اے موت ، تجھے موت ہی آئی ہوتی

بدھ کا دن بڑا افسردہ ، بے رنگ اور دل پر بوجھ ڈالنے والا تھا۔ قوال امجد فرید صابری کے قتل کی خبر نے ہلا کر رکھ دیا۔ روزانہ سحری، افطاری کی ٹرانسمیشن میں نظر پڑ جاتی تھی، کبھی ان کا کلام بھی سن لیتے تھے۔ بدھ کی سحری ٹرانسمیشن میں مرحوم نے ایسے جذبے سے پڑھا کہ خودان کی بھی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور سننے والوں کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں۔ قوالی سننے سے بہت زیادہ شغف نہیں، لیکن نئے قوالوں میں سب سے نمایاں اور ممتاز امجد صابری ہی تھے۔ ان کا چہرا ایسا مسکراتا اور سافٹ تھا کہ دیکھنے میں بھلا لگتا۔ اس اچانک صدمے نے بڑا دھچکا پہنچایا۔ ٹی وی چینلز پر رات گئے تک ان کے ساتھ پروگرام کرنے والے امجد صابری کو عقیدت اور نہایت محبت سے یاد کرتے رہے۔یہی خیال آیا کہ اس طرح زندگی گزاری جاتی ہے کہ جانے کے بعد ہر کوئی شدت دکھ اور صدمے سے یاد کرے۔ اسی روز ایک اور حادثہ ہوا، اگرچہ اس کی تفصیل میڈیا میں نمایاں نہیں ہو سکی۔ کتاب ''میرا مطالعہ ‘‘کے ناشر اور معروف بلاگر برادر شاہد اعوان نے ایک پوسٹ لکھی کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر طیب منیر حادثے میں انتقال کر گئے۔ شاہد اعوان نے شعر بھی نقل کیا ؎
غم حبیب شکایت ہے زندگی سے مجھے
تیرے بغیر بھی کٹتی رہی، ذرا نہ رکی 
ڈاکٹر طیب منیر سے کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی، مگر ان کا تذکرہ سنا تھا۔ سنجیدہ سکالر تھے، علم دوست اور کتاب دوست۔ کتابیں جمع کرنے کا شغف تھا، نایاب کتب بھی ان کی لائبریری کا حصہ تھیں، ان کی خاص بات علم کو پھیلانے کا جذبہ تھا۔ اپنے شاگردوں میں تو بہت مقبول تھے ہی، ساتھی اساتذہ اور اپنے سے کم عمر اہل علم کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے، رابطہ رکھتے، اہم کتابیں شیئر کرتے اور علمی کام کرنے پر اکساتے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر قیصر شہزاد نے نہایت دلگداز تحریر اس حوالے سے لکھی۔ عزیز ابن الحسن ، عاصم بخشی اور مرحوم کے جاننے والے دیگر لوگ شدید کرب کی کیفیت میں تھے۔ ہمارے میڈیا میں بدقسمتی سے اہلِ علم کی موت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، کسی چینل کے پاس اس کے لئے وقت ہوتا ہے نہ ہی پرنٹ میڈیا میں اہل علم کے لئے مناسب جگہ ہے۔ 
موت تو برحق ہے، ہم سب اس پر یقین رکھتے ہیں، مگر یوں اچانک کسی کا چلے جانا روح کو ویران کر دیتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میرے پسندیدہ لکھاری کاشف زبیر کی موت کی اچانک خبر نے دل پر ایسی چوٹ لگائی کہ دکھ کے سائے سے باہر نہیں آیا جا رہا۔ کاشف کے ساتھ چند سال پہلے تعارف ہوا۔ ان کی اہلیہ مریم کاشف نیک دل خاتون ہیں۔ پی او بی ایک سماجی تنظیم ہے جو آنکھوں کے شعبے میں کام کرتی ہے، ملک کے مختلف علاقوں میں یہ کیمپ لگاتی ہے، جہاں نادار مریضوں کے سفید موتیے کے مفت آپریشن کئے جاتے ہیں۔ پی او بی کے ایک کیمپ میں شرکت کی اور ان کے کام کو تفصیل سے دیکھا تو اس پر کالم لکھا۔ مریم کاشف میرے کالم پڑھا کرتی تھیں، انہوں نے ڈاکٹر انتظار بٹ کو فون کیا اور پھر پی او بی کے سماجی کاموں کو فیس بک اور دیگر فورمز پر متعارف کراتی رہیں۔ ایک دو بار مجھ سے بھی بات ہوئی، کاشف زبیر سے بھی تعارف ہوا۔ کچھ عرصے بعد کراچی جانا ہوا تو کاشف کے اصرار پر ان کے گھر گیا۔ کاشف زبیر نہایت نیک دل اور صالح انسان تھے۔ گیارہ برس کی عمر میں ایک حادثے کے نتیجے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگ گئی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ ایک سال وہ بستر پر ہی رہے۔ پھرہمت کر کے معذوری کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اورکراچی یونیورسٹی سے گریجوایشن کر لی۔ کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ڈائجسٹوں کی دنیا کے ایک جادوگر رائٹر علیم الحق حقی(مرحوم) کی ایک کہانی سے متاثر ہو کر کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ پہلی کہانی جاسوسی ڈائجسٹ میں شائع ہو گئی، یوں سلسلہ چل نکلا۔ کاشف ہر ماہ جاسوسی، سسپنس اور سرگزشت ڈائجسٹوں کے لئے کئی کہانیاں لکھتا اور ای میل کر دیتا۔ یہ کہانیاں اس کے نام کے علاوہ اہلیہ مریم کے خان، والدہ پروین زبیر 
اور بھائی آصف خان کے نام سے شائع ہوتیں، کئی قلمی ناموں سے بھی چھپ جاتیں۔ وہ روزانہ اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر دس سے بارہ گھنٹے لکھتا رہتا اور کہانیوں کے معاوضے سے گھر کا خرچہ چلاتا۔ کاشف کی کہانیاں پڑھنا شروع کیں تو حیرت ہوتی کہ ایک نوجوان جو گھر سے باہر قدم نہیں نکالتا، کس طرح دوسرے ممالک کے ماحول، کلچر کی ایسی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ یہ اس کا تخلیقی ہنر تھا جس نے اسے دوسرے لکھاریوں سے ممتاز بنا رکھا تھا۔ سرگزشت ڈائجسٹ میں اس کی کہانی سائبان دس گیارہ برس چلی۔ پچھلے تین چار برسوں سے میں یہ کہانی باقاعدگی سے پڑھتا تھا اور صرف اسی غرض سے رسالہ لگوا رکھا تھا۔ ایسی دلچسپ کہانی تھی کہ ڈائجسٹ آتے ہی اپنے ضروری کام چھوڑ کر میں پہلے سائبان پڑھتا۔ کچھ عرصہ قبل اچانک ہی ایک فیس بک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں کاشف زبیر کی موت پر اظہارِ افسوس کیا گیا تھا۔ دیکھ کر شل رہ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پتے کی پتھری کا مسئلہ نجانے کیسے بگڑتا ہی گیا، گردوں کا مرض شدید ہوگیا اور بھی کئی مسائل ہوگئے۔ کاشف زبیر کا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں پا رہا۔ دو سال پہلے کراچی میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کی تقریب میں جانا ہوا۔ کاشف زبیر ویل چیئر پر وہاں ملنے آئے۔ نہایت محبت سے ملے اورخوشی سے بتایا کہ ایک ٹی وی ڈرامے کا سکرپٹ بھی لکھا ہے ۔ تفصیل پوچھی تو بتایا کہ ٹی وی پر 
نام کسی اور رائٹر کا چلے گا،کاشف کو اس رائٹر نے پیسے دے کر لکھوایا۔ سن کر تکلیف ہوئی، میں نے کہا کہ آپ کی محنت کا ثمر کوئی اور لے جائے گا۔ کاشف نے خوش دلی سے مسکرا کر کہا، چھوڑیں عامر بھائی، یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ دوسرے بڑے رائٹرز بھی میری صلاحیت دیکھتے ہوئے کام دیں گے، یوں حالات کچھ بہتر ہو جائیں گے۔ کاشف یوں اچانک دنیا سے چلا گیا کہ مجھ سمیت ان کے بے شمار قارئین کو یقین نہیں آ رہا۔ ڈائجسٹ والوں نے سائبان کا فوری اختتام کرنے کے لئے کسی اور رائٹر کی خدمات لی ہیں اور یوں ایک نہایت دلچسپ کہانی کا بیڑا غرق ہوگیا۔ اصل صدمہ تو کاشف کے اہلخانہ کو برداشت کرنا پڑے گا، جنہیں وہ اچانک ہی بے سہارا چھوڑ گیا۔ 
زندگی، موت کا عجب کھیل ہے۔ جس نے آنا ہے، اس نے جانا ہے اور وقت بھی خالق کی مرضی سے طے ہو گا۔ ہمارے پاس سوائے سر جھکانے کے کوئی اور چارہ نہیں۔ لوگوں کا چپکے سے چلا جانا البتہ یہ پیغام ضرور دیتا ہے کہ دنیا واقعی سرائے ہے، ہم ایسے مسافر جن کے کُوچ کی کوئی خبر نہیں۔ کسی بھی لمحے روانگی کی سیٹی بجے گی اور مسافر کو رخصت ہونا پڑے گا۔ ہم دنیا کے لمبے چوڑے منصوبوں میں الجھے رہتے ہیں، نجانے کیا کیا سوچتے ہیں اور پھر لمحہ بھر کی مہلت نہیں مل پاتی۔ زندگی میں دوسروں کے ساتھ گزارے لمحات، ان کے ساتھ سلوک اور بھلائیاں ہی ایسی چیزیں ہیں جو بعد میں یاد رکھی جاتی اور دعا کا باعث بنتی ہیں۔ دیوان سنگھ مفتون نے لکھا تھا: کامیاب زندگی کا تصور میرے نزدیک یہ ہے کہ آدمی مرے تو اس کے جنازے میں بہت سے سوگوار شریک ہوں اور اس کے جاننے والے اسے دکھ سے یاد کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں