جب سے یہ دنیا گلوبل وِیلج بنی ہے‘ تب سے ملکوں کے معاملات انفرادی نہیں بلکہ سانجھے ہو گئے ہیں۔ عالمی حالات میں جب بھی کوئی تبدیلی آتی ہے‘ دو بڑے ملک آپس میں لڑ پڑتے ہیں یا کسی سپر پاور کو کسی بحران سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کے اثرات دنیا کے دوسرے کونے میں موجود چھوٹے چھوٹے ملکوں پر بھی پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک کے حکمران کے لیے حکومت کرنا اور معاشی خوش حالی لانا آسان نہیں رہا‘ چاہے وہ برطانیہ جیسا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ گزشتہ چند ماہ میں برطانیہ جیسی سلطنت کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ جس طرح کے معاشی اور سیاسی بحران سے اسے گزرنا پڑا‘ ان حالات میں پاکستان جیسے ملک کا کیا حال ہو گا‘ اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ پاکستان میں آئندہ بھی جوسیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی‘ اسے بدترین معاشی حالات ورثے میں ملیں گے اور انہیں سنبھالنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام جس قسم کی ریلیف کی توقع رکھتے ہیں وہ حکومتوں کے لیے دینا اب ممکن ہی نہیں رہا؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور ملک کو جھٹ پٹ تبدیل کرنے کے خواب دکھاتے رہتے ہیں حالانکہ ملکی و عالمی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔
جہاں تک مہنگائی کی بات ہے‘ اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ کبھی ختم ہو جائے گی تو اس سے بڑا کوئی جھوٹ ہو نہیں سکتا۔ مہنگائی میں تھوڑی بہت کمی بھی اسی صورت میں آتی ہے جب شہریوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور آمدنی تبھی بڑھتی ہے جب غیرملکی زرمبادلہ اور سرمایہ کاری آتی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ کے ملکی حالات اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکیں اور روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع سامنے لا سکیں۔فی الوقت تو ڈالر کی قلت کے باعث حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ دیگر اشیا تو چھوڑیں‘ جان بچانے والی ادویات تک نایاب ہو گئی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پی کے ایل آئی میں گردوں سمیت متعدد ضروری آپریشنز معطل ہو گئے ہیں جبکہ ادویات کی امپورٹ کے لیے بینک سے ایل سیز کھلنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ چند روز قبل کراچی کے ایک ہسپتال سے متعلق یہ خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ وہاں گزشتہ ایک ماہ سے آپریشنز بند ہیں کیونکہ سرجری کا ضروری طبی سامان تک بھی درآمد نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے مطابق بھارتی اور چینی کمپنیاں ادھار پر خام مال نہیں دے رہیں‘ ایل سیز کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ادویات کی قلت کا بحران سنگین ہو جائے گا۔ کورونا کے دنوں میں بھی ایسے ہی حالات پیدا ہو گئے تھے اور عالمی سرحدیں بند ہونے سے کئی ممالک‘ جو خوراک امپورٹ کرتے تھے‘ وہاں نوبت فاقوں تک آ گئی تھی۔ ایک مرتبہ پھر وہی حالات بنتے جار ہے ہیں اورفیکٹریاں اور کارخانوں کے بند ہونے کی خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگی ہیں۔ گاڑیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹس بھی بند ہو رہے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ دو‘ تین برسوں میں آٹو پالیسی میں تبدیلی لائی گئی جس کے بعد آٹو مارکیٹ میں سات‘ آٹھ عالمی کمپنیاں اپنی گاڑیاں لے کر آئی تھیں مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ سلسلہ کئی عشرے تو دور کی بات‘ چند برس بھی کامیابی کے ساتھ نہ چل سکا۔ ان حالات میں نئے عالمی سرمایہ کاروں کی آمد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب پہلے والے ہی گردن تک مسائل میں دھنسے ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کو اس معاشی دلدل سے نکالنا کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے معاشی ایمرجنسی لگانا پڑے گی جس میں نہ صرف ملکی خزانہ بھرنے کی کوئی ٹھوس اور دیرپا پالیسی بنائی جائے بلکہ اخراجات میں کمی لانے کا بھی قابلِ عمل منصوبہ سامنے لایا جائے۔عام طور پر ایسے حالات میں جو پالیسیاں ماہرِ معاشیات کی جانب سے بنائی جاتی ہیں‘ وہ انتہائی وقتی ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں ایمنسٹی خاص طور پر شامل کی جاتی ہے تاکہ ایسے لوگ‘ جو کالا دھن رکھتے ہوں‘ وہ فوری طور پر اپنا پیسہ وائٹ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں؛ تاہم یاد رہے کہ ایسی پالیسیاں ملکی معیشت کی بنیادوں کو ہلانے کا باعث بن جاتی ہیں اور ساتھ ہی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں میں مختلف طرح کی ایمنسٹی سکیمیں شروع کی گئی تھیں۔ سب سے نقصان دہ سکیم کالا دھن رکھنے والوں کے لیے یہ لائی گئی کہ وہ ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کریں گے تو ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ نے یہ رقم کہاں سے کمائی۔ساری ناجائز کمائی اور ٹیکس چوری کا سارا پیسہ ایسی ایمنسٹی سکیموں میں دھل جاتا ہے۔ البتہ اس سے فوری طور پر معیشت میں پیسہ آ جاتا ہے لیکن ایسا پیسہ سٹیرائیڈ کا کام کرتا ہے۔ یعنی عارضی طور پر تو مریض کو طاقتور اور چاق و چوبند کر دیتا ہے لیکن اصل میں اس کی صحت کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جتنی بھی ایمنسٹی سکیمیں جاری کی گئیں‘ دیکھا جائے تو ان سے نہ تو ملک کو دور رس معاشی فوائد حاصل ہوئے نہ ہی عوام کو اس کا کوئی براہِ راست ثمر مل سکا؛ ہاں! البتہ بند ہوتی ہوئی معیشت کی گاڑی کو ایک دھکا ضرور لگ جاتا اور وہ کچھ فرلانگ مزید چلنے کے قابل ہو جاتی ہے لیکن کچھ دور جا کر معیشت کے کاربوریٹر میں دوبارہ کچرا آ جاتا ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا ہوا اب یہاں تک آن پہنچا ہے کہ جان بچانے والی ادویات تک ملک میں ناپید ہو رہی ہیں اور انتہائی ضروری آپریشن ملتوی کرنا پڑ رہے ہیں۔
یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ اس ملک کا اصل انجن بارہ‘ تیرہ کروڑ نوجوان ہیں اور یہی اس کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں نوجوانوں کا نام تو استعمال کرتی ہیں‘ ان سے ووٹ بھی لیتی ہیں لیکن جب نوجوانوں کو ان کا حق دینے کی باری آتی ہے تو لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔اب راتوں رات امیر ہونے والا دور ختم ہو چکا۔ روایتی شعبوں میں بھی چارم باقی نہیں رہا۔ یہ شعبے اُس وقت تک تو بہت پُرکشش تھے جب ٹیکنالوجی کا دور نہیں آیا تھا اور روایتی کاروبار عام تھے، اب مگر حالات بدل گئے ہیں۔ دنیا کے گلوبل وِیلیج بننے سے جہاں بیرونی ممالک میں پیدا ہونے والے بحرانوں سے پاکستان جیسے ممالک متاثر ہو رہے ہیں‘ وہاں ان ممالک میں سامنے آنے والی نت نئی ٹیکنالوجی سے ہم بھی بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کیا یہ معمولی خبر ہے کہ پاکستان فری لانسنگ مارکیٹ میں دنیا میں اس وقت چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے! ذرا سوچیں‘ اگر آج آئی ٹی کا دور نہ ہوتا تو ہمارے بچوں کے لیے کون سے معاشی مواقع باقی بچے تھے؟ آبادی بڑھنے کی وجہ سے روایتی نوکریاں کم پڑ چکی ہیں‘ حتیٰ کہ کسی ہسپتال میں ہائوس آفیسر کی ایک ایک سیٹ کے لیے ہزاروں ڈاکٹرز اپلائی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے ڈاکٹرز ایم بی بی ایس کرنے کے بعد بھی بیروزگار ہیں اور چاروناچار آئی ٹی کی فیلڈ کی طرف آ رہے ہیں۔
دنیا میں وہی ممالک اور وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ہوا کے بدلتے رخ کو دیکھ کر خود کو تیار کر لیتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں ترقی کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ یہ جو ہم آبادی کا رونا روتے ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی مفروضہ غلط ثابت ہو سکتا ہے‘ اگر ہم اس آبادی کا درست استعمال سیکھ لیں۔ اگر ہم اپنے افرادی وسائل کو درست طور پر بروئے کار لائیں تو یہی آبادی ہمارے ملکی خزانے کو بھرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بنگلہ دیش‘ بھارت اور چین یہی کچھ کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اپنی آبادی‘ اپنی نوجوان نسل کو کسی کام پہ لگانے اور اس کو درست سمت میں گامزن کرنے میں ناکام ہیں جبکہ وہ ممالک اپنے عوام کی اہمیت جان چکے ہیں اور ان کے ذریعے نہ صرف ملک کی بلکہ عوام اپنی قسمت بھی بدل رہے ہیں۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں‘ اس کے لیے ہماری لیڈر شپ اور عوام‘ دونوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا‘ تبھی وہ سب کچھ ممکن ہو سکے گا جس کے ہم دن رات خواب دیکھتے رہتے ہیں۔