"ACH" (space) message & send to 7575

بکھیڑے

آج کا انسان اپنے مسائل خود بڑھا رہا ہے یا پھر یہ وقت کے ساتھ اس پر پیرِ تسمہ پا کی طرح مسلط ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو اپنے اور اردگرد موجود دیگر افراد کے لائف سٹائل پر ایک نظر ڈالنے سے ہو ہی رہا ہو گا۔ مسائل کا یہ انبار انسان پر اس حد تک سوار ہو چکا ہے کہ بعض اوقات وہ اس بوجھ تلے ہلنے یا سرکنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔رہی سہی کسر موسم کی سختیوں اور حیران کن تبدیلیوں نے پوری کر دی ہے‘ جن کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو الگ سے پیسہ اور توانائی خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔ سادہ طرزِ زندگی اب عنقا ہو چکی ہے۔اب تو سادہ شخص یا سادگی کو اپنانے والے کو بیوقوف یا گنوار سمجھا جاتا ہے۔ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص ٹچ سکرین سمارٹ فون اس لیے نہیں رکھنا چاہتا کہ اس سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے‘ آنکھوں پر بھی بلاوجہ زور پڑتا ہے‘ نیند کے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں اور ذہنی دبائو میں بھی اضافہ ہوتا ہے تو ایسے شخص کو سارے حیران ہو کر دیکھیں گے کہ بھائی کس زمانے میں رہ رہے ہو؟ اسے کہا جائے گا کہ آج کل بٹنوں والا فون کون رکھتا ہے۔
اگر کوئی شخص مینوئل گاڑی پسند کرتا ہے تو اسے بھی حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ دنیا ساری آٹومیٹک گاڑیوں کی طرف شفٹ ہو چکی ہے اور تم ابھی تک کلچ اور گیئر کے چکر سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔ وہ لاکھ کہے کہ اسے ایسا کرنا پسند ہے‘ اس سے پٹرول بھی بچتا ہے اور دونوں پیروں کی ورزش بھی ہو جاتی ہے جبکہ آٹومیٹک گاڑی میں ایک پائوں تو ویسے ہی بے کار ہو جاتا ہے تو اس کی ان دلیلوں پر لوگ یا تو ہنسیں گے یا پھر اسے دیوانہ قرار دے دیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رات کو چھت پر پنکھا لگا کر کھلی ہوا میں اس لیے سونا چاہتا ہے تاکہ اپنے جسم کو تازہ ہوا اور نظام فطرت سے ہم آہنگ رکھ سکے اور علی الصباح اس کی آنکھ بھی کھل جائے اور وہ بروقت فجر کی نماز کے لیے مسجد چلا جائے تو لوگ اسے مخبوط الحواس قرار دے کر کہیں گے کہ چھت پر آج کل کون سوتا ہے‘ ایئرکنڈیشنر والے کمرے کو چھوڑنا کفرانِ نعمت اور نری حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اسی طرح گھر کا کوئی بزرگ اگر یہ کہے کہ میں مسجد پیدل یا سائیکل پر جانا چاہتا ہوں تو گھر کے تمام افراد سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ بڑی بی کہیں گی کہ جب آپ کو مسجد جانے کے لیے گاڑی اور ڈرائیور میسر ہے تو پھر کیوں آپ پیدل مسجد نکل جاتے ہیں یا کبھی سائیکل کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔ اس عمل کو سوسائٹی میں ناک کٹوانے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ وہ بزرگ لاکھ سمجھائے کہ پیدل چلنے میں عافیت ہے‘ یہی طویل عمر اور اچھی صحت کا راز ہے‘ پیدل چلنے اور سائیکل چلانے سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں‘ جسم میں خون کی روانی بڑھتی ہے اور بیماریاں بھی دُور رہتی ہیں، مگر اس کی دلیلوں کو کوئی خاطر میں نہیں لائے گا۔ یہ ہومیوپیتھک باتیں اس کے اہلِ خانہ کو متاثر نہیں کر پائیں گی اور وہ بضد رہیں گے کہ آپ کو اب باقی زندگی آسائشوں کے ساتھ ہی جینا پڑے گا۔ اگر آپ گھر کے واحد بزرگ ہیں تو دیگر افراد آپ کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں گے جیسے آپ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔ کسی دن آپ اپنا رات کا کھانا ٹھیک سات بجے کھا چکے ہوں گے کیونکہ یہ آپ کی برسوں کی عادت ہے اور نو بجے بستر پر لیٹنے کی تیاری کر رہے ہوں گے تو پتا چلے گا کہ آج رات کو آپ کے بچوں یا پوتوں کی سالگرہ رکھی گئی ہے۔ بچے اپنے دوستوں کو بتائیں گے کہ یار یہ بزرگ پتا نہیں کیسے ہیں‘ کیا کرتے ہیں‘ ہمارے ساتھ برتھ ڈے بھی نہیں مناتے۔ آپ لاکھ سمجھائیں گے کہ بیٹا رات کو لیٹ تک کھانا صحت یا معدے کے لیے اچھا نہیں ہوتا‘ بستر پر جانے سے دو تین گھنٹے قبل تک کھانا کھا لینا چاہیے اور کچھ دیر چہل قدمی لازمی کرنی چاہیے تو جواب ملے گا: ہم تو سب کچھ رات کو ہی کھاتے ہیں‘ ساری دنیا کھاتی ہے‘ انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ آپ کی الگ سائنس اور منطق ہے جس پر آپ بھونچکے سے رہ جائیں گے اور بستر پر چادر تان کر سونے پر ہی اکتفا کر لیں گے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ زندگی کے بکھیڑے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ کچھ قدرتی طور پر اور کچھ ہم نے خود پال رکھے ہیں۔ موبائل فون ہمہ وقت پاس رکھنا آج کے دور میں ہر کسی پر لازم ہو چکا ہے، اس کو ہر وقت چارج رکھنا ایک الگ دردِ سر ہے۔ اکثر افراد کو اس کے لیے ایک پاور بینک ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ اس پاور بینک کے ساتھ ایک کیبل بھی رکھنا پڑتی ہے۔ گاڑی میں موبائل کا الگ سے ایک چارجر ہونا چاہیے۔ دفتر میں الگ۔ پھر اس پاور بینک کی بیٹری بھی ہر وقت چارج رہنی چاہئے۔ ہینڈز فری اور ایئر پوڈ جیسے لوازمات علیحدہ ہیں۔ پھر انٹرنیٹ پیکیج بھی ہمہ وقت میسر ہونا چاہیے۔ جو موبائل فون لیا ہوا ہے‘ اس کی فرنٹ سکرین اور بیک پر پروٹیکٹر چڑھانا بھی لازمی ہے کہ سامنے کی سکرین ٹوٹ گئی تو پورا پینل ہی نیا ڈلوانا پڑ جائے گا جو عام سے موبائل فون میں بھی دس‘ بیس ہزار سے کم میں نہیں ڈلے گا۔
اسی طرح اب گاڑیوں میں بھی نئی سر دردی شروع ہو چکی ہے۔ پہلے گاڑی لی جاتی تھی اور زیادہ سے زیادہ اسے دھو کر پالش کر لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بھی درجنوں لوازمات آ گئے ہیں۔ اتنے باتھ روم میں شیمپو نہیں ہوتے جتنے گاڑیوں کے شیمپو اور پالشیں آ گئی ہیں۔ باڈی کی الگ پالش‘ بمپروں کی الگ‘ شیشوں کی الگ‘ رِموں کی الگ۔ ڈیش بورڈ کی شائننگ اور پالش الگ سے ملتی ہے۔ اسی طرح نئی گاڑی لینے والا نمبر لگوائے یا نہ لگوائے‘ پہلے سیدھا اس کی باڈی کو محفوظ بنانے کے لیے مخصوص میٹریل کی کوٹنگ کرانے ضرور پہنچ جاتا ہے تاکہ موٹر سائیکل یا کسی اور وجہ سے لگنے والی خراشوں سے گاڑی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ کوٹنگ ایک‘ ڈیڑھ لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور چار‘ پانچ لاکھ روپے تک جاتی ہے جبکہ اس کی مدت بھی لائف ٹائم نہیں ہوتی بلکہ دو‘ تین سال کے بعد پھر سے کوٹنگ کرانا پڑتی ہے۔ یوں نئی گاڑی کا بھی تقریباً دوسری شادی کرنے والا حساب ہو جاتا ہے اور وہ شخص ہر وقت گاڑی کو چمکانے اور ٹپ ٹاپ رکھنے کی مگن میں محو رہنے لگتا ہے۔
پہلے زمانوں میں محلے کے نائی کے پاس جا کر بال کٹوا لیے جاتے تھے۔ نائی مشین پکڑتا تھا اور سائیڈوں سے فوجی کٹ کر کے وقت بچاتا تھا لیکن اب کٹنگ کے نام پر سٹائلنگ اور فیشننگ کرائی جاتی ہے۔ خواتین کو چھوڑیں‘ اب تو نوجوان اور بچے بھی پکڑائی نہیں دیتے۔ پانچ‘ پانچ ہزار روپے کے پیکیج بنے ہوئے ہیں‘ فیشل مساج‘ بالوں کو سیدھا کرنے اور چہرے کی رنگت نکھارنے والی کریمیں‘ بلو ڈرائیر‘ ہیئر جیل اور پتا نہیں کیا کیا بلائیں ہیں جو چہرے اور بالوں پر جب تک لگوا نہ لی جائیں‘ سکون ہی نہیں آتا۔ یہی کچھ کھانے پینے کے معاملے میں ہوتا ہے۔ پہلے مہینے‘ دو مہینے میں ایک آدھ بار باہر سے کھانا کھا لیا جاتا تھا مگر اب کھانا نہیں‘ کھابے کھائے جاتے ہیں اور اب تو بات اور بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ پہلے بکرے یا دنبے کی کڑاہی پر اکتفا کر لیا جاتا تھا اب مگر پورے کا پورا سالم بکرا جب تک سامنے نہ پڑا ہو اور جب تک بکرے کے پیٹ میں چاول بھر کر اسے زمین میں کوئلوں کی بھٹی میں پکایا نہ جائے تب تک آئوٹنگ کا مزہ ہی نہیں آتا۔
ایسے نجانے کتنے ہی بکھیڑے ہیں جو ہم نے خود ہی پالے ہوئے ہیں اور انہیں مصروفیت اور لائف سٹائل کا نام دے رکھا ہے۔ ہمارے کمروں میں الماریوں کے دراز اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز پر جو ادویات کا جمعہ بازار لگا رہتا ہے‘ یہ سب انہی بکھیڑوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارا جسم‘ ہماری سوچ حتیٰ کہ ہماری روح بھی ان بکھیڑوں کی عادی ہو چکی ہے۔ انہی کی وجہ سے گھروں میں ساری جگہ لڑائیوں‘ نفاق اور کدورتوں نے لے لی ہے اور سکون‘ خوشیاں‘ محبتیں یا تو گھروں سے نکل چکی ہیں یا گھر کے کسی کونے کھدرے میں کسی دیوار کے ساتھ لپٹی اور سمٹی ہوئی‘ خوفزدہ نظروں کے ساتھ ہمیں اور ہمارے بکھیڑوں کو دیکھ رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں