ایسا لگتا ہے کہ انسانوں نے خود ہی اس زمین کو رہنے کے قابل نہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن ماحول کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے‘ اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا جاتا۔ ترقی یافتہ ممالک تو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علیحدہ سے بجٹ بھی رکھتے ہیں اور اہلیت بھی لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ یہاں بجٹ میسر ہو جائے تو وہ ٹھیک جگہ خرچ نہیں ہو پاتا اور اقدامات کرنے پڑیں تو وہ بھی بددلی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ کبھی پاکستان موسموں کے حوالے سے آئیڈیل شمار کیا جاتا تھا لیکن عالمی درجہ حرارت بڑھنے سے اب یہاں انتہائی شدید گرمی پڑتی ہے جبکہ سردیوں کا وقت خاصا محدود ہو گیا ہے۔پہلے گرمی کی طرح سردی کے بھی چار‘ پانچ ماہ ہوتے تھے اور بیچ کے دو‘ تین مہینے معتدل اور خوشگوار رہتے تھے۔ لیکن اب تو سردی دسمبر سے وسط فروری تک سکڑ کر رہ گئی ہے اور اس سے پہلے سموگ کا جو عذاب ہر سال باقاعدگی کے ساتھ نازل ہونے لگا ہے‘ اس نے بدلتے موسم کے اثرات کو انتہائی مہلک اور تباہ کن بنا دیا ہے۔اس وقت لاہور کا کوئی سرکاری اور نجی ہسپتال ایسا نہیں جہاں ڈینگی‘ سموگ اور وائرل انفیکشن کی وجہ سے مریضوں کا تانتا نہ بندھا ہو۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو عام دنوں میں بھی بیڈ ملنا مشکل ہوتاہے اور ایسے وائرل بیماریوں والے سیزن میں بیڈ کا حصول لگ بھگ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے ایسے صوبائی دارالحکومت کی حالت ہے جہاں ایک طرف تو تیز رفتار انٹرنیٹ‘ سانپ کی طرح بل کھاتی اورنج لائن ٹرین‘ میٹرو بس‘ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل فرنچائزز اور من چاہی نعمتیں دستیاب ہیں لیکن دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں ایک بستر تک دستیاب نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے سموگ پر دائر پٹیشن پر سکولوں کو ہفتے میں تین دن؛ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار‘ بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ سموگ سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کو حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے آن لائن ایجوکیشن کا سلسلہ بحال کرنا پڑے گا‘ وگرنہ بچے ہفتے میں ایک دن بھی سکول جائیں گے تو بیمار ہونے کا خدشہ باقی رہے گا۔ اس وقت صورت حال کورونا سے کم خطرناک نہیں ہے۔ ماسک کے بغیر گھروں سے نکلنے کا مطلب پھیپھڑوں کو مضر کیمیکلز سے آلودہ کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح کورونا میں ماسک پہننے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی آگاہی مہم چلائی گئی تھی اسی طرح آج بھی یہ مہم چلائی جانی چاہیے۔ سیلولر کمپنیوں کو بھی یہ احکام جاری کیے جانے چاہئیں کہ وہ موبائل کالز پر انتظار کے دوران سموگ سے بچائو کے پیغامات چلائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک براہِ راست پیغام پہنچ جائے۔
سموگ زیادہ تر گنجان آباد شہروں میں ہوتی ہے لیکن اب اس نے شہر سے باہر‘ کھلے علاقوں اور دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگرچہ سموگ کا تعلق بدلتے موسم سے ہے لیکن اب موسم سرما بھی سموگ کی زد میں رہتا ہے۔ سموگ بنیادی طور پر دھند پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس میں انتہائی نقصان دہ مادے بھی شامل ہو جاتے ہیں جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ‘نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ‘ کاربن مونو آکسائیڈ اور چھوٹے مالیکیول‘ جو ہمارے پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ سموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات کے حوالے سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں‘ بشمول وہ لوگ جو سینے‘پھیپھڑوں یا دل سے متعلقہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صحت کو متاثر کرنے والی سموگ کی پہلی علامت گلے‘ناک‘ آنکھوں یا پھیپھڑوں میں تکلیف اور جلن ہے جبکہ سانس لینے میں دقت بھی پیش آ سکتی ہے۔ اسی طرح کھانسی‘الرجی اور آنکھوں‘ سینے‘ ناک اور گلے کی جلن بھی عام مسائل ہیں۔ شہریوں کی بڑی تعداد موٹرسائیکل پر بنا ہیلمٹ کے سفر کرتی ہے۔ اس سے ایک طرف وہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں سر کی خطرناک چوٹ سے دو چار ہو سکتے ہیں اور دوسری طرف ہیلمٹ نہ پہننے کا نقصان یہ ہے کہ بائیک چلاتے ہوئے جس طوفانی رفتار سے سموگ کے اجزا بغیر کسی فلٹریشن کے سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں‘ اس سے ان کے بیمار ہونے کا خدشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔تمباکو نوش افراد کے پھیپھڑے پہلے ہی کمزور رہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ انتہائی الارمنگ صورت حال بن جاتی ہے۔ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں حکومت نے جو کام کہنا ہے‘ ہم نے اس کے اُلٹ کرنا اور اسے نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ شہریوں کو ہیلمٹ پہننے کا کہا جائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ قانون کی پابندی کرنا یہاں گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون کا استعمال کرنے سے جب تک ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے تب تک ہمیں یقین نہیں آتا کہ موبائل فون سننے پر ہونے والا چالان ہمارے ہی فائدے کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم باز نہیں آتے۔جب جب موقع ملتا ہے قانون توڑتے ہیں اوراکثر اس کا خمیازہ صرف ہم ہی نہیں‘ ہمارے قریبی عزیز بھی بھگتتے ہیں۔
سموگ معمر افراد کے ساتھ ساتھ دمے کا شکار شہریوں کے لیے بھی زہرِقاتل ہے۔ دمہ کی بیماری سموگ کی وجہ سے بری طرح بگڑ جاتی ہے اور سموگ دمہ کے دورے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سموگ کا باقاعدگی سے سامنا کرنا کینسر اور سانس کی بیماریوں سے قبل از وقت موت کے خدشات کو بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح بھاری سموگ‘ جو طویل عرصے تک فضا میں چھائی رہتی ہے‘ الٹرا وائلٹ (یو وی) شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بون میرو میں کیلشیم اور فاسفورس کے میٹابولزم کی خرابی کی وجہ سے وٹامن ڈی کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ہڈیاں کمزور اور بھربھری ہو جاتی ہیں۔سموگ چونکہ آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے اس لیے ڈرائیونگ وغیرہ کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے جبکہ اس سے حادثات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔سموگ سے پوری طرح تو بچا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ سموگ کے دوران ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے، گھروں سے غیرضروری طور پر باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔گھر کے اندر رہیں اور اپنی کھڑکیاں‘ دروازے بند رکھیں۔سموگ کے حالات میں آئوٹ ڈور ورزش کرنے سے گریز کریں۔دوپہر کے وقت درجہ حرارت زیادہ ہونے سے اگرچہ اس کی شدت میں کچھ کمی آ جاتی ہے مگر اس وقت بھی خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
سموگ سے روایتی انداز میں نمٹنے کی کوشش بے نتیجہ ثابت ہو گی۔ جس طرح کے اقدامات کورونا کے دِنوں میں کیے گئے تھے ویسی ہی حکمت عملی اپنا کر اس عذاب سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔۔ سموگ سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کورونا کی طرح کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر قائم کرنا ہو گا۔ وہ بھٹے‘ کارخانے اور بسیں جہاں سے مضرِ صحت دھواں نکل کر فضا کو تباہ کرتا ہے‘ ان کے خلاف کارروائی کی معلومات بھی اسی کنٹرول روم سے عوام کے سامنے لائی جائیں اور یہیں سے سموگ سے متاثرہ افراد کی تعداد اور صحت یاب ہونے والے افراد کا ڈیٹا سامنے لایا جائے۔ جہاں جہاں اس عذاب کو بڑھانے والوں کو سزائیں دینا ممکن ہے‘ اس بارے میں ہنگامی طور پر قانون سازی کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں آن لائن کلاسز شروع کی جائیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں جہاں جہاں ممکن ہو‘ ورک فرام ہوم کا نظام لاگو کیا جائے تاکہ ٹرانسپورٹ کا کم سے کم استعمال ممکن ہو سکے۔اس وقت فضا میں عجیب سی کڑواہٹ رچ بس چکی ہے۔ یہ صرف مٹی یا ریت ہوتی تو اور بات تھی۔ اس میں ایسے ایسے خطرناک کیمیکلز ہیں جو انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔اس وقت ڈینگی اور کورونا کے وار بھی جاری ہیں اور ہمارا طبی نظام شدید دبائو کا شکار ہے۔ سموگ سے جان چھڑانے کی سنجیدہ اور مستقل کوششیں نہ کی گئیں تو یہ بحران عوام کے لیے سنگین المیہ بن سکتا ہے۔