یہاں کرپٹ کون ہے؟

کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں دھواں دھار بحث جاری تھی، کچھ دیر کے لئے میں بھی شریک ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے گفتگو جاری تھی، کچھ لوگ مولانا فضل الرحمن کے ناقد تھے تو بعض ان کے دفاع پر تلے ہوئے تھے ۔جب سے جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین اتحاد کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیں، اس طرح کی بحثیں بڑھ گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کے وابستگان میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی طرز سیاست کے حوالے سے شدید قسم کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ماضی میں ایم ایم اے خیبر پختون خوا میں پانچ سال تک صوبائی حکومت چلاتی رہی، جس میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت اور جماعت اسلامی اکٹھے تھے۔ ان پانچ برسوں کے دوران کرپشن کی بہت سی کہانیاں باہر آئیں، جماعت کے کارکنوں کو یہ شکایت رہی کہ مولوی صاحب کی جماعت اور ان کے وزرا کی کرپشن کی وجہ سے پوری ایم ایم اے بدنام ہوئی ۔ ایم ایم اے ٹوٹنے میںخاصا کردار انہی شکایات اور بدنامی کا تھا۔ بعد میں ایم ایم اے کو بحال کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں، مئی تیرہ کے انتخابات سے پہلے بھی بعض حلقوں کی جانب سے ایسا سوچا گیا مگر جماعت کے اندر اتنی مخالفت تھی کہ یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ ان دنوںیہ تاثر تھا کہ خیبر پختون کوا کی صوبائی جماعت جے یوآئی کے ساتھ اتحاد چاہتی ہے، مگر پنجاب اور کراچی میں اس کی مخالفت ہے۔
آج کل پھر سے یہ بات اڑائی جا رہی ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل جماعت اسلامی اور جے یوآئی میں کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک اتحاد ہوجائے گا۔سوشل میڈیا کا ٹرینڈ یہ ہے کہ افواہوں پر بھی فوری بحث شروع ہوجاتی ہے۔ اس بحث میں مولانافضل الرحمن پر کئی الزامات عائد کئے گئے، ان میں کرپشن اور اقربا پروری سرفہرست تھے ۔ ڈیزل کے مبینہ پرمٹوں سے لے کر زمینوں کی الاٹمنٹ جبکہ جنرل مشرف سے زرداری اور نواز شریف تک ہر حکومت کی تائید اور اس کے بدلے میں وزارتیں حاصل کرنے کی پالیسی پر تنقید کی جاتی رہی۔ جواب میں مولانا کے حامی ایک ہی دلیل بار بار دہراتے کہ کرپشن کے یہ سب الزامات ہی ہیں، عدالت میں کبھی کچھ ثابت نہیں ہوا۔ اسی طرح مولانا کی کہہ مکرنی اور ہر حکومت میں شامل ہونے کو ان کی ہوشیاری، ذہانت اور اچھی سیاست قرار دیا جاتا رہا۔ ایسی بحثیں تند وتیزہونے کے باوجود کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتیں، اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔
چند دن پہلے ایک پیپلزپارٹی کے دوست سے گفتگو ہو رہی تھی۔زرداری صاحب پر کرپشن کے الزامات اور ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتار ی کا ذکر ہوا تو وہی دلیل سامنے آئی کہ عدالت میں زرداری صاحب پر کبھی کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی، اس لئے یہ صرف پروپیگنڈا ہی ہے ۔ 
اے این پی کی خیبر پختون خوا میں پچھلی صوبائی حکومت نے بدنامی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے ۔ ان دنوں ''ایزی لوڈ‘‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی تھی کہ ایزی لوڈ کرائے یعنی پیسے دئیے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوگا۔ آج کل اے این پی والے کسی سے پوچھو تو وہ کرپشن کے ان تمام الزامات کو کردار کشی کی مہم کہتا ہے ۔ وہی دندان شکن دلیل ان کے پاس ہے کہ عدالت میں ہمارے خلاف کبھی کچھ ثابت ہوا؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پنجاب پر چودھری برادران پانچ برسوں تک حکمران رہے۔ کرپشن کے ان پر بھی بہت سے الزامات عائد ہوتے رہے۔ چودھریوں کے خلاف مسلم لیگ ن کے پاس ایک لمبی چوڑی چارج شیٹ تھی۔ آج تک اس میں سے ثابت کچھ نہ ہوا، اس لئے چودھری صاحبان اور ان کے حامی بھی فخریہ خود کو کرپشن سے پاک قرار دیتے ہیں۔دور حاضر مسلم لیگ ن کے نام ہے۔ ن لیگ اور شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات آج نہیں بلکہ تیس برس پرانے ہیں۔ خود پاناما والا طوفان بھی تین عشروں پرانے معاملات سے پھوٹا ہے۔ ن لیگ کی حکومت پر بہت سی باتیں ہوتی ہیں، نندی پور سے سولر پراجیکٹ ، سپورٹس کے مشکوک معاملات سے ایل این جی کے پراسرار سکینڈل تک کتنے ہی بڑے فنانشنل سکینڈلز کی بات ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کسی بھی رکن اسمبلی یا رہنما سے بات کی جائے تو وہ سینہ ٹھونک کر کہتا ہے کہ میرا قائد اور میری جماعت کرپشن سے بالکل پاک ہے۔ دلیل وہی ہتھوڑا مارکہ۔ کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟ 
میرے جیسے عام اخبارنویسوں کے لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اس پیمانے سے ناپا جائے تو پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں کی سیاسی قیادت نہایت ایماندار، شفاف کردا ر کی حامل اور مالی معاملات میں انتہائی محتاط ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف کبھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ زرداری ہوں یا شریف، اے این پی والے ہوں یا مولوی فضل الرحمن ،گجرات کے چودھری ہوں یا پھر بلوچستان کے اسلم رئیسانی جیسے سردار ، پی ٹی آئی کی مبینہ اے ٹی ایم مشینیں ہوں یا کوئی اور جماعت ...ان میں سے کوئی کرپٹ نہیں، یہ تو نجانے کیوں لوگ الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔معلوم نہیں یہ سیاست دانوں کو گندا کرنے کی مہم کا حصہ ہے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سازش کہ ہمارے سیاستدانوں کے ''بے بنیاد‘‘ کرپشن سکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔یہ تو ہے سویلین کا معاملہ ، رہے'' دوسری طرف‘‘ والے تو وہاں تو خیر کرپشن کا الزام لگانے والے بھی احتیاطاً وصیت نامہ لکھ کر ہی زبان کھولتے ہیں۔ یہ بات البتہ غور کرنے والی ہے کہ جب ملک میں دودھ اور شہدکی نہریں بہتی ہیں،حکمران کرپشن کرتے ہی نہیں تو پھر یہ ہمارے اپنے اداروں کی یہ رپورٹیں کیوں آتی ہیں جن میں سالانہ چار سو ارب ، کبھی چھ سوارب روپے کرپشن کی نذر ہوجانے کا رونا رویا جاتا ہے ؟ یہ رپورٹیں بھی غالباً اسی'' ڈس انفارمیشن ‘‘مہم کا حصہ ہوں گی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ'' بدنام‘‘ کرنے والے عناصر کس قدر طاقتور ہیںکہ سٹیٹ بینک ، نیب ، ایف بی آر اور دیگر محکموں تک ان کی پہنچ ہے۔ 
ایک اور بات بھی میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ کرپشن کے یہ الزامات ہر بڑے سیاستدان اور سیاسی جماعت پر لگائے جاتے ہیں، مگر چند لوگ ان سے مستثنیٰ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ مولانا کی پاکباز اور مقد س شخصیت کو بدنام کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ پروپیگنڈا کرتی ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو ،مگر یہ الزامات جماعت اسلامی کی قیادت پر کیوں نہیں لگائے جاتے ؟ قاضی حسین احمد پر کبھی کسی نے یہ الزام نہیں لگایا۔ سید منور حسن تو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے، مگر کسی مائی کے لال نے اس مرد درویش پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔ سراج الحق ہی کو دیکھ لیں، ان کی تقریروں، طرز سیاست پر تنقید تو بہت ہوتی ہے، مگر ایک روپے کی کرپشن کا الزام بھی کہیں سے نہیں آیا، حالانکہ وہ صوبے کے وزیرخزانہ بھی رہے ہیں۔ اگر کرپشن کے الزامات بے بنیاد لگائے جاتے ہیں تو پھر قاضی حسین احمد ، منورحسن، سراج الحق کسی کو استثنا نہیں ملنا چاہیے ، مگر ایسا تو نہیں ہوا۔
اسی طرح تحریک انصاف کی اے ٹی ایم مشینوں پر بات ہوتی ہے، پرویز خٹک یاخیبر پختون خوا کے بعض وزیروں کے حوالے سے الزامات آتے ہیں، مگر کسی نے عمران خان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔ یہ بات حیران کن ہے۔ عمران خان حکومت کا سب سے بڑا مخالف اور حریف ہے۔ پچھلے تین برسوں سے اس کی پارٹی ایک صوبے میں حکمران ہے۔ کسی نے مگر یہ الزام نہیں لگایا کہ عمران خان نے وہاں کسی ٹھیکے میں پیسے لئے، یا ٹرانسفر پوسٹنگ کے پیسے پکڑے یا کسی اور مالیاتی سکینڈل میں حصہ لیا۔ دوسرے الزامات بہت لگتے رہے ،مگر کرپشن کا کسی نے کچھ نہیں کہا۔ یہ متضاد قسم کی حیران کن باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بڑا سر کھپایا مگر یہ گورکھ دھندا سمجھ میں نہیں آیا۔یا تو پھر یہ بات ہے کہ ہمارے ہاں کرپٹ سیاستدان ہیں ہی نہیں ، صرف ان پر الزامات ہیں یا پھر کسی نے کبھی ان الزامات کو ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس طرح ان کا اپنا نمبر بھی ایک دن لگ جائے گا۔ اسی طرح یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کرپشن کے سمندر میں ایسے جزیرے بھی ہیں جن پر الزامات کی گرد بھی نہیں اڑائی جا سکتی۔ یہ ایک انہونی سہی ، مگر امید کی کرن بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں