سرما کی پہلی لہراور سب رنگ

ہفتہ کی صبح لاہور میں بارش کے چند چھینٹے پڑے اور ساتھ ہی ٹھنڈکی پہلی لہر آئی۔نومبر کا وسط ہونے کو آیا ،مگر لاہور کا موسم عجیب سا رہا۔ پنکھا چلائو تو خنکی کا احسا س ہو،نہ چلے تو پسینہ آئے۔ ایک زمانے میں ہم سنا کرتے تھے کہ پندرہ ستمبر کے بعد موسم تبدیل ہوجاتا ہے۔ہماری زندگی ہی میں یہ موسم کی فطری تبدیلی تاخیر کا شکار ہو کر پہلے اکتوبر اور اب معاملہ نومبر تک جا پہنچا ہے۔نومبر کے وسط تک جاکر کہیں موسم میںخنکی آتی ہے۔ سردی کی لہر دسمبر کے اینڈمیںآتی ہے اور اس کا بھی عروج اس وقت شروع ہوتا ہے جب سکولوں کی دسمبر کی چھٹیاںختم ہوتی ہیں۔ محکمہ تعلیم نے البتہ عشروں پرانے چھٹیوں کے شیڈول پر نظرثانی کی کوئی زحمت نہیں فرمائی۔ اس بار تو سموگ کی شکل میں ایک نئی مصیبت نازل ہوئی۔پنجاب کے کئی شہروں میں ایسا ہوا، مگر لاہور میں اس کی شدت تھی۔ سموگ جس کا کسی شاعر نے دھندواں ترجمہ کرنے کی کوشش کی،نے سانس کے امراض میں مبتلا لوگوں کو خاص طور پر متاثر کیا، پریشان ویسے ہر کوئی ہوا۔ لاہور میں جس بے رحمی سے درخت کاٹے گئے اور پھر شجرکاری اس طرح نہ ہوسکی، اس کے بعد لگتا ہے اس سموگ سے اب ہر سال بدلتے موسموں میں سامنا ہوگا۔ بیجنگ جیسے بعض بڑے شہروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں زیادہ گاڑیوں اور فیکٹریوں کی وجہ سے ایسی سموگ سال بھر رہتی ہے۔ لاہوریوں کو نوید ہو کہ خادم پنجاب کی ''گڈ گورننس ‘‘ کے طفیل لاہور کم از کم سموگ کے معاملے میں دنیا کے بعض بڑے شہروں جیسا بنتا جا رہا ہے۔ 
ذکر بارش کے پہلے چھینٹے کاہوا تھا، اللہ کرے کھل کر ایک دو بارشیں ہوجائیں تو یہ سموگ بھی ختم ہوجائے اور خشک کھانسی کا دور بھی تمام ہو۔خیر ہم نے تو موسم کی اس معمولی سی تبدیلی کا فائدہ اٹھایا اور دو دنوں کے لئے لاہور سے باہر آگئے۔رائے ونڈ کے نواح میں بڑے بھائی کا گھر ہے۔ یہ ویک اینڈ وہیں گزرا۔ سب رنگ کے پرانے شمارے ساتھ لے آیا ہوں۔ایک نہ ختم ہونے والا سحر ہے، جس سے نکلنے کا جی بھی نہیں چاہتا ۔امربیل کی آخری اقساط اور بازی گر کے صفحات کے علاوہ سب رنگ میںموجود دیگرکہانیاں ۔ مشرقی ادب کا عطر، آخری کہانی،مغربی ادب سے تراجم اور سب سے بڑھ کر سب رنگ کے مدیرشکیل عادل زادہ کاتحریر کردہ ذاتی صفحہ۔ 
سب رنگ زدگان کا اپنا ہی ایک الگ قبیلہ ہے،جدید اصطلاح میں اپنا ہی ایک کلب۔ دنیا بھر میں جس کے ممبرز پھیلے ہیں۔ سب رنگ اور خاص کر بازی گر کو پڑھنے، چاہنے والوں کے خمیر میں کچھ نہ کچھ مشترک ضرور ہے۔بنانے والے نے ان کی مٹی میں شائد کوئی آمیزہ ڈال دیا جوانہیں دوسرے سے ممیز، منفرد کرتا ہے۔برادرم رئوف کلاسرا کی باتوں، تحریر سے ایک اپنائیت کی مہک آتی۔ سرائیکی ہونے کے ناتے باہمی انس توفطری تھا، مگر سوچتا کہ کہیں کچھ اور بھی ہے۔ پھر رئوف کلاسرا نے سب رنگ سے اپنے عشق کی داستاں رقم کی توبات واضح ہوگئی۔ گزری شام اپنی اہلیہ کو ایک سب رنگ کا ذاتی صفحہ پڑھ کرسنایا۔ دیر تک وہ مسحوررہی۔ کیا زبان لکھتے رہے شکیل بھائی۔ فسوں خیزنثر،دلکش اسلوب، اچھوتی تراکیب اور دل میں کھب جانے والے جملے۔عرب شاعری کی ایک حکایت کے مطابق کسی نے جاہلی عربی شاعر کے دیوقامت شاعر زیدبن ابی سلمہ کے بارے میں رائے مانگی، کہنے والے نے ایک فقرے میں پورا قصہ بیان کر دیا''وہ شاعری کو گھلاتا ہے اور شاعری اسے گھلاتی ہے‘‘۔ہمارے زمانے میں یہ بات جناب شکیل عادل زادہ کے بارے میںکہی جا سکتی ہے۔ سب رنگ کے زندہ جاوید ، تروتازہ شمارے جس کے گواہ ہیں۔ جس زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ طلوع ہو ا کرتا تھا،بہت سے قدردان صر ف ذاتی صفحہ پڑھنے کیلئے پرچہ خرید اکرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کتابوںکی دکانوں پر صرف یہ لکھ کرلٹکا دیا جاتا''سب رنگ کا تازہ شمارہ آگیا۔‘‘خریدار بھاگم بھاگ پہنچا کرتے۔ سب رنگ کے بعض شمارے دو دو چار چار برسوں کے وقفے کے بعد بھی آئے۔ یہ پاکستان کا واحدڈائجسٹ تھا، اس قدر وقفے نے بھی اس کی اشاعت پرکوئی اثر نہیں ڈالا۔ لاکھوں میں ہر پرچہ فروخت ہوتا۔اس کے پرانے پرچے فٹ پاتھ پرکہیں مل جائیںتو آج بھی عام رسالوں سے دوگنا تین گنا مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ 
اس پذیرائی کی وجہ یہ تھی کہ سب رنگ کوئی پرچہ نہیں بلکہ عشق تھا،جنون تھا ،ایک ایسا خواب تھاجس کی تعبیر دیکھنے والے نے اپنی جان اس میں کھپا دی تھی۔ شکیل عادل زادہ ،سب رنگ کے مدیر نے اپنے جریدے کو کبھی ایک کمرشل پراڈکٹ نہیں سمجھا، گو ان کی گزراوقات اسی پر رہی،مگر یہ روایتی معنوں میں کاروبار تھا ہی نہیں۔ کون سا ایسا رسالہ ہوسکتا ہے، جسے اس کا مالک صرف اس لئے مارکیٹ میں نہ لے آئے کہ اس میں شامل مواد کے معیار سے وہ مطمئن نہیں؟اس میں مہینوں بلکہ برسوں کی تاخیر ہو۔حتیٰ کہ پرچہ نکالا ہی نہ جائے یہ سوچ کر کہ اب اچھی کہانیاں مل ہی نہیں رہیں۔کاروباری افراد کا اس سوچ سے کیا تعلق۔ ایک خاص معیار وہ بھی چاہتے ہیںکہ سودا بک سکے، مگر خواب دیکھنا، خواب دکھانااور اپنے سپنوں کو عشق کی طرح عزیز رکھنا یہ کاروبار نہیں کچھ اور ہے۔اپنے ایک ذاتی صفحے میں شکیل عادل زادہ لکھتے ہیں:'' سب رنگ آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کا مطلب ہے کہ میں زندہ ہوںاور بہ قائمی ہوش وحواس اوربہ تمام وکمال اور میرے نعرہ مستانہ سے صحرا کناروں تک گونج اٹھا ہے۔خواب دیکھنے کا عمل تو ابھی جاری ہے۔سب رنگ تو ایک خواب ہی ہے،ایک جستجو، ایک تلاش، ایک عزم، ایک آزمائش اور ایک جنون۔ ‘‘سب رنگ پڑھنے والے میرے جیسے، رئوف کلاسرا جیسے قاری گواہ ہیں کہ مدیر سب رنگ نے سچ کہا۔
سب رنگ کی سلسلہ وار کہانیاںبہت مقبول رہیں۔ ستر کے عشرے میںپراسرار کہانیوں کا ایک رواج چل نکلا تھا۔ انکا، اقابلا جیسی مقبول ترین کہانیاں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ میری آل ٹائم فیورٹ البتہ بازی گر رہی، یا پھر امربیل کی آخری آٹھ دس قسطیں۔ امربیل کے مصنف انوار صدیقی تھے، انکا اور اقابلا بھی انہوںنے لکھیں۔ سب رنگ سے وہ کسی اختلاف کی بنا پر رخصت ہوگئے۔ امربیل کی قسطیں شکیل عادل زادہ نے لکھنی شروع کردیں اور کہانی کو اٹھا کرکہاںسے کہاں لے گئے۔ ویسے انکا، اقابلا اورامربیل کی پہلے والی قسطوں میںبھی مدیر کا رنگ بڑا گہرا تھا، کریڈٹ البتہ مصنف کو جاتارہا ۔ خیر انورا صدیقی نے برسوں بعد امربیل کو کتابی شکل میںشائع کیا۔چار حصے تھے، ڈھائی حصے وہ جوسب رنگ میںشائع ہوئے اور باقی کہانی
انہوں نے اپنی طرف سے لکھ کرمکمل کردی۔ قارئین کیلئے بڑی آسانی پیداہوگئی۔ ان کیلئے سب رنگ میں شائع شدہ صفحات کے معیار اور مصنف کی ذاتی کاوش کو جاننا،پہچاننا اور پھرحقیقت کو پانا مشکل نہ رہا۔ 
بازی گر کی کہانی سب سے مختلف اور اچھوتے انداز کی ہے۔ ایک طرف یہ لافانی عشق کی ایک سحرانگیزداستان ہے، کھوئے ہوئوں کی جستجو، اس میں معاشرے کے مختلف کردار آتے ہیں۔ ممبئی، کلکتہ، فیض آباد، لکھنو، حیدرآباد اور دیگر شہروں کے مختلف دادا، ان کے پاڑے، چاقو باز جو اپنے سینوں میں کیسے کیسے طوفان سموئے ہوئے تھے، جن کے اندر تمام تر خرابیوں کے ساتھ شرافت اور کردار کی پختگی بھی نمایاں تھی۔ بازی گر کو ہمارے اردو ادب کے ناقدین نے بڑی بے رحمی سے نظرانداز کیا۔ آسانی سے اسے ارد و کے چند بہترین ناولوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔اس طالب علم کے نزدیک یہ اردو کا سب سے بڑا ناول ہے۔ اگرچہ اندازہ ہے کہ اس دعوے کو تمسخر سے دیکھا جائے گا، مگر کوئی رائے دینے سے پہلے بازی گر کو پڑھنا شرط ہے۔اسے پڑھنے والااس کے سحر سے نکل ہی نہیں سکتا۔اردو ادب کے کئی شاندار کردار اس نے دئیے ۔ بابر زماں خان(لاڈلا) تو خیر مرکزی کردار ہے، استاد بٹھل کا لازوال کردار بازی گر کی جان ہے۔ پیرودادا،کانتے ، جامو، ماسٹر مارٹی، زریں، جولین، ڈاکٹر رما، حیدرآباد کی برجیس ، جس نے قید خانے میں بابر اورپیروداداکو کم شیرینی والا حلوہ بھیجا۔ اس اخبارنویس کو اس کے بعد کبھی زیادہ شیرینی والا حلوہ نہیں بھایا۔ بازی گر ایک نشہ ہے ، ایک آئینہ خانہ ، اک اپنے ہی سٹائل کا طلسم ہوش ربا۔ شکیل عادل زادہ اس طلسم کدے کا خالق، سب رنگ کا مدیر ، چار عشروں سے زائد جس نے اپنا خون جلا کر یہ سب کچھ کر دکھایا۔دو نسلوں کی ادبی تربیت کی۔یہ اور بات کہ انہیں آج تک ایک بھی قومی ایوارڈ نہیں ملا۔ یہ وہ قرض ہے جسے کسی حکومت کو توچکا نا چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں