کچھ اسلامی نظریاتی کونسل کے دفاع میں..... (2)

اسلامی نظریاتی کونسل پچھلے چند دنوں سے ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود ہی کے مخالف ہیں، ان کی رُو سے اس ادارے کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔ ویسے تو نظریاتی کونسل کیا، یار لوگ ایسے کسی ادارے کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے، جس سے پہلے اسلام کا لفظ آتا ہے۔ کونسل پر تازہ عتاب خواتین کے حوالے سے ان کے زیر غور تجاویزکے حوالے سے نازل ہوا ہے۔ پچھلی نشست میں ہم نے ان چند تجاویز کا جائزہ لیا، جو کئی اعتبار سے غیر معمولی ہیں اور انہیں سراہا جانا چاہیے تھا، مگر ٹی وی چینلز نے تیس بتیس نکات میں سے صرف ایک دو کو پکڑا اور اسی پر طوفان کھڑا کر دیا۔ ٹاک شوز کے شور شرابے سے متاثر ہو کر نجانے کتنی مزید تحریریں وجود میں آئیں اور یوں رائی کا پہاڑ بن گیا۔ ایک اعتراض تو دلچسپ تھا، جسے پڑھ کر ہنسی آئی کہ یہ کیوں لکھا گیا کہ عورتوں سے جبری مشقت پر پابندی ہوگی۔ کیا مردوں سے جبری مشقت پر پابندی نہیں ہے؟ بھائی لوگو سادہ بات ہے کہ جو بل خواتین کے حوالے سے تیار ہو رہا ہے تو اس میں ہر معاملے کا عورت کے زاویہ نظر سے جائزہ لیا جائے گا۔ بچوں کے حوالے سے کوئی قانون بنے تو اس میں ہر جگہ بچوں کا حوالہ ہی آئے گا، اس کا یہ مطلب ظاہر ہے یہ نہیں کہ جو بچے نہیں، ان کے ساتھ زیادتی کی اجازت ہے یا ان کے ساتھ ظلم روا ہے۔ 
یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا قطعی یہ مقصد نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات یا تجاویزکا جائزہ نہیں لیا جا سکتا یا وہ تنقید سے بالاتر ہیں۔ ان کی تجاویز کا تجزیہ ہوسکتا ہے، الفاظ کے مناسب چنائو پر بات ہوسکتی ہے، دیگر پہلو بھی زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ اعتراض صرف یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے عدل اور انصاف کے تقاضے ہاتھ سے نہ جانے پائیں۔ توازن اور اعتدال کے ساتھ بات ہونی چاہیے۔ جو اچھا کام کسی نے بھی کیا ہے، اسے سراہا جائے، غلطی پر گرفت کرنا بنتا ہے، مگرصرف منفی پہلو دیکھنا علمی بددیانتی ہے۔ ہمارے ہاں فکری تقسیم بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامسٹ یا رائٹسٹ کوئی اچھا کام کریں تو اسے سراہا جائے۔ یہی رویہ لبرل، سیکولر حلقوں کے حوالے سے اپنانا چاہیے۔ عملی طور پر اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ مذہبی طبقے کے لوگوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ لبرل یا سیکولر ہونے کا مطلب مذہب دشمن یا الحاد سے متاثر ہونا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہوسکتے ہیں جو الحاد کی طرف مائل ہوں، بہت سے مگر ایسے بھی ہیں، جن کی یہ سوچ نہیں۔ ان میں مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان بھی ہیں جو اپنے فکری سفرکے نتیجے میں آج سیکولرازم کے حامی ہیں۔ ان سطور کے مصنف کو ان نیوسیکولر دوستوں کی سوچ اور اخذ کردہ نتیجہ سے اختلاف ہے، مگر ان کے مختلف رائے رکھنے کے حق کا ہم احترام کرتے ہیں،اس حق کا دفاع کریںگے، اگرچہ اپنا مقدمہ ہم برابر پیش کرتے رہیںگے۔ 
اسی طرح سیکولر حلقے کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر مذہبی سوچ رکھنے والا متشدد یا تنگ نظر نہیں۔ ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتے اور جمالیاتی حس ان کی بیدار ہے، اگرچہ اپنے نفس کو وہ رب تعالیٰ کے احکامات کا پابند بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی رائے برداشت کرنے اور دلیل سے جواب دینے کے قائل ہیں۔ ہاں ان کی فکر کا منبع قرآن وسنت ہے، سیرت رسول ﷺ کو وہ اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ مغربی اخلاقیات کے بجائے وہ اسلام کے ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں اور اسی کی روشنی میں اپنی فکر وضع کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے میں سے جو روایتی دینی فکر کے قائل ہیں، وہ بسا اوقات لفظ بہ لفظ دینی احکامات پر عملدرآمد کو درست سمجھتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس کچھ ان احکامات کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور اسی اصول پر اپنی فکر بناتے ہیں۔ روایتی مذہبی لوگوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ دینی قوانین و ضابطوں کو فوری نافذ ہوناچاہیے، جبکہ حکمت سے کام لینے والے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ لوگوں کو پابندیوں، خاص کر اخلاقی پابندیوں کے لئے پہلے تیار کرنا پڑتا ہے۔ دعوت وتعلیم اور تربیت کے مراحل کے بعد جا کر ایک عام معاشرہ اسلامی معاشرے میں ڈھلنا شروع کرتا ہے۔
اس حوالے سے منہج نبوی ﷺ ہی سب سے درست اور قابل عمل حکمت عملی ہے۔ کس سلیقے سے اللہ کے آخری رسول ﷺ لوگوں میں تبدیلی لائے۔ انہیں ترغیب دی، اللہ کی محبت دلوں میں بھری، اس کی رحمت کا یقین دلایا اور وہ تعلق قائم کیا کہ ایک عام آدمی بھی رب تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے نفس پر جبر کرنے، خواہشات کو قابو میں رکھنے اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرنے کا قائل ہوگیا۔ آپ ﷺ نے بشارتیں بھی دیں اور رب تعالیٰ کے غصے سے ڈرایا بھی، مبشر اور نذیر دونوں کا کردار ادا کیا، مگر ایسی کمال خوبصورتی اور قرینے سے کہ آج غیر مسلم مورخین بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ جب تبدیلی اندر سے آ گئی تو پھر سزائوں کا نفاذ صرف ان چند فیصد لوگوں کے لئے رہ جاتا ہے، جن کے اندر کسی حد تک کجی ہوتی اور جنہیں سزا دے کر معاشرے کو محفوظ بنا نا مقصود ہوتا ہے۔
روایتی مذہبی سوچ رکھنے والے حلقے بعض اصولوں میں بے لچک نظر آتے اوران کے نفاذ میں وہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض سفارشات میں اس کا عکس جھلکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک کام بتدریج ہی ہو پائے گا، اسے حکمت اور دانشمندی کے ساتھ ڈیل کرنے کے بجائے لٹھ مارکہ انداز میں اس پر پابندی کی سفارش کرنے کا کیا فائدہ؟ پہلے سے موجود سفارشات کے منوں وزنی ڈھیر میں ایک اور فائل کا اضافہ... مگر اس سے کیا حاصل ہو پائے گا؟دانش مندی اسی میں تھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل خواتین کے حوالے سے سفارشات والے معاملے کو مرحلہ وار ڈیل کرتی۔ پہلے وہ تجاویز دی جاتیں جن کی عملاً بہت اہمیت ہے اور ہماری خواتین 
بے رحمی سے ان کا نشانہ بن رہی ہیں۔ جیسے بعض اچھے بھلے مذہبی گھرانوں میں بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم بچیاں، ونی کے نام پر استحصال، قرآن سے شادی کا جاہلانہ اور ظالمانہ قانون...اس طرح کے کئی نکات پر اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین متفق ہیں۔ ابھی انہی تک محدود رہا جاتا اور ان پر عمل درآمد کے لئے تمام دینی قوتیں اپنا وزن ڈالتیں تو ہمارا سماج ''مولویوں‘‘ کی اس غیر متوقع سوچ اور پالیسی کو خوشگوار حیرت سے دیکھتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو تیس اکتیس نکات کونسل میں زیر بحث آئے، ان میں خواتین کو تادیب دینے والا معاملہ، پرائمری کے بعد مخلوط تعلیم پر بندش یا موسیقی وغیرہ پر پابندی کی سفارشات نہ ہوتیں توکیا اس سے خواتین کے حقوق میں کچھ کمی آ جانی تھی؟ 
اسی طرح پاکستان میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ فوری طور پر تمام قسم کے مخلوط تعلیمی ادارے بند کردے۔ اس سے ایک خوفناک بحران پیدا ہوجائے گا۔ اس کے بجائے پہلے یہ آپشن تو حاصل کی جائے کہ لڑکیوں کے لئے زیادہ تعداد میں الگ سے تعلیمی ادارے بنائے جائیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کوئی لڑکی خود یا اس کے والدین اسے مخلوط تعلیمی اداروں میں نہ پڑھانا چاہیں تو اس کے لئے ایسے ادارے موجود ہونے چاہئیں، تاکہ ایسی بچیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں۔ لاہور میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور کالج یونیورسٹی موجود ہیں، اسلام آباد میں ویمن یونیورسٹی بن چکی ہے۔ نہایت آسانی کے ساتھ کئی ایسی یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی ہیں، خاص کر جنوبی پنجاب، اندرون سندھ کے علاوہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے علاقوں میں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ 
خواتین کی تادیب والا معاملہ رہ گیا۔ یہ کالم لکھا جا چکا ہے، مگر جگہ کی کمی کے باعث اگلی بار ہی اس پر بات ہو سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں