پاکستانی کرکٹ کو کیا ہوا؟

کرکٹ پر میں کبھی کبھار لکھتا رہتا ہوں۔دو تین سادہ سی وجوہ ہیں۔ ایک تو میں کرکٹ کو پسند کرتا ہوں، تھوڑی بہت کھیلی بھی، مگر اسے دیکھنا ، اس میں انوالو ہونا اچھا لگتا ہے۔ سچی بات ہے کہ سپورٹس سے میری دلچسپی خاصی ہے۔ فٹ بال، ٹینس، ہاکی، باکسنگ وغیرہ کے میچز دیکھتا رہا ہوں۔ قومی ہاکی ٹیم کو زوال آنے کے بعد ہاکی میں دلچسپی کم ہوگئی۔دو تین کھیلوں میںدلچسپی پیدا ہی نہیں ہوسکی۔ بیس بال کی مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں آسکی، رگبی کچھ زیادہ ہی رف اور وحشیانہ لگتا ہے، ایک ٹیم کا کھلاڑی مرکھنے بیل کی طرح چپٹی سے گیند اٹھا کر بھاگ کھڑا ہو ، جبکہ مخالف ٹیم کے کھلاڑی ارنابھینسوں کی طرح ٹکریں مار کر گراتے اور پھر ایک ڈھیر سا بنا کر تلے دبا لیتے ہیں۔ یہ کیا کھیل ہوا؟اسی طرح گالف بھی خاصا سست لگتا ہے، اگرچہ گالف گرائونڈ کو دیکھنا نہایت دل خوش کن امر لگتا ہے۔ کرکٹ کا یہ معاملہ نہیں۔ اس میں جسمانی محنت کے ساتھ تکنیک اور پھر ذہانت کا بھی اچھا خاصا کردار ہے۔ اپنے ذہن کو استعمال نہ کرنے والا کوئی بلے باز خواہ اس میں جس قدر ٹیلنٹ ہو کامیاب نہیں ہوسکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ شاہد آفریدی بن جائے گا۔ اندھا دھند آنکھیں بند کر بلا گھمانے والا بلے باز یا پھر وہاب ریاض بن جائے گا۔ نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بلا سوچے سمجھے شارٹ پچ گیند کرنے اور جواب میں بے دریغ چھکے چوکے کھانے والا بائولر۔ 
کرکٹ کے حوالے سے دو باتیں اور اہم ہیں۔ ایک تو کرکٹ پاکستان میں قومی کھیل کی طرح مقبول ہے، لوگوں کی اس میں بے پناہ دلچسپی ہے، قومی ٹیم کی جیت پوری قوم کا مورال بلند کر دیتی اور شکست سے مورال ڈائون ہوجاتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ کھیلوں میں ٹاپ جانا اور قوموں کی ترقی میں ایک ڈائریکٹ لنک موجود ہے۔ ترقی دراصل ہمہ جہت ہوتی ہے۔ معاشی، سماجی ترقی کے اثرات قومی کھیلوں پر بھی پڑتے ہیں۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ کسی زوال زدہ، شکست خوردہ معاشرے کی قومی ٹیمیں دنیائے سپورٹس پر راج کر رہی ہوں۔اس لحاظ سے پاکستان میں کرکٹ ٹیم کی بری کارکردگی قومی سطح کا ایشو بن جاتا ہے۔ 
اب قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ ہی کو دیکھ لیجئے۔ لارڈز کا پہلا ٹیسٹ جیت لینے سے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میں شکست سے لوگوں کے چہرے مرجھا گئے، چوتھا ٹیسٹ جیت کر البتہ ٹیسٹ ٹیم نے اپنی ساکھ بڑی حد تک بحال کر دی اور نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی سطح کے مبصرین اور سابق کرکٹرز نے پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کو سراہا۔ عالمی رینکنگ میں نمبر ون بن جانے سے ان کا امیج مزید بہتر ہوا۔ ون ڈے ٹیم کی بدترین شکست نے البتہ سب کو مایوس کیا۔ پہلے دو ون ڈے تو ہم ہار ہی چکے تھے، مگر منگل کو تیسرے ون ڈے میں بھیانک شکست نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستانی بائولرزکی ایسی دھلائی کم دیکھنے کو ملی۔ انگریز بلے باز یوں کھیل رہے تھے ،جیسے کسی معمولی کلب کی ٹیم سے ان کا میچ ہو۔ ہماری فیلڈنگ بھی حسب معمول تھی اور جوابی بیٹنگ بھی بڑی حد تک مایوس کن۔ ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد لوگوں کے جو تاثرات دیکھنے کو ملے، وہ بڑی حد تک ناقابل اشاعت ہیں۔ سوشل میڈیا پر فرسٹریشن سے دوچار نوجوان ایسی ایسی خوفناک سزائیں تجویز کر تے رہے ، جنہیں صرف سوشل میڈیا ہی پر پڑھا ، سنا جا سکتا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی کرکٹ کو کیا ہوگیا؟ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ ٹیسٹ ٹیم عالمی نمبر ون رینکنگ پر براجمان ہے اور ون ڈے ٹیم نویں نمبر پر۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ پاکستانی ون ڈے ٹیم کو اگلا ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنا پڑے۔ اس سے بچنے کے لئے انہیں ٹاپ آٹھ ٹیموں میں آنا پڑے گا، جو آسان کام نہیں ہے کہ اس سال کے آخر میں پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیموں کے خلاف ان کے ہوم گرائونڈز میں کھیلنا ہے ۔کئی لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر ایک ٹیم ٹیسٹ میں کیوں اتنا اچھا پرفارم کر رہی اور ون ڈے میں کیوں اس بری طرح پٹ رہی ہے؟اس کا جواب آسان ہے ۔ ٹیسٹ میچز کے فارمیٹ میں پاکستان اس لئے اچھا پرفارم کر رہا ہے کہ ٹیسٹ ٹیم میں ہمیں اچھے اور تجربہ کار بلے بازوں کی خدمات حاصل ہیں، ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بھی نہایت تجربہ کار اورتسلسل سے رنز کر رہا ہے۔ ٹیسٹ فارمیٹ کے تین چار بلے باز ایسے ہیں جو تکنیکی اعتبار سے اعلیٰ اور مضبوط بائولنگ کے خلاف رنز بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں،ان کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان ٹیسٹ میچز جیت رہا ہے ،مگر بدقسمتی سے ان کی تکنیک ایسی ہے کہ وہ ماڈرن ون ڈے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ مصباح الحق تو خیر ون ڈے سے ریٹائر ہو کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں، یونس خان ،اظہر علی اور اسد شفیق ٹیسٹ ٹیم کا مرکزی حصہ ہیں۔ یونس اور اسد شفیق کو تو خیر ون ڈے میں اب موقعہ ہی نہیں دیا جا رہا ، اظہر علی بھی ون ڈے ٹیم کے کپتان ہونے کے باوجود وہاں بری طرح مس فٹ ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیسٹ ٹیم میں چار بائولرز سے کام چل جاتا ہے ، ان چار میں سے ایک دو غیر معمولی بائولر موجود ہوں تو وہ میچ جتوا سکتے ہیں۔ پچھلے چار پانچ برسوں میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ پہلے سعید اجمل یہ کام کرتا رہا، انگلینڈ کے خلاف کلین سوئپ اسی نے ممکن بنایا۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے یاسر شاہ یہ کام کر رہا ہے۔ ون ڈے میں ایک بائولر سے کام نہیں چل سکتا۔ وہاں کم سے کم پانچ بائولرز ہونے ضروری ہیں اور میچ جیتنے کے لئے تقریباً سب کو ہی حصہ ڈالنا پڑتا ہے ۔ 
پاکستان ٹیم کا ٹیسٹ میچز کا کمبی نیشن بہت عمدہ ہے۔ اگر اظہر علی کو مستقل سمیع اسلم کے ساتھ اوپننگ کرائی جائے اور نمبر چھ پر بابر اعظم کو کھلایا جائے تو مضبوط بیٹنگ لائن تشکیل پا سکتی ہے۔ون ڈے ٹیم کا کمبی نیشن اس کے برعکس بہت خراب ہے اور اس میں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستانی کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا اور مستقبل کو سامنے رکھ کر پلاننگ نہیں کی جاتی۔ ون ڈے کا مزاج یکسر بدل چکا ہے۔ اب جارحانہ کرکٹ کا دور ہے۔بہترین بیٹنگ پچز پر میچ کھیلے جاتے ہیں، سفید گیند میں بائولرز کے لئے کرنے کو کچھ نہیں، دونوں اطراف سے نئی گیند استعمال ہوتی ہے ،جو اتنی پرانی ہی نہیں ہوپاتی کہ ریورس سوئنگ ہوسکے ، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نے بلے بازو ں کو اس قدر بے جگر اور تخلیقی بنا دیا ہے کہ عجیب عجیب غیر روایتی شاٹ ایجاد ہوچکی ہیں۔ آف سٹمپ سے باہر جاتی گیند کو اٹھا کر لیگ سائیڈ پر کھیلنا عام ہوچکا ہے۔بائولروں کو اب غیر معمولی سمجھداری سے گیند کرانا پڑتا ہے ، معمولی سے غفلت پر دنیا کے نمبر ون بائولر کو چکھا پڑ جاتا ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے ریورس سوئنگ پر انحصار کرتے رہے، اب سفید گیند کے فارمیٹ میں ہمارے بائولروں کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔ اس مشکل میں اضافہ اس لئے ہوا کہ ہمارے پاس ون ڈے میں وکٹیں لینے والے سپنر ہی نہیں۔ سعید اجمل کے بعد کوئی اچھا ون ڈے سپنر نہیں آیا۔ یاسر شاہ بھی ون ڈے کے بجائے ٹیسٹ
فارمیٹ کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔
ون ڈے ٹیم کو دوبارہ سے بنانے کی ضرورت ہے۔ میچز تو ہم ہار ہی رہے ہیں، نئے مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کو کھلائیں توکچھ عرصے کے بعد ہی سہی ، بہتر کارکردگی کی امید تو ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ ہمارے بلے بازوں کا ہے۔ کپتان اظہر علی کی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی۔ وہ غریب اس فارمیٹ کا کھلاڑی ہے ہی نہیں۔ غلط دور میں پیدا ہوا،دس سال پہلے اظہر بطور اوپنر نہایت موزوں رہتا، آج وہ ٹیم پر بوجھ بن چکا ہے۔ شعیب ملک ، محمد حفیظ وغیرہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ انگلینڈ، آسٹریلیا وغیرہ میں یہ اپنی کمزور تکنیک کے باعث کھیل ہی نہیں پاتے۔ اظہر علی سمیت ان تینوں سے جان چھڑانی ہوگی۔ ون ڈے ٹیم کے لئے فوری طور پر سرفراز کو کپتان بنانا چاہیے ۔ بابر اعظم جیسے کھلاڑی ڈھونڈنے ہوں گے جو ون ڈے میں سو سے زیادہ سٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیل سکیں۔ لوئر مڈل آرڈر میں لمبی ہٹیں لگانے والے آل رائونڈرز موجود نہیں۔ اس کے بغیر ہم لمبا سکو ر کر سکتے نہ ہی بعد میں کھیل کر جیت سکتے ہیں۔کام مشکل نہیں، صرف نیت کی ضرورت ہے۔ انضمام الحق کی شکل میں اچھا اور مضبوط چیف سلیکٹر موجود ہے، اسے سپورٹ کیا جائے۔ جو ٹیلنٹ دستیاب ہے ، اس میں سے بہترین کھلاڑی منتخب کئے جائیں اورچونکہ ہمارا ڈومیسٹک سسٹم ناکام ہوچکا ہے، اس لئے اب براہ راست مختلف شہروں میں کیمپ لگا کر ٹرائل لئے جائیں ۔ انضمام اپنی سلیکشن کمیٹی کے ساتھ یہ کام کرے، عاقب جاوید کے ذریعے نوجوان فاسٹ بائولرز اور مشتاق احمد کے ذریعے سپنرز ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ پچاس ساٹھ نوجوان کھلاڑی نکالے جائیں،ان پر محنت کریں، دو تین برسوں کے اندر ہمیں ٹیلنٹ کی کمی کی شکایت نہیں ہوگی۔اگر اپنے حال اور مستقبل کو بہتر نہ بنایا گیا تو ہر بار سیریز ہارنے کے بعد کھلاڑیوں، مینجمنٹ او ر بورڈ کو گالیاں ہی پڑتی رہیں گی، عملی طور پر کچھ بہتر نہیں ہوپائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں