آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ انٹربینک میں امریکی ڈالر منگل کے روز دس روپے سستا ہو گیا۔ اوپن مارکیٹ میں بھی یہ کم ہو کر 280روپے پر آ گیا۔ اب اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کا فرق پانچ‘ چھ روپے کا رہ گیا ہے جو تیس روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ڈالر سستا ہونے سے سونے کی قیمت بھی کم ہو گئی ہے حالانکہ عالمی مارکیٹ میں گزشتہ روز سونا سترہ ڈالر فی اونس مہنگا ہوا۔پاکستانی کرنسی جتنی مضبوط ہو گی اتنا ہی عام آدمی کو ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ بلومبرگ کے مطابق ڈالر کو 245 روپے کے آس پاس ہونا چاہیے۔ ایک ماہ قبل ڈالر تین سو روپے تک پہنچ گیا تھا‘ یوں اگر یہ پچاس‘ پچپن روپے نیچے آتا ہے تو کافی نمایاں فرق پڑے گا۔ ابھی صرف دس روپے کم ہونے سے غیرملکی قرضوں میں 1250 ارب روپے کی کمی ہو گئی ہے۔اگر پچاس روپے کمی ہوتی ہے تو چھ‘ سات ہزار ارب روپے قرض کا بوجھ کم ہو جائے گا۔ تاہم یہ تو اعداد و شمار کے جھمیلے ہیں‘ عوام اس معاہدے اور ڈالر میں کمی کے اثرات مہنگائی میں کمی اور دیگر معاملات میں بہتری کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ پٹرول یا ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں فوری طور پر بڑھا دی جاتی ہیں۔ اشیائے خور و نوش ہوں یا امپورٹڈ چیزیں‘ سبھی کو یکدم آگ لگ جاتی ہے اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا‘وقت دیکھا جاتا ہے نہ کوئی قاعدہ یا دستور پیشِ نظر رکھا جاتا ہے لیکن جب یہی پٹرول اور ڈالر نیچے آتے ہیں تو مارکیٹ کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اپنا منافع کم ہوتا دیکھ کر تاجروں کا خون خشک ہونے لگتا ہے۔
پٹرولیم کی قیمتوں میں گزشتہ ایک‘ دو ماہ میں تیس روپے فی لٹر تک کی کمی ہوئی ہے لیکن مجال ہے کہ ٹرانسپورٹرز حضرات نے اس حساب سے کرائے کم کیے ہوں۔ اگر کسی نے کیے بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر۔ پٹرول کی قیمت اگر دس روپے فی لٹر بڑھتی ہے تو کرایوں میں بیس‘ تیس روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن اب تیس روپے فی لٹر تک کم ہونے کے باوجود کرایوں میں معمولی سی کمی کی گئی ہے۔ ایک خبر کے مطابق قصور سے لاہور تک کے کرائے میں صرف پانچ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوٹ مار کا میدان سجا ہوا ہے اور جس کا جو دل چاہتا ہے‘ وہ کر رہا ہے۔
پاکستانی کرنسی کی قدر گزشتہ تین برسوں کے دوران فری فال انداز میں گری ہے‘ اس سے جہاں زیادہ تر عوام کو مہنگائی کے جھٹکے برداشت کرنا پڑے اور ڈالر مہنگا اور روپیہ سستا ہونے کی خبریں سن کر عوام کا خون کھولتا تھا‘ وہیں کچھ ایسے افراد بھی تھے جو ڈالر مہنگا ہونے کی دعائیں کرتے تھے۔ان میں سے کچھ وہ ہیں جو بیرونِ ملک سے پیسے بھیجتے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو پاکستان میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے ایک ڈالر یا پائونڈ کے بدلے میں زیادہ روپے مل جاتے ہیں۔ اسی طرح جن کے کاروبار ڈالر سے منسلک تھے یا جو پاکستان میں بیٹھے فری لانسنگ‘ٹیکسٹائل یا کسی بھی طرح کی ایکسپورٹ کر رہے تھے‘ وہ جب یہ خبر سنتے کہ ڈالر پانچ روپے مہنگا ہو گیا تو وہ فوراً کیلکولیٹر اٹھا کر حساب کرنے لگتے کہ پچھلی مرتبہ ایک ہزار ڈالر پاکستان بھیجنے پر دو لاکھ پچاسی ہزار روپے ملے تھے‘ اب دو لاکھ نوے ہزار یعنی پانچ ہزار روپے زیادہ ملیں گے۔ یعنی ایک جانب معیشت کا بھٹہ بیٹھ رہا تھا اوردوسری جانب کچھ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے منافع کے لالچ میں اپنی خوشیاں ڈالر کے مہنگا ہونے میں تلاش کر رہے تھے۔اب جبکہ ڈالر نیچے کی طرف آ رہا ہے تو یقینا ان لوگوں کا بلڈ پریشر بھی گر رہا ہو گا کیونکہ اب ڈالر ایکسچینج کرانے پر کم پیسے ملیں گے۔
آئی ایم ایف کے معاہدے پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل ہے۔ زیادہ تر جذبات کی رو میں بہتے نظر آئے۔ وہ افراد‘ جو سابق حکومتوں کے دور میں آئی ایم ایف معاہدے پر چوں بھی نہیں کرتے تھے‘ اب انہیں بھی اس معاہدے میں غلامی کی زنجیریں نظر آنے لگی ہیں حالانکہ یہ ملک بھی وہی ہے‘ عوام بھی وہی ہیں‘معیشت بھی وہی ہے اور آئی ایم ایف بھی وہی ہے اور فیصلے بھی ویسے ہی ہیں‘ صرف حکمران بدلے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اگر سابق دور میں حکمران آئی ایم ایف سے معاہدہ کر رہے تھے اور وہ عمل درست تھا تو اب یہ غلامی کا طوق پہننے کے مترادف کیسے ہو گیا؟ تب مزید امداد اور قرض لے کر پرانے قرضے اور سود ادا کرنا جائز تھا لیکن اب چونکہ حکمران وہ نہیں رہے تو کسی کیلئے وہی کام جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز ہو گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیس سال تک قوم کو سمجھاتے رہے کہ ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے ‘آئی ایم ایف کی شرائط عوام کا بھرکس نکال رہی ہیں ‘وہ ہمیں یہ بھی بتاتے تھے کہ پاکستان میں ہر نیا بچہ اتنے لاکھ روپے کا قرض لے کر پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں آئی ایم ایف سے کوئی معاہدہ نہ کیا اور اس کا خمیازہ معاشی ابتری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ معیشت پاتال سے جا لگی جبکہ مہنگائی کی شرح یکدم سبھی حدود عبور کر گئی۔ بالآخر کوئی اور راستہ نہ سوجھا تو آئی ایم ایف کی سبھی کڑی شرائط قبول کر لیں۔ میڈیا نے جب ان کے پرانے فرمودات یاد کرائے تو کہا: یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں۔صرف آئی ایم ایف کے معاملے پر ہی نہیں بلکہ اپنے درجنوں دیگر بیانات پر بھی یوٹرن لینا شروع کر دیا اور جس کسی نے انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کی‘ جس صحافی‘ اینکر کالم نگار یا چینل نے کسی پریس بریفنگ‘ میڈیا ٹاک یا انٹرویو میں ان سے کوئی سخت سوال پوچھا تو بعد میں اس صحافی‘ اس چینل کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ جھوٹے اور جعلی مقدمات بنائے گئے‘ ان کیخلاف سوشل میڈیا پر مذموم اور ٹارگٹڈ مہمیں چلائی گئیں۔ویسے موصوف کو داد دینی چاہیے کہ کتنی محنت کے ساتھ انہوں نے اپنی ساکھ اور مقبولیت کو خاک میں ملا دیا۔اتنی مقبولیت کسی کو ملی ہو اور وہ اس کا درست استعمال نہ کر سکے تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی۔ مقبولیت کا زعم بسااوقات انسان کی مَت مار دیتا ہے۔ انسان کا زوال تبھی شروع ہوتا ہے جب وہ خود کو ''ناگزیر ‘‘خیال کرنے لگتا ہے۔ خان صاحب کی ''میں‘‘نے انہیں اور ان کی جماعت کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ''میں نے یورپ میں آدھی زندگی گزاری ہے‘ میں مغرب کو‘ وہاں کے نظام کو ان لوگوں سے زیادہ بہتر جانتا ہوں۔ قبائلیوں کے مسائل مجھ سے زیادہ کس کو معلوم ہوں گے‘‘۔ایسے موٹیویشنل قسم کے لیڈر سمجھتے ہیں کہ بس وہی جانتے ہیں کہ یہ دنیا کیسے ٹھیک ہو گی‘ سارے مسائل کا حل انہی کے پاس ہے۔ گھنٹے دو گھنٹے کا کوئی بھی لیکچر‘ کوئی بھی تقریر سن لیں‘ پچانوے فیصد باتیں وہی ہوں گی جو ہر تقریر میں دہرائی جاتی ہیں‘ باقی پانچ فیصد وہ ہوں گی جو دائیں بائیں سے ان کے کسی مشیر نے کان میں ڈال دیا ہو گا اور موصوف نے اس پر یقین کر کے آگے بیان کر دیا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں نا 'خدا دے اور بندہ لے‘ اس ملک میں ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک ٹھگ ملا ہے اور ملک و قوم کا حال یہ ہے کہ کسی ایک کو بھی جامد قسم کے مقلدین کی کمی نہیں ہوئی۔ کسی کو ایسے لوگ محض اس لیے پسند ہوتے ہیں کہ ان کے مخالفین انہیں اچھے نہیں لگتے‘ کسی کو اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو خوب منٹین (maintain) کیا ہوتا ہے، ٹانگوں سے وزن باندھ کر دوڑ لگا لیتے ہیں، کئی کئی کلومیٹر تک بھاگ لیتے ہیں۔ کسی کو اس لیے پسند ہوتے ہیں کہ عوام کے نبض شناس ہوتے ہیں۔ وہ باتیں کرتے ہیں جو عوام کے دل میں ہوتی ہیں۔ ان کی دانست میں یہ لوگ سچ بولتے ہیں‘ کھری بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اپنے سچی باتوں پر ایسے لوگ خود کتنا عمل کرتے ہیں ‘دوسروں کے بارے میں جو کہتے رہے‘ طاقت‘ اختیار یا حکومت ملنے کے بعد ان ''فرمودات ‘‘ پر خود کتنا عمل کیا ‘یورپ کی مثالیں دینے والے خود کتنی مرتبہ سائیکل پر دفتر گئے‘کتنی مرتبہ بڑے قومی سانحات پر استعفیٰ دیا،وغیرہ وغیرہ۔خیر رات گئی‘ بات گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے پاکستان کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے‘ دعا ہے کہ یہ عالمی ادارے سے آخری معاہدہ ہو۔ ایسا اُسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی معیشت کی اصلاح پر زور دیا جائے۔ اقتصادی اصلاحات کے بغیر ایسے کسی معاہدے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ ہر بار کڑی شرائط کی صورت میں انہیں نئی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔