کچھ خواتین کے حقوق کے بارے میں

دوسرے بعض ایشوز کی طرح خواتین کے حقوق کا معاملہ بھی ہمارے ہاں دو انتہائوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو مغربی اخلاقیات کی عینک لگا کر ہر معاملے کو دیکھتے ہیں، خواتین کے حوالے سے بھی یہ لوگ وہی اقدار اور ٹرینڈز پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیںجوامریکہ اور یورپ میں رائج ہیں۔ اس سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کا سماجی فیبرک کیا ہے؟ ہمارے ماحول کی ضروریات، سماجی مسائل مغرب سے کس قدر مختلف ہیں،جنہیں نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ دوسری جانب خالصتاًروایتی سوچ رکھنا والا طبقہ ہے جو اپنی قدامت پسندانہ ذہنی سوچ میں معمولی سی تبدیلی لانے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ یہ اس قدر بے لچک ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے بچیوں کے سکول بند کرنے کی غلط پالیسی کا بھی دفاع کریں گے۔درست طریقہ اس حوالے سے اعتدال کا ہے۔ جو خرابیاں ہیں، ان کا بھی اعتراف کیا جائے اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے حل کی جانب حقیقت پسندانہ انداز میں بڑھا جائے ۔ یہ بات مگر ہر ایک پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستا ن مغربی ملک نہیں ہے ، کبھی نہیں بن سکتا۔ اس کا اپنا ایک کلچر، مذہبی روایات اور مشرقی ماحول ہے۔ ان سب کے امتزاج سے معاملات آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ 
پہلے تو ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال خاصی ابتر اور نا پسندیدہ ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں عورت کا بدترین سماجی استحصال کیا جاتا ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے جو حقوق عورت کو دئیے تھے، ان کا ایک تہائی بھی آج اسے میسر نہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اچھے بھلے مذہبی گھرانوں میں بھی بچیوں کو وراثت نہیں دی جاتی ۔دیہی معاشرے میں عورت کی حالت مزید ابتر ہے۔غریب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت تو ہر قسم کے حقوق سے محروم ہے۔اس کی 
حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہے کہ ان کی بھی کچھ نہ کچھ دیکھ بھال ہوجاتی ہے۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر دودھ دوہنے ، گوبر کی صفائی سے لے کر دوسرے بے شمار کام کرتی اور رات تک مشین کے سے انداز میں یہ معمول جاری رہتا ہے۔ سخت گرمی ہو یا سردی ، اس کے لئے کہیں پر کوئی رعایت موجود نہیں۔بے انتہا کام کرنے کے ساتھ ساتھ تقریباً روزانہ کے حساب سے بے رحمانہ مار پٹائی اس کا مقدر ہے۔ دیہات میں بیویوں کی پٹائی عام رواج ہے اور نچلے طبقے میںمرد اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شہروں میں کام کرنے والی ملازمائوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اکثر لوگ یہ بتلاتے ہیں کہ ان کی ملازمہ اپنے خاوند سے پٹ کر ، چہرے پر نشان ڈلوائے آتی ہے اور کسی قسم کی کارروائی بھی نہیں کرنے دیتی کہ اسے گھر سے نکالے جانے اور بچے چھینے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اپنے میکے وہ جا نہیں سکتی کہ وہاں بھابھیاں طعنے مار کر جینا حرام کر دیتی ہیں اور ماں باپ بھی سمجھوتے کے لئے دبائو ڈالتے ہیں۔ یہ کوئی کہانی یا فسانہ نہیں بلکہ سامنے کی حقیقت ہے، ہم سب اس کو جانتے ہیں اور دانستہ آنکھ بند کر لیتے ہیں۔
خواتین کے ساتھ ایک بڑا ظلم انہیں وراثت کی جائیداد نہ دینا ہے۔ زمین دار گھرانوں میں یہ عام رواج ہے کہ بہنوں کو جذباتی بلیک میل کر کے اپنے حصے کی جائیداد بھائی کے نام کراد ی جائے۔اگر بہن خود یا اپنے خاوند کے کہنے پر ایسا نہ کرے تو پھر جبراً ایسا کر لیا جاتا ہے ۔ بعض جگہوں پر قرآن کے ساتھ شادی کا خوفناک رواج بھی موجود ہے ۔ بعض نامور گھرانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس رواج کا اطلاق وہاں بھی ہوتا ہے، واللہ اعلم۔
ایک اور المیہ جس میں ریاست کے ساتھ ہم سب یعنی مرد حضرات شریک ہیں، وہ ملازمت کے لئے نکلنے والی خواتین کو بہتر ماحول فراہم نہ کرنا۔ ہم ابھی تک اپنی بچیوں کے لئے بہتر ٹرانسپورت کا انتظام بھی نہیں کرپائے ۔یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ تعلیمی اداروں اور دفاتر جانے والی بچیوں، خواتین کے لئے صبح اور دوپہر یا سہ پہر کو الگ سے بسیں چلائی جا سکتی ہیں۔ لاہور، کراچی، پنڈی ، پشاور، کوئٹہ ،فیصل آباد، ملتان ، حیدرآباد ، سکھر جیسے شہروں میں یہ نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ چند کروڑ کے اخراجات سے خواتین کے لئے الگ سے آرام دہ، زیادہ محفوظ ٹرانسپورٹ دستیاب ہوجاتی۔ آج کل جو بسیں موجودہیں، ان میں خواتین کے لئے الگ جگہ ہوتی ہے، مگر وہ چند ایک سیٹیں رش کے وقت کافی نہیں ہوپاتیں۔جہاں ویگنیں چل رہی ہیں، وہاں تو صورتحال زیادہ مایوس کن ہے۔ ٹرانسپورٹ کے علاوہ ہمارے مرد حضرات کا رویہ بھی بیشتر کیسز میں قابل اعتراض ہوتا ہے۔ گھور گھور کر دیکھنے اور موقعہ ملنے پر قابل اعتراض حرکت کر گزرنا۔ اسلام نے جہاں خواتین کو اپنا جسم ڈھانپنے کی ہدایت کی ہے، وہاں مردوں کو آنکھیں نیچے جھکانا(غص بصر)کی تلقین کی گئی۔ یہ واحد اسلامی حکم ہے جس کا سب سے کم ذکر کیا جاتا ہے اور اس پر عمل درآمد تو نہ ہونے کے برابر ہے۔اسلام آباد میں مقیم ایک جاننے والی خاتون نے ایک بار بتایا کہ جب وہ شام کو گھر جاتی ہیں تو رگڑ رگڑ کر منہ دھوتی ہیں، انہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کے چہرے پر مردوں کی تیکھی، گھٹیا نظریں ابھی تک چپکی ہوئی ہیں۔ یہ اس عورت کا بیان ہے جو شائستہ لباس میں ملبوس ، سر پر سکارف لئے دفتر جاتی ہے۔ 
اللہ کے نبی ﷺنے چودہ سو سال پہلے عورت کو پسند کا حق دیا۔ واضح کر دیا کہ باپ کو شادی سے پہلے اپنی بچی کی پسند ملحوظ خاطررکھنا چاہیے اوربعض ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں بیٹی کو حق دیا کہ باپ کا فیصلہ تسلیم کرے یا اس سے انکار کر دے۔ ہم ویسے تو اپنے آپ کو عاشق رسول ﷺکہلوانا پسند کرتے ہیں، فخریہ خود کو امتی کہتے ہیں، مگر اپنے نبی ﷺ کی ہدایات یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچیوں کا رشتہ بغیر پوچھے طے کر دیا جاتا ہے اور پھرا ن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح باپ اور بھائیوں کی محبت میں اقرار میں سر ہلا دے۔ اللہ اور اللہ کا رسول کہتا ہے کہ بچی کی پسند ملحوظ خاطر رکھو، لیکن عام رواج ہے کہ اگر کہیں کوئی لڑکی کسی کو پسند کر بیٹھے اور شائستگی سے اپنی والدہ کو اس کا اشارہ دے اور لڑکے کے گھر والے قرینے سے رشتہ مانگنے آ جائیں، تب بیشتر کیسز میں انکار کر دیا جاتا ہے اور باپ ، چچا ، بھائی وغیرہ اسے لڑکی کی بے شرمی، بے غیرتی سے تشبیہ دیتے ہیں۔یہ نہایت شرمناک رویہ ہے۔زندگی جس نے گزارنی ہے، اس کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے، اگر کوئی بڑا سنگین مسئلہ نہیں ہے تو معاملہ آگے بڑھانا چاہیے اور 
اپنی انا، ذات برادری جیسے جھوٹے دکھائوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ 
یہ چند نمایاں مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا، مسائل تو اور بھی بہت سے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی ممالک سے فنڈنگ پانے والی این جی اوز ان مشکلات کا وہ حل تجویز کرتی ہیں جو اہل مغرب کو مرغوب ہے، جبکہ دوسری طرف ہمارے روایتی دینی طبقے اور دینی سیاسی جماعتیں ردعمل میں یا تو ان مشکلات ہی سے منکر ہوجاتی ہیں یا پھر وہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل تجویز نہیں کر پاتیں۔ این جی او ز مائنڈ سیٹ پر تو چلو ہمیں تنقید کرتے رہتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ خواتین کی ابتر حالت ہماری مذہبی جماعتوں کا ترجیحی ایشو کبھی نہیں رہا۔یہ جماعتیں، تنظیمیں اور دینی حلقے کبھی خواتین کے ایشوز کی بحث میں شامل نہیں ہوئے، سٹیک ہولڈر بننے کو تیار ہی نہیں۔ریکارڈ درست کرنے کے لئے ضرور کچھ باتیں ان کے منشور میں شامل ہیں، خواتین کے عالمی دنوں پر پریس ریلیز جاری ہوجاتی ہیں، رسمی مضامین بھی، مگر کوئی ٹھوس بامعنی پیش رفت کبھی نظر نہیں آئی۔ خواتین پر گھریلو تشدد ہو، جائیداد میں حق نہ دیا جانا، شادی میں مرضی پوچھنا، دفاتر میں مناسب ماحول اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی فراہمی جیسے معاملات میں جیسا موثر کردار مذہبی حلقوں کو ادا کرنا چاہیے، ویسا ہوتا نہیں۔ پھر جب این جی اوز سیکٹر ان ایشوز کو ہائی جیک کر لیتا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، تب مذہبی حلقہ بڑا مضطرب ہو کر پیچ وتاب کھاتا ہے۔ ایسے میں گلہ شکوہ کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں۔ جب آپ کچھ نہیں کریں گے تو پھر باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہی جائے گی۔ 
اگلی نشست میں ہم جائزہ لیں گے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کیا کرنے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں کس طرح افراط وتفریط سے بچا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں