اُداس رُتوں کا نوحہ

اس بار عید کی چھٹیاں بہاولپور میںگزریں۔ ہنگامہ خیزی سے دور، نیوز چینلز کی بریکنگ نیوز سے محفوظ چار پانچ دن گزارنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس بار البتہ کوئی کتاب ساتھ نہیں تھی، اس کی کمی محسوس ہونی چاہیے تھی، مگر 'چہرہ کتاب‘ یعنی فیس بک نے یہ نوبت نہیں آنے دی۔ مختلف آن لائن ویب سائٹس نے اب پڑھنے کے لئے خاصا مواد فراہم کر دیا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ادھر اپنی دلچسپی کی چیزیں پڑھنے آتی ہے۔ اس بار میں نے محسوس کیا کہ بعض بلاگز ستّر اسّی بلکہ نوّے ہزار تک پڑھے گئے، ہزاروں میں فیس بک شیئرنگ اس کے علاوہ تھی، ایک دن میں اس لحاظ سے ریڈرشپ لاکھوں میں چلی گئی۔ میرا نہیں خیال کہ اخبارات کے ادارتی صفحات اتنے زیادہ آن لائن پڑھے جاتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ آن لائن ویب سائٹس پرکسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر لکھی جانے والی بے ساختہ تحریریں ہیں اور پھر ان کے موضوعات مین سٹریم میڈیا سے بہت مختلف ہو چکے۔ میرا خیال ہے کہ بڑے اخبارات کو رفتہ رفتہ عوام کے مزاج اور مائنڈ سیٹ میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کر کے نئی تبدیلیوں کے لئے راستے کھولنے ہوں گے۔ اخبار کے مستقل کالم نگاروں کو خاص کر اپنے موضوعات میں تنوع لانے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت کرنٹ افیئرز پر لکھنا قارئین کے ایک حلقے میں بیزاری پیدا کر رہا ہے۔ وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لئے آن لائن ویب سائٹس پر جانا شروع ہوگئے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا کے لئے یہ اچھی علامت نہیں۔ 
بہاولپور ایک بہت خوبصورت، پرجمال، نیم خوابیدہ سا شہر ہے۔ دلنشیں، صاف ستھرا مگر قدرے سست شہر۔ رات نو دس بجے گلیاں سنسان اور صحن تاریک ہو جاتے ہیں۔ شہر میں اب چند ایک فوڈ سپاٹ ضرور بن گئے ہیں، جہاں گیارہ بارہ بجے تک رونق رہتی ہے۔ بہاولپور کو بگ سٹی سٹیٹس حاصل ہے۔ شہر بڑا ہے، آبادی بھی ٹھیک ٹھاک ہے، مگر ابھی ملتان جیسا گنجان پن اس میں پیدا نہیں ہوا۔ مزے کی بات ہے کہ پورے بہاولپور میں کہیں پر ٹریفک سگنل موجود نہیں۔ ٹریفک کا دبائو اس قدر ہے ہی نہیں کہ ٹریفک اشاروں کی ضرورت پڑے۔ شہر میں ایک بھی بس یا باقاعدہ ویگن سروس موجود نہیں۔ لوگ رکشوں ہی سے کام چلا لیتے ہیں۔ ویسے تو ملتان شہر میں بھی پہلے صرف ایک کمپنی کی بس سروس موجود تھی، چند ایک بسیں ہی شہر بھر کے لئے کافی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے ملتان میں میٹرو بس کے منصوبے کا اعلان کیا تو تمام مقامی ارکان اسمبلی نے مخالفت کی، ان کے خیال میں اتنی بڑی رقم میٹرو ملتان پر خرچ کر نے کے بجائے ملتان کے اور ترقیاتی پراجیکٹس۔۔۔ صحت، تعلیم وغیرہ کی سہولتوںپر خرچ ہونی چاہیے؛ تاہم جب انہوں نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں غصے سے ناچتی انگلی دیکھی تو سہم کر چپ سادھ لی۔
بات بہاولپور کی ہو رہی تھی۔ یہاں کے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ملازمت ہے۔ نجی کاروبار اور صنعتیں وغیرہ وہاں زیادہ نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمتیں دستیاب نہیں، بہاولپور کو اپنے سائزاور آبادی کے حساب سے جتنی صوبائی اور وفاقی ملازمتیں ملنی ضرور ی ہیں، اس سے نصف بھی نہیں مل سکیں۔ نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بی کام، ایم کام، ایم بی اے، ایم ایس سی، بی ایس آئی ٹی، ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس اورسائنس وسوشل سائنسز میں ماسٹر ڈگری لے لیتے ہیں، روزگار کے مواقع صفر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کسی سکول میں چار پانچ ہزار کی نوکری مل گئی۔ اس سے فرسٹریشن بہت بڑھ رہی ہے۔ جس نوجوان سے بات کرو، وہ شکوہ کناں ملے گا۔ بات ان کی غلط نہیں، لاہور وہاں سے پانچ سو کلومیٹر دور، سات گھنٹے کے سفر پر موجود ہے۔ بیشتر لوگوں کا لاہور میں کوئی رشتے دار یا تعلق والا نہیں۔ ان کے لئے لاہور آ کر قسمت آزمائی کرنا قطعی آسان نہیں۔ حکومتوں کے کرنے کا یہ کام ہے کہ دور دراز کے مختلف شہروں میں انڈسٹریل ہب بنا کر وہاں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں تاکہ صوبائی دارالحکومت پر دبائو بھی کم ہوسکے۔ ایسا کرنے کی کبھی کسی نے زحمت ہی نہیں کی۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور( سی پیک) نے امید کی کرن تو پید ا کی ہے، مگر لگ یہ رہا ہے کہ اس پراجیکٹ سے بھی بہاولپورکوکچھ خاص نہیں ملنا۔ 
اس بارسفر میں خاصا وقت گزرا۔ بہاولپور سے اپنے آبائی شہر احمد پورشرقیہ دوتین بار مرتبہ جاناپڑا، وہاں چند گھنٹوںکا قیام بھی اداس کر دینے والا تھا۔احمد پورشرقیہ بہاولپور کی قدیمی تحصیل ہے۔ ایک زمانے میں یہ ریاست بہاولپورکے نوابوںکا مسکن تھا۔اس کے ریلوے سٹیشن کا نام ڈیرہ نواب صاحب اسی مناسبت سے ہے۔ پچھلے چالیس پچاس برسوں سے اس کے مقدر میں تحصیل ہی کا سٹیٹس ہے، ایک زمانے سے اسے ضلع بنانے کے مطالبے ہو رہے ہیں، مگر بہاولپور ڈویژن کی طرف صوبائی حکمرانوں کی نظر التفات کبھی نہیں ہوئی۔ اپر پنجاب میں پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر کئی تحصیلیں اضلاع بن چکے ہیں۔ ننکانہ صاحب، حافظ آباد، منڈی بہائوالدین وغیرہ پچھلے چند برسوں میں تحصیل سے ضلع بنے ہیں۔اس فیصلے کو سراہنا چاہیے، مگر ادھر بہاولپور ڈویژن کے پچھلے پچاس برسوں سے تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان چلے آ رہے ہیں۔ ایسا ہونا مایوس کن ہے۔ ان میں سے احمد پور شرقیہ، خان پور، چشتیاں وغیرہ بڑی آسانی سے ضلع بنائے جا سکتے ہیں، ایسا کرنے سے شائد مقامی سطح پر کچھ لوگوں کے مسائل حل ہوجائیں، ترقی کے کیک کے چند ریزے اس دھرتی تک پہنچ جائیں گے، اسی خوف سے شائد پنجاب کے کسی حکمران نے کبھی ادھر توجہ نہیں دی۔ گوجرانوالہ ڈویژن چھ اضلاع پر مشتمل ہے، بہاولپور ڈویژن کے بھی پانچ یا چھ اضلاع بن سکتے ہیں، کاش مسلم لیگی قیادت اپنی اسی مدت میں یہ کام کر ڈالے۔ 
اس بار احمد پور شرقیہ کو دیکھ کر رونا آتا تھا۔ شہر کی وسط میں مختلف اطراف سے تین سڑکیں آ کر ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک سڑک کی حالت ایسی خوفناک ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ پچھلے چار پانچ ماہ سے سٹرک مکمل طور پر اکھاڑ دی گئی، بارش ہونے سے گندے نالے کا سا سماں ہے، گزرنا ممکن ہی نہیں۔ سنا ہے کہ پچھلے اسسٹنٹ کمشنر نے بلا سوچے سمجھے سڑک پہلے اکھاڑ دی جبکہ ابھی اسے کشادہ کرنے کے لئے سائیڈوں سے عمارتیں وغیرہ ہٹانی باقی تھیں۔ وہ بابوصاحب تو ٹرانسفرکرا کر چلتے بنے، اب صبح شام لوگ ان کی شان میں''قصیدے‘‘ پڑھتے ہیں (برادرم کلاسرا کا جملہ یاد آتا ہے، بیوروکریسی کے زکوٹے جن!) مجھے حیرت ہے کہ مقامی آبادی کس طرح بدبو، عفونت کے ان ڈھیروں میں زندہ ہے؟ صرف ایک سڑک سلامت ہے، تیسری مرکزی سڑک بھی پچھلے دو برسوں سے بن رہی ہے۔ مقامی ایم پی اے اور ایم این اے مسلم لیگی ہیں، ایم پی اے کے بارے میں تو شنید ہے کہ وہ پنجاب کے حکمران صاحبزادوںکے ساتھ مراسم بھی رکھتے ہیں۔ اپنے شہر کی تقدیر بدلنے میں مگر بری طرح ناکام رہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس جا کر احتجاج کرو کہ بھائی کسی طرح یہ سٹرک بنوا دو تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتا ہے کہ یہ تمام فنڈز لاہورکی اورنج ٹرین پراجیکٹ کی طرف چلے گئے ہیں۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے ان کے لہجے سے تلخی ٹپک رہی تھی، آس پاس بیٹھے لوگوں نے مجھے(لاہوری جان کر) خونی نظروں سے گھورا۔ جلدی سے میں نے وضاحت کی کہ اس کم بخت ماری اورنج ٹرین سے لاہوری خود بہت تنگ ہیں۔ لکشمی چوک، سنگھ پورہ، بھگوان پورہ، ملتان روڈ وغیرہ پر جا کر اس پراجیکٹ کا نام لے لو، لوگ مارنے کو دوڑیںگے۔ اس پر یار لوگوں کی قدرے تسلی ہوئی کہ ہم تو ڈوبے ہیں، لاہور ی بھی ہمارے''ہم سفر‘‘ہی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ بیشتر سرائیکی علاقوں کا یہی حال ہے۔ تباہ حال سڑکیں، ہسپتال دیکھنے کے قابل نہیں، سکولوں اور،کالجوں کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے، بیروزگاری انتہا پر۔ یہ تو سرائیکی مزاج میں رچا بسا صوفیانہ گداز اور قناعت ہے جو مزاجوں کو آتشتہ نہیں ہونے دے رہا، ورنہ روز ان شہروں، قصبات، دیہات میں ہنگامے ہوتے۔ پچھلے دو برسوں میں زراعت تقریباً تباہ ہوچکی ہے۔ پچھلے سال جوکپاس کی فصل کے ساتھ ہوا، اس کے بعد کاشت کاروںکی بڑی تعداد نے کپاس کاشت ہی نہیںکی۔ سرائیکی علاقہ جوکاٹن کا مرکز سمجھا جاتا ہے، وہاں کپاس کے حوالے سے ایسی بد دلی کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگی جادوگر ماہر معیشت جناب اسحاق ڈارکی کرشمہ سازیوں نے وہاڑی، میلسی، لودھراں، دنیا پور، ملتان وغیرہ کے کاشت کاروںکو یہ دن بھی دکھا دیا ہے۔ لاہور واپس آ کر اتوار کو رئوف کلاسرا کا کالم پڑھا جس میں انہوں نے اپنے گائوں جیسل کلاسرا میں ہونے والے سرکاری اہلکاروں کے ظلم وستم کا ذکر کیا، پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسی طرح کے کئی قصے میرے پاس ہیں۔ کسی کو پولیس سے شکوہ ہے تو کوئی پٹواری کے ستم کا نشانہ بن چکا ہے۔ بہاولپورکے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کے بارے میں بے شمار ایسے واقعات کہ سن کر دل سے لہو بہنے لگے۔ اب بندہ کیا لکھے، کتنا لکھے، کتنی بار اُداس رُتوں کا یہ نوحہ لکھے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ یہ نوحے سرائیکیوں کے مقدر میں رقم کر دیے گئے ہیں۔ رُت جو بھی ہو، ان کے لئے موسم ہجراں ہی رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں