کیا ہم کشمیریوں کو بھلا بیٹھے ہیں؟

چند دن پہلے حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میںمظاہرے شروع ہوگئے تو ان کی شدت نے پاکستان میں بہت سوں کو حیران کر دیا ۔برہان وانی شہید کا جنازہ بھی تاریخی تھا۔ لاکھوں لوگ شامل ہوئے۔ چار بار نماز جنازہ پڑھائی گئی، جبکہ مختلف شہروں میں بے شمار غائبانہ نماز جنازہ ہوئیں۔ اس جنازے اور اس کے بعد بھارتی فوج اور پولیس کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ سے درجنوں پرامن کشمیری شہیدہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ردعمل اس قدر شدید تھا کہ کئی شہروں میں کرفیو لگانا پڑا۔کئی صحافی دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں اچانک کیا ہوگیا؟ یہ سوال سن کر صدمہ پہنچا ، انہیں بتانے کی کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر کبھی مکمل خاموش نہیں ہوا ۔ کبھی اس کاآتش فشاں پھٹ پڑا تو کبھی لاوا ابل ابل کر آس پاس گرتا رہا ۔ اضطراب، بے چینی ا ور شدید فرسٹریشن کی فضا وہاں کئی برسوں سے جاری ہے، مگر پاکستانی حکومت، میڈیا اور عوام کشمیریوں سے مکمل طور پر غافل رہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے کشمیریوں کو مکمل طور پر بھلا دیا ۔
مقبوضہ کشمیر کی جدید تحریک مزاحمت نوے کے عشرے سے شروع ہوئی، اس کے تین الگ الگ فیز ہیں۔ 1987ء میں مقبوضہ کشمیر کے ریاستی انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی، نوجوان نسل کو اندازہ ہوا کہ بھارتی حکومت انہیں قطعی گنجائش نہیں دے رہی ۔ یوں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا، حزب المجاہدین تشکیل پائی۔ سید صلاح الدین، اشفاق مجید وانی ، عبدالمجید ڈار جیسے نام مشہور ہوئے۔ حزب المجاہدین نے جو چراغ جلایا، اس کی روشنی پھیلتی گئی۔ افغانستان میں افغان جہاد ختم ہوچکا تھا۔ روس کی واپسی کے بعد مجاہدین واپس لوٹے اور پھر ان میں سے کچھ نے مقبوضہ کشمیر کا رخ کیا۔ حرکتہ الجہاد الاسلامی اور حرکت المجاہدین نے مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے ساتھ جدوجہد شروع کی۔ لشکر طیبہ بھی انہی دنوں وجود میں آئی ، جس نے اپنے جارحانہ انداز سے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو ایک نیا رخ دیا۔ نوے کا عشرہ اسی جدوجہد میں گزرا۔ اس جہاد کوہماری جانب سے بھرپور''اخلاقی ‘‘مدد حاصل رہی۔ اس بارے میں مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔( ایک حلقہ اب یہ سمجھتا ہے کہ مسلح جدوجہد میں ہمارے ہاں کے نوجوانوں کو شامل نہیں ہونا چاہیے تھا کہ چند سال بعد انہی میں سے بعض سپلنٹر گروپوں نے پاکستانی ریاست اور اداروں کے لئے مسائل کھڑے کئے۔) اس بحث سے قطع نظر جب مقبوضہ کشمیر میں وار تھیٹر چل رہا تھا، تب ان پاکستانی نوجوانوںکو جو کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتے اور بھارتی کھلے ظلم وجبر کی مزاحمت کرنا اپنا دینی فرض سمجھتے تھے، انہیں روکنا آسان نہیں تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں گمنام مجاہدین کی بے شمار قبریں موجود ہیں۔ پنجاب ، خیبر پختون خوا اور کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجواننوںنے کشمیریوں سے یک جہتی کے چراغ اپنے لہو سے جلائے۔ اللہ ان کے جذبوں کو قبول فرمائے ۔
نائن الیون نے جہاں دنیا بھر کو دہلا کر رکھ دیا، مقبوضہ کشمیر کے وار تھیٹر یکدم سے تہہ وبالا ہوگیا۔ اچانک ہی ورلڈ ویو تبدیل ہوگیا، مسلح جدوجہد کی کوئی اخلاقی، قانونی حیثیت نہ رہی، خواہ مقصد کتنا ہی بڑا ہو۔ کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندی لگ گئی۔ پاکستانی جنگجوئوں کو وہاں جانے سے روک دیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین جیسی مقامی تنظیم کا وجود تو برقرار رہا، مگر ان کی کارروائیاں برائے نام رہ گئیں۔ دو ہزار ایک سے دوہزار آٹھ تک عرصہ خاموش احتجاج کا فیز تھا۔ اس دوران بھارتی فوج، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے دل جیتنے میں ناکام رہی، ظلم ، جبر اور ناانصافی کا دور جاری رہا۔ دوہزار آٹھ میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں دو کشمیری لڑکیوں کی زیادتی کے بعد قتل کے افسوسناک واقعے نے پورے مقبوضہ کشمیرکوشدید بھونچال سے دوچار کر دیا۔ عوامی غصہ اور نفرت باہر آگئی، مظاہروں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے ریاستی انتطامیہ مفلوج ہوگئی۔ اگلے دو تین برس تک یہ احتجاج چلتا رہا ۔ دو ہزار دس میں یہ خالصتاً پرامن ، سیاسی جدوجہد اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اگلے سال مشرق وسطیٰ میں عرب بہار کا طوفان آیا۔یہ بہترین موقعہ تھا کہ کشمیری اپنی بھرپور عوامی جدوجہد کے ذریعے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتے تھے۔، افسوس مختلف وجوہ کی بنا پر اس موقعہ کو استعمال نہ کیا جا سکا۔ اگلے برسوں میں معاملات دگرگوں ہوتے گئے ۔ نوجوان فرسٹریشن کا شکار ہو کر حزب المجاہدین کی طرف جانے لگے۔ دو ہزار پندرہ سے مسلح جدوجہدتیز ہو گئی۔ 
کشمیریوں کی جدوجہد کا حالیہ فیز دو تین حوالوں سے ماضی سے مختلف ہے۔ اس بار سو فیصد مقامی تحریک مزاحمت ہے۔ پاکستان سے جنگجو نہیں جا رہے، نہ بدلے حالات میں ایسا ممکن ہے۔ جنگجو مقامی کشمیری ہیں اور اس بار مقبوضہ کشمیر کے معروف خاندانوں کے لڑکے اس میں شامل ہیں۔ ایسے خاندان جنہیں ہر کوئی جانتا ہے۔ ان پر پاکستانی درانداز ہونے کا الزام کوئی نہیں لگا سکتا۔ فیس بک اور ٹوئٹر کو یہ کمال مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ خاص کر فیس بک پر چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپس کے ذریعے یہ اپنا پیغام دوسرے کشمیری جوانوں تک پہنچا رہے ہیں۔ اس بار جزبے پہلے سے زیادہ ہیں اور عوامی سپورٹ بھی غیر معمولی ہے۔ متعدد مقامات پر ایسا ہوا کہ بھارتی فوج نے کسی مجاہد کو پکڑنے کے لئے چھاپہ مارا تو عام آبادی نے سخت مزاحمت کی، پتھر برسائے اور گرم پانی کی بالٹیاں انڈیلیں۔ برہان وانی کو پکڑنے کے لئے اسی وجہ سے بھارتی فوج نے نسبتاً کم رونق علاقے کا انتخاب کیا۔ وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں یہ ٹرینڈ سوشل میڈیا پر چلتا رہا کہ اس واقعے سے ایک برہانی وانی ختم نہیں ہوابلکہ سو برہان وانی مزید آ ملے ہیں۔ 
مقبوضہ کشمیر کے کشمیری تو اپنی آزادی کی جنگ نہایت دلیری اور جرات سے لڑ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی ان کے لئے کیا کر رہے ہیں؟کیاپاکستانی پارلیمنٹ کا اس مسئلے پر مشترکہ اجلاس نہیں بلانا چاہیے۔ کشمیریوں کے ساتھ روا بھارتی ظلم وجبر کو بھرپورانداز میں دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے اداروں سمیت ہیومن رائٹس کمیشن ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق سے متعلقہ اداروں سے رابطہ کر کے انہیں اس جانب متوجہ کرنا چاہیے۔ لندن میں ٹین ڈائوننگ سٹریٹ اور واشنگٹن میں وائیٹ ہائوس کے سامنے ریلیاں نکالی جائیں، اسی طرح پیرس، برلن اور دیگر اہم یورپی ممالک میں عوامی ریلیوں کے ذریعے اس ایشو کو نمایاں کیا جائے۔ ویسے تو سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں اس پر احتجاجی ریلیاں نکالنی چاہئیں۔ لاہور، کراچی، پنڈی جیسے بڑے شہروں میں اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے لئے یکجہتی ریلیاں نکالنے میں کیا امر مانع ہے؟ ہمارے ہاں جماعت اسلامی ہمیشہ کشمیر ایشو کو لے کر چلتی رہی ہے۔ امیرِ جماعت محترم سراج الحق کو کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کی طرح کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی مہم کا جھنڈا بھی اٹھانا چاہیے ۔ دوسری دینی جماعتوں کو ساتھ ملایا جائے، تحریک انصاف کو شامل کیا جائے۔ حکمران جماعتوں اور اپوزیشن سب کو مل کر کشمیریوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ہم آپ کو بھولے نہیں۔ عملی مد د نہ کر سکیں، مگر ہمارے دل زخمی اور آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں