سوال اٹھانے پر پابندی نہیںمگر۔۔۔۔

بحث چل نکلی ہے، مختلف زاویوں سے بات ہو رہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا اگرچہ اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا، ان کے اپنے مسائل، اپنے ایشوز ہیں۔ قندیل بلوچ کی مولوی عبدالقوی کے ساتھ تصویریں ان کے لئے زیادہ اہم ہیں کہ چٹخارے دار کلپس ناظرین کو زیادہ دیر تک سکرین سے چپکائے رکھنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران یوں لگا جیسے مین سٹریم اور سوشل میڈیا الگ الگ جزیرے ہیں۔ دونوں کی زمین، پانی اور وہاں بسنے والے گویا ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ظاہر ہے عملی طور پر ایسا نہیںہے۔ وہ پاکستانی قوم ہے جس کے لاکھوں بلکہ اب ایک کروڑ سے زیادہ افراد روزانہ فیس بک پر وقت صرف کرتے ہیں، چینلز کے لئے وہ اس سے بہت کم وقت مختص کر پاتے ہیں۔ اس کے باوجود مین سٹریم میڈیا سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز سے ناواقف اور بے پروا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے مباحث ٹی وی چینلز اور ادارتی صفحات سے بالکل مختلف ہیں۔ ایسا نہیں کہ فیس بک کی بحثوں میں لوگ دلچسپی نہیں رکھتے۔ حمزہ عباسی والے معاملے پر ایک طویل پوسٹ میں نے لکھی، تین یا چار کالموں جتنے الفاظ پر مشتمل۔ اُردو ٹرائب نامی ویب سائٹ نے وہ تحریر شائع کی تو سات، آٹھ ہزار فیس بک شیئرنگ ہوئی۔ یاد رہے کہ ایک فیس بک وال پر شیئرنگ کا مطلب ہے کہ چار پانچ ہزار مزید لوگوں (فیس بک فرینڈز) تک وہ تحریر پہنچے۔ اتنی فیس بک شیئرنگ کسی کالم کی نہیں ہوتی۔
حمزہ عباسی کے پروگرام پر پیمرا کی پابندی کے بعد یہ بحث شروع ہوئی ہے کہ سوال پر پابندی کیوں؟ کئی سنجیدہ اہل فکر نے یہ نکتہ اٹھایا کہ سوال پر پابندی کوئی حل نہیں، اس کا جواب دینا چاہیے تاکہ نئی نسل کے ذہنوں میں شکوک پیدا نہ ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ بات معقول ہے، اس سے مکمل اتفاق ہے۔ ہم معاشرے میں سوال کے رجحان کی حوصلہ شکنی قطعی طور پرنہیں کرنا چاہتے۔ اپنا موقف دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، جبر یا قوت سے نہیں۔ اسلامی طرز فکر یہی ہے کہ اپنا نقطہ نظر پوری طرح کھول کر دوسرے کے سامنے رکھ دیا جائے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہی ہے۔ لا محدود قدرت رکھنے والے خالق کائنات نے بھی ڈائریکٹ حکم جاری کرنے کے بجائے حق کو کھول کھول کر دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ بار بار اپنا انکار کرنے والوں کو دلیلوں سے سمجھایا اور خلوص نیت رکھنے والوں کو بتایا کہ اس (قرآن) میں حکمت ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرو، غور و فکر کرو۔ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں (جن کے بغض کی وجہ سے) ان کے دلوں پر مہریں لگا دی گئی ہیں، ہدایت کے راستے ان پر بند ہو چکے ہیں۔ 
حمزہ عباسی والے تنازع میں پہلا اعتراض محترم اینکر پر ہوا۔ وہ ایک معروف اداکار ہیں، رمضان نشریات کو گلیمرائز کرنے کے ٹرینڈ نے انہیں بھی ایک چینل پر جگہ دلا دی۔ حمزہ عباسی شائستہ آدمی ہیں، علم مگر ایک الگ چیز ہے۔ حمزہ نے اپنی گفتگو اور سوال جواب کے اسلوب سے خود کو علمی شخصیت ثابت نہیںکیا۔ جو بحث انہوں نے چھیڑی وہ اس قدر نازک اور حساس تھی کہ کسی غیر محتاط اور نا سمجھ شخص کی مِس ہینڈلنگ سے ملک میں آگ لگ سکتی ہے۔ اس لئے تین اعتراض ہوئے۔ ایک یہ کہ غلط فورم پر یہ بحث چھیڑی گئی ہے، ایسے موضوعات ٹی وی چینلز پر، وہ بھی براہ راست قطعی نشر نہیں کئے جانے چاہئیں۔ دوسرا رمضان کریم کی سحری، افطار نشریات میں یہ موضوع فٹ نہیں ہوتا۔ تیسرا یہ کہ اینکر موصوف بغیر کسی ہوم ورک اور تیاری کے اس میں کود پڑے۔ حال یہ تھا کہ ایسے نازک سوال کا جواب اصرار کر کے ہاں یا ناں میں لینے کے وہ خواہش مند تھے۔ انہیں لگا کہ شاید یہ میٹرک کے کسی سبجیکٹ پر معروضی سوالات کا پرچہ ہے، جس پر ہاں یا ناں کا ٹک مارک لگانا ہے۔ 
پیمرا نے اس موضوع پر ٹی وی شو بند کیا ہے، ملک بھر میں اس پر بات کرنے کی پابندی نہیں لگائی۔ کسی علمی فورم میں اس پر بات ہو سکتی ہے، بلکہ ہوتی رہی ہے۔ محدود علمی فورمز میں اہلِ علم و فکر کے مابین مختلف امور پر بحث جاری رہتی ہے۔ علمی جرائد میں مختلف مباحث مہینوں چلتے رہتے ہیں۔ کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ یہ البتہ ضروری ہے کہ اسلوب شائستہ، متین ہو، نفرت پھلانے والے مواد سے ہر صورت گریز کیا جائے۔
ہمارے بعض احباب نے بڑی تندہی سے اس بحث کو روکنے پر نکتہ چینی کی اور سوال کی حرمت پر بات کی۔ انہیں میرا مشورہ ہے کہ سوال تو سامنے آ ہی چکا ہے، جواب نہ دیے جانے پر کڑھنے کے بجائے اہل علم اس پر اپنا نقطہ نظر شیئر کریں۔ حمزہ عباسی کے سوال پر علمی فورمز میں بے شک اپنی رائے دیں اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ کسی اقلیتی گروہ کے حوالے سے اکثریتی مسلمان آبادی میں تحفظات پیدا ہوں تو وہ کہاں جائیں؟ معاملہ خود اپنے ہاتھ میں لے لیں یا پھر ریاست کی طرف رجوع کریں؟قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے اجماع امت ہے، تاہم اگر کسی کے خیال میں یہ غیر مسلم نہیں تو وہ دلیل کے ساتھ اپنی رائے پیش کرے، مگر جب امت ایسی کسی رائے کو بری طرح مسترد کر دے تو پھر انہیں برا نہیں ماننا چاہیے۔
بعض اہل فکر کو اس پر اعتراض ہے کہ پاکستان میں اسلامسٹ بعض ایشوز پر غیرمعمولی حساس ہیں اور اسی جذباتیت کی وجہ سے مذہب پر بات کرنا ممکن نہیں رہی۔ ایک قابل احترام دوست نے تو اس صورت حال میں سے سیکولرازم برآمد کر لیا کہ اس صورت حال کی انتہا اس طرف لے جائے گی۔ یہ دلچسپ دلیل ہے کیونکہ خیر سے پاکستانی سیکولرسٹوں کے شدت پسندی اور مذہب پر بار بار کے حملوں ہی نے تو مذہبی حلقوں میں اس قدر حساسیت اور عدم تحفظ پیدا کیا ہے۔ مذہبی شدت پسندی کا توڑ سیکولرازم نہیں بلکہ حقیقی مذہبی قوتوں کو پنپنے دینا اور اہل مذہب کے خدشات دور کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکمران اشرافیہ (جنرل ضیا الحق کا عہد چھوڑ کر) بیشتر ادوار میں عملی طور پرسیکولر رہی ہے، مغربی قوتوں اور مغرب نواز لابیوں کے دبائو پر وہ ہمیشہ آئین کو سیکولر بنانے کے در پے رہے ہیں۔ اسلامسٹوں نے برسوں بلکہ عشروں کی عوامی جدوجہد کے بعد کچھ بنیادی باتیں تسلیم کرائی ہیں۔ انہیں کھونے کے لئے وہ ہرگز تیار نہیں، نہ ہی اسلامسٹ ''پہیہ‘‘ دوبارہ سے ایجاد کرانے کے خواہش مند ہیں۔ انہیں خطرہ ہے، جو بادی النظر میں بے جا نہیں لگتا کہ معاملہ صرف ایک سوال کا نہیں۔ آج یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ریاست کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی تھی؟
اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا وہ گروہ غیر مسلم ہے، تیسرا سوال توہین رسالت قانون کی موجودگی پر اٹھایا جائے گا۔ بعض مغربی ممالک سے فنڈنگ لینے والی این جی اوزاس کے لئے پہلے سے متحرک ہیں۔ چوتھا سوال قرارداد مقاصد پر ہوگا، جو ''یاروں‘‘ کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ پانچوں سوال ریاست کو سیکولر بنانے کا ہے۔ چھٹا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے صرف جمہوریہ پاکستان بنانے کا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا سوال آئے گا کہ اس کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہیں، اسے ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ درخواست یہی ہے کہ بھائی لوگ سوال سوال بہت کھیل لئے، اب جواب ڈھونڈو۔ اپنے آج کے بحرانوں کا حل، مستقبل میں امنڈتے مسائل کا جواب۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں