگلی نشست میں لکھنے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر بعد میں اسے بھول بھال جاتے ہیں۔ میئر لندن کے انتخاب میں صادق خان کی غیرمعمولی کامیابی پر چند دن پہلے کالم لکھا تھا، اس کا دوسرا حصہ لکھنا مجھ پر قرض ہے۔ وہی وعدہ پورا کر رہا ہوں۔ 
صادق خان کا لندن کا میئر بن جانا برطانیہ بلکہ یورپ بھر کے لئے بعض حوالوں سے دلچسپی کا حامل ہے۔ اس کا ایک خاص نفسیاتی تاثر بھی پیدا ہوا اور مغربی تجزیہ کار اسے ڈسکس کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس پر چار الگ الگ مگر دلچسپ ردعمل دیکھنے میں آئے۔ روایتی رائٹسٹوں کے حلقے نے صادق خان کی کامیابی ایک پاکستانی نژاد مسلمان کی کامرانی کے طور پر لی‘ اور اسے گلوریفائی کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے حلقے نے اس پر خاصی بے چینی ظاہر کی‘ اور تلملاتے ہوئے مختلف تحریریں لکھی گئیں کہ صادق خان کی کامیابی میں ان کے مسلمان اور پاکستانی پس منظر کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اس پر خوش ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک تیسرے حلقے نے اپنے انداز میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی سیاسی نظام پر تنقید کی کہ یہاں ایسا ممکن نہیں۔ اس پر بعض تحریریں پاکستانی سیاسی سسٹم پر تنقید کا جواب دینے کے لئے ہی لکھی گئیں۔ یہ دعوے کئے گئے کہ ہماری جمہوریت ایسی گئی گزری نہیں۔ ایک عزیز دوست نے جمہوریت کا مقدمہ لڑتے ہوئے سنٹرل پنجاب کے ایک ضلع کا حوالہ بھی دیا، جہاں ایک معروف سیاسی گھرانے کی خاتون کی کوشش سے طاقتور گھرانوں کے امیدواروں کے مقابلے میں نسبتاً کم معروف اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدوار کامیاب ہوئے۔
خیر ان بحثوں میں الجھے بغیر پہلے صادق خان کی غیر معمولی کامیابی کو لیتے ہیں۔ اس الیکشن پر لکھے پچھلے کالم (نو مئی، پیر) میں ذکر کیا تھا کہ اس الیکشن کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا ہوں۔ 
برطانوی ذرائع ابلاغ کو مانیٹر کرنے کے ساتھ ساتھ لندن میں 
مقیم بعض دوستوں سے تفصیل سے گفتگو ہوتی رہی۔ خاص طور پر عارف انیس ملک جیسے کمیونیکیشن ایکسپرٹ‘ جو اس الیکشن میں ایک خاص حوالے سے شامل رہے‘ اور صادق خان کی انتخابی مہم میں اپنی ماہرانہ خدمات بھی پیش کیں۔ باقی پوائنٹس اپنی جگہ، مگر صادق خان کی جیت کا سب سے اہم پہلو ایک فرد کی حیران کن کامیابی کے حوالے سے دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ایک ماڈرن Success Story ہے۔ ایسی کامیابی جسے نہ صرف برطانیہ بلکہ مغرب میں آئی ایم پاسیبل #IMPOSSIBLE، 
#LondonKhan،#MakingItHappen ، YesWeKhan#، #TimeIsNowجیسے ہیش ٹیگ کے ساتھ گفتگو اور سوشل میڈیا کی پوسٹیں ہوتی رہیں۔ عام سے پس منظر کے حامل شخص نے، جس کے والدین محنت کش تھے اور وہ خود بھی کوئی سیلف میڈ ارب پتی نہیں‘ بلکہ مڈل کلاس کا ایک وکیل ہی ہے، اس نے اپنی ذات کے ساتھ جڑے اتنے سارے منفی پہلوئوں کے باوجود یہ معجزہ تخلیق کر دکھایا۔ کسی امیگرنٹ، پھر مسلمان امیگرنٹ اور وہ بھی پاکستانی پس منظر کے تارک وطن خاندان کے شخص کے لئے لندن کا میئر بننا خواب ہی تھا۔ صادق خان نے یہ خواب سچا کر دکھایا۔ انفرادی سطح پر یہ شاندار کامیابی اور روح کو گرما دینے والی موٹی ویشنل کہانی ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو سپنے نہیں تراشتے، انہیں پورا کرنے کے لئے متحرک نہیں ہوتے، ناممکن کو ممکن بنانے کا جذبہ اور خواہش نہیں رکھتے، انہیں صادق خان کو دیکھنا، اس سے سیکھنا چاہیے۔ 
صادق خان کی کامیابی کی دوسری سطح ایک سیاستدان کی ہے۔ خان نے اپنے آپ کو ایک سمارٹ سیاستدان ثابت کیا ہے۔ میرے حساب سے تو وہ ایک زیرک اور نہایت ہوشیار سیاستدان بن کر سامنے آئے ہیں۔ ہوشیار اور سمارٹ میں نے مثبت معنوں میں استعمال کیا ہے۔ صادق خان نے لیبر پارٹی سے اپنی سیاست شروع کی۔ وہ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کے طور پر مشہور ہوئے، اپنا گھر چلانے کے لئے وکالت کی، مگر ساتھ پسماندہ، پسے ہوئے لوگوں کے مقدمات لیتے رہے۔ تارکین وطن، پولیس کے ستائے ہوئے، کالوں، ایشین کمیونٹی کے مظلوم لوگوں کے کیس لیتے رہے۔ ان میں سے بعض کیسز کو میڈیا میں بھی پبلسٹی ملی۔ لوگوں میں گھل مل جانے، ان کے دل جیت لینے والی منکسرالمزاج شخصیت کی حیثیت سے رکن پارلیمنٹ بنے۔ دو بار جیتے اور پارلیمنٹ میں اچھے مقرر کے طور پر پہچانے گئے۔ مسلمان گھرانے سے تعلق ہے، کبھی اس سے انکار نہیں کیا، بطور مسلمان اپنی شناخت برقرار رکھی، نماز جمعہ کے اجتماعات میں شامل ہوتے رہے، مسلمان تنظیموں کے پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔ نائن الیون اور خاص طور پر لندن کے سیون سیون بم حملوں کے بعد مسلمان آبادی دبائو کا شکار ہوئی۔ صادق خان جیسے لوگ اس وقت نمایاں ہوئے۔ انہوں نے عام مسلمانوں کو حوصلہ دیا، انہیں شدت پسندی کی طرف جانے سے روکا اور مسائل پر قابو پانے کے لئے برطانوی سسٹم کا سہارا لینے کی ترغیب دی۔
صادق خان نے لیبر پارٹی کی اندرونی سیاست میں بھی عقل مندی کے ساتھ پوزیشننگ لی۔ ان کا شمار سنٹر لیفٹ کے 
لوگوں میں کیا جاتا ہے، جو سوشل ڈیموکریسی کے علمبردار ہیں۔ صادق خان نے لیبر کے موجودہ سربراہ جرمی کاربائن کا ساتھ دیا‘ اور ایڈ ملی بینڈ کی جگہ کاربائن کو لانے کے لئے کوشاں رہے۔ اس کا انہیں فائدہ پہنچا۔ میئر کے لئے لیبر پارٹی کا امیدوار بننا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ان کا مقابلہ ٹیسا جوئل جیسی تجربہ کار سیاستدان خاتون سے تھا، جو لندن کو اولمپکس کی بڈ جتوانے کا کریڈٹ رکھتی ہیں۔ لیبر کے نظریاتی، انقلابی رومانس رکھنے والوں نے صادق خان کا ساتھ دیا اور وہ امیدوار بن گئے۔ اس کے بغیر ان کا میئر بننا ممکن نہیں تھا۔
صادق خان کی اس کامیابی سے جو چیز پاکستانی سیاستدانوں خاص طور پر تحریک انصاف جیسی تبدیلی کی علمبردار جماعت کو سیکھنا چاہیے، وہ خان کا مختلف گروپوں کے لئے خود کو قابل قبول بنانا ہے۔ لندن ڈھائی سو کے قریب مختلف قومیتیوں کا شہر ہے، جہاں تین سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی شہر اس قدر متنوع اور کثیرالنسل ہو۔ یہاں سیاست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ سو افراد کے اجتماع میں خطاب کرتے وقت یہ ذہن میں رکھنا پڑتا ہے کہ ان میں پندرہ بیس مختلف قوموں کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ ایک کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایسا فقرہ نہ بولا جائے جو دوسرے کو ناپسند ہو۔ صادق خان نے خود کو تمام لندن والوں کا امیدوار بنا کر پیش کیا۔ ہر ایک کے لئے خود کو قابل قبول بنایا۔ لیفٹ، سنٹر لیفٹ کے لوگوں کے لئے رومانس تخلیق کیا۔ لندن کے دو سب سے بڑے مسائل میں ٹرانسپورٹ کے کرایے اور مکانات کا مسئلہ ہے۔ پراپرٹی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ لندن کے پرانے لوگ گھر چھوڑ چھاڑ کر باہر جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ صادق خان نے انتخابات میں دو اہم وعدے کئے کہ وہ اگلے چار برسوں کے لئے بسوں، ٹیوب، ٹرینوں کے کرایے منجمد کر دیں گے اور ہر سال ایک لاکھ کے قریب نئے ہائوسنگ یونٹ بنائیں گے، جنہیں کم آمدنی والوں کو دیا جائے گا۔ لندن کے لئے ماحولیاتی آلودگی بھی اہم ایشو ہے۔ ماضی میں صادق خان ہیتھرو ایئرپورٹ کی توسیع کے حامی رہے تھے، اب انہوں نے اپنے مخالف زیک گولڈ سمتھ کی طرح ایئر پورٹ کی توسیع کی مخالفت کا موقف اپنا لیا ہے۔ الیکشن میں انہوں نے لندن کے شہریوں کے لئے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیمی، ان کی کیریئر کونسلنگ اور بہتر ملازمتوں کو یقینی بنانے کا جامع منصوبہ پیش کر کے نوجوانوں کو گرویدہ بنا لیا۔ ایک دیسی، پاکستانی، مسلمان اور امیگرنٹ خاندان کے پس منظر نے انہیں مسلمانوں، پاکستانیوں، ایشین اور کالوں سمیت دیگر امیگرنٹ کمیونیٹز کے لئے بھی پُرکشش بنا دیا۔ انہوں نے لیبر کے روایتی ووٹوں کے ساتھ اپنی مخالف جماعت کنزرویٹو اور دیگر لبرل جماعتوں کے ووٹ بھی توڑے۔ میئر بننے کے بعد انہوں نے یہ بات کھل کر کہی کہ لیبر پارٹی کو اپنے ووٹ بینک کے علاوہ دوسرے ووٹرز کے لئے خود کو پُرکشش بنانا پڑے گا، ورنہ کامیابی ممکن نہیں۔صادق خان کا مشورہ تو لیبر پارٹی کے لئے تھا، مگر پاکستانی سیاسی جماعتوں خاص کر عمران خان کو بھی اس سے سیکھنا چاہیے۔ اپنی سیاسی بیس کو وسیع کرنا اور مختلف کمیونیٹیز کے لئے خود کو پرکشش بنانا ہی سیاسی معجزے تخلیق کرسکتا ہے۔
سب سے آخر میں یہ کہ صادق خان نے ایک مسلمان، پاکستانی کے طور پر الیکشن نہیں لڑا، مگر ظاہر ہے یہ ٹیگ ان کی شخصیت کا حصہ ہی ہیں۔ انہیں لندن کا پہلا مسلمان میئر کہا گیا اور کہا جاتا رہے گا۔ مذہب نے ان کی جیت میں کم حصہ ڈالا یا زیادہ، ان کی کارکردگی کو اس حوالے سے جج بہرحال ضرور کیا جائے گا۔ صادق خان کے بارے میں تجزیہ کار یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ اگر وہ پرفارم کر پائے تو اگلی بار بھی میئر بن جائیں گے اور آٹھ سالہ میئر کی کارکردگی ممکن ہے انہیں برطانیہ کا پہلا مسلمان وزیر اعظم بھی بنا دے۔ یہ مگر سر دست بہت آگے کی بات ہے، ایک خواب ہی ہے، مگر کون جانے کہ آئی ایم پاسیبل کا قائل صادق خان کہاں تک چل جائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں