اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت ایک ارب افراد کو بھوک کا سامنا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات اور بنیادی حقوق تو درکنار‘ اتنی بڑی آبادی کو روزانہ اتنا بھی کھانا میسر نہیں ہو پاتا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ دوسری جانب دنیا کے دو درجن افراد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں اور یہ پسندیدہ محلات اور گاڑیاں تو معمولی بات‘ اگر چاہیں تو پورے کا پورا ملک خرید سکتے ہیں۔ اسے قدرت کی تقسیم کہہ لیں یا نصیب؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی کم از کم ضروریات میں دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کو کپڑا شامل ہے مگر بدقسمتی سے ہر سال کروڑوں افراد ان دو چیزوں سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ جو لوگ کہنے کو خوراک حاصل کر لیتے ہیں اور پیٹ کا دوزخ کسی نہ کسی طرح بھرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ طب کی رُو سے وہ بھی بھوکے ہی شمار کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی خوراک میں وہ تمام غذائی اجزا مناسب مقدار میں شامل نہیں ہوتے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کھانے اور غذائیت میں فرق جاننا بھی ضروری ہے۔ بہت سے افراد کھانا تو کھا لیتے ہیں لیکن اس کھانے میں چونکہ تمام غذائی اجزا نہیں ہوتے‘ اس کے باعث ان کی نشوونما نہیں ہو پاتی اور وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص خوراک کے ذریعے ضرورت سے کم وٹامن ڈی لے رہا ہے تو اس کی ہڈیاں کمزور ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح وٹامن سی قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے‘ آنکھوں اور جلد کے لیے مفید ہوتا ہے۔ یہ سلاد‘ لیموں‘ ترش پھلوں اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے، اگر کھانے میں وٹامن سی سے متعلقہ چیزیں موجود نہیں ہوں گی تو لامحالہ جسم مں وٹامن سی کی کمی ہو جائے گی‘ جس سے قوتِ مدافعت کم ہو گی اور بالآخر انسان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت اور مدافعت کھو دے گا۔ دودھ کیلشیم کا بہترین ذریعہ ہے لیکن دودھ کتنے لوگوں کو میسر ہے اور وہ بھی خالص؟ دودھ کے نام پر جو محلول ہم پیتے ہیں‘ خدا جانے اس میں آلودہ پانی کے علاوہ کیا کچھ ملایا جاتا ہے اور کیا وہ گائے یا بھینس کا دودھ ہوتا بھی ہے یا پھر مختلف کیمیکلز کی مدد سے پانی کو دودھ کی شکل دے کر بیچ دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں حیرانی کی ضرورت اس لیے نہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ملاوٹ شدہ اشیا روز مرہ کی روٹین سمجھی جانے لگی ہیں۔ جسم کو کیلشیم بہم پہنچانے کے لیے خالص دودھ درکار ہوتا ہے لیکن یہاں تو دودھ کے نام پر زہر بیچا جا رہا ہے اور ہم پیسے دے کر اسے خرید بھی رہے اور بچوں کو پلانے پر مجبور ہیں۔ کوئی اِکا دُکا خوش نصیب ہی ہو گا خالص دودھ جسے میسر ہو۔ اب تو دیہات میں بھی یہ ناپید ہو رہا ہے۔ ایک تو آبادی بڑھنے سے دودھ کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے‘ دوسری جانب لائیو سٹاک کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہو گئی ہے۔ جانور پالنے اور ان سے گوشت‘ دودھ اور پنیر وغیرہ حاصل کرنا ایک منفعت بخش کاروبار شمار کیا جاتا ہے لیکن کارپوریٹ کلچر نے خالص اور دیسی خوراک کے کلچر کو بھی جنک فوڈ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب دیہات میں بھی نئی نسل کاروبار کرنے کے لیے برگر‘ پیزا‘ شوارما اور آئس کریم جیسی اشیا کو ترجیح دے رہی ہے۔ ان اشیا میں چکن اور بیف کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان اشیا کی سپلائی ہی مناسب مقدار میں نہیں ہو گی تو یہ کاروبار کیسے پنپیں گے۔ تن آسانی نے لوگوں کو سست اور بیکار کر دیا ہے۔ زیادہ تر لوگ Passive Income چاہتے ہیں؛ یعنی کہیں پیسہ لگا دیں اور بغیر کچھ کیے اس میں آپ کو کچھ نہ کچھ حصہ ملتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات میں بھی اب غذائیت سے بھرپور کھانے میسر نہیں رہے۔ شہروں میں آنے والے دل‘ جگر‘ ہیپاٹائٹس اور معدے کے امراض سے متعلقہ زیادہ تر مریضوں کا تعلق دیہات سے ہی ہوتا ہے۔ دیہات کی زندگی اب اتنی سادہ اور پُرسکون نہیں رہی۔ وہاں بھی جھگڑے‘ ذاتی رنجشیں اور زمینوں کی لڑائیاں سکون برباد کرنے میں لگی ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں‘ اب تو جس کے پاس چار ایکڑ زمین ہے‘ وہ اس پر کوئی فصل کاشت کرنے کے بجائے اسے تین‘ تین پانچ‘ پانچ مرلے کے پلاٹ بنا کر بیچ رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جہاں گندم اور چاول پیدا ہونے تھے‘ وہاں سریے اور اینٹوں کے ڈھانچے کھڑے ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو رہائش تو مل رہی ہے لیکن خوراک کی قیمت پر۔
پاکستان گندم‘ چینی‘ دودھ‘ کپاس اور چینی برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے لیکن اکثر حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ہم یہ چیزیں ہمسایہ ملکوں سے منگوانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جسم کو طاقت پہنچانے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے بنیادی اور اہم شے گندم کی روٹی ہے۔ گزشتہ دو‘ تین برسوں میں جس تیزی سے گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے‘ روٹی بھی عام لوگوں کی پہنچ میں نہیں رہی۔ آٹا ایک سو ستر روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر گیا ہے جو عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکا ہے۔ قریب سال‘ ڈیڑھ سال قبل تک یہ پچاس‘ پچپن روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ لوگوں کی آمدن وہیں کی وہیں ہے جبکہ مہنگائی میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صرف آٹے‘ دودھ اور چند سبزیوں کی بات نہیں ہے‘ ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ کورونا جیسی وبائیں اور قدرتی آفات رہی سہی کسریں نکال رہی ہیں۔ اس کے بعد بھی جو بچی کھچی کسر رہ جاتی ہے‘ وہ عالمی جنگیں پوری کر دیتی ہیں۔
دیکھا جائے تو دنیا کی زیادہ تباہی انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہے۔ ایران عراق جنگ‘ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان‘ عراق سمیت دنیا کے کئی ممالک کو تورا بورا بنا دیا لیکن اس میں سے نکلا کیا؟ بھوک‘ افلاس‘غربت‘ بے روزگاری اور مزید بدامنی؟ اس وقت تک روس‘ یوکرین جنگ میں چالیس ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو کر دیگر ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روس نے گزشتہ برس چوبیس فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے آدھی دنیا میں خوراک‘ توانائی اور مہنگائی کے عفریت پنپ رہے ہیں اور باقی رہی سہی دنیا کو نگل رہے ہیں۔ بیس سال افغانستان میں بلاوجہ کی جنگ لڑنے والے امریکہ کو کیا ملا؟ بالآخر اسے بھی جانا پڑا۔ کیا اس حملے سے دنیا محفوظ جگہ بن گئی؟ کیا دنیا میں امن قائم ہو گیا؟ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں جب بھی امن قائم ہونے لگتا ہے‘ کسی نہ کسی ملک کو پھر سے جنگ کا دورہ پڑ جاتا ہے اور نئی جنگیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ جب دنیا کے امیر ترین افراد بھی دن میں چار یا چھ روٹیاں ہی کھا سکتے ہیں اور غریب بھی‘ تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ بہت سے متمول افراد اپنی عمر کے آخری حصے میں جب بہت زیادہ دولت کما لیتے ہیں تو موت کو سامنے کھڑے دیکھ کر کچھ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی بے کار کاموں میں ضائع کر دی۔ پھر یہ لوگ خیرات کی طرف آتے ہیں اور اپنی نوے فیصد سے بھی زائد دولت غربت کے خاتمے‘ صاف پانی کے حصول اور سستی تعلیم کے نام کر دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو یہ احساس مرتے وقت بھی کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے اور اس وقت بھی مزید اثاثوں کی ہوس ہی ان کے سر پر سوار ہوتی ہے۔ کاش! دنیا پر چڑھ دوڑنے‘ اسے فتح کرنے اور میزائلوں کی بارش کرنے والے حکمران اور متمول افراد غربت کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے بھی اکٹھے ہو جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غربت اور نا انصافی کا یہ ناگ بے قابو ہو کر خود انہیں ہی ڈس لے!