جو قوم سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل بھی مہذب طریقے سے نہیں چلا سکتی ‘ وہ نجانے کس منہ سے ترقی اور تبدیلی کے خواب دیکھتی ہے۔ یہ حال صرف اَن پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگوں کا نہیں بلکہ اشرافیہ اور کئی خواندہ افراد بھی اس علت کا شکار پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ہم سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز دیکھ رہے ہیں جس میں محکمہ ایکسائز والے شہر کے مختلف چوکوں میں ناکے لگا کر کھڑے ہیں اور گاڑیوں کے ٹوکن اور رجسٹریشن وغیرہ چیک کر رہے ہیں۔ جب کسی بھی شخص کو روکا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ فوری طور پر گاڑی بھگانے کی کوشش کرے‘ خواہ اس کوشش میں گاڑی ایکسائز انسپکٹر کے اوپر ہی چڑھ جائے، اس کا یہ قصور کم ہے کہ اس کی مجال کیسے ہوئی کہ اس نے مابدولت کی گاڑی کو روکا۔ جیسے تیسے کر کے گاڑی روک لی جاتی ہے تو آستینیں چڑھا کر لوگ لڑنے مرنے پر آ جاتے ہیں کہ تم ہو کون پوچھنے والے ہماری گاڑی کی بابت۔ فی الوقت ان ناکوں پر تین چیزیں چیک کی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی کا ٹوکن ٹیکس واجب الادا تو نہیں ہے۔ دوسرا‘ بغیر رجسٹریشن یا اپلائیڈ فار گاڑیاں بھی چیک کی جا رہی ہیں اور تیسرا یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کہیں گاڑی نان کسٹم تو نہیں یعنی مغربی سرحدی علاقوں میں چند لاکھ روپے میں جو بڑی بڑی لگژری سمگل گاڑیاں مل جاتی ہیں‘ انہیں بھی چیک کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ان ناکوں پر صرف چھ سو یا آٹھ سو سی سی گاڑیاں ہی نہیں بلکہ پندرہ پندرہ کروڑ والی امپورٹڈ گاڑیوں کو بھی روکا جاتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں کے مالکان سے جو جواب سننے کو ملتے ہیں ان کو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ کس کو بیوقوف بنانا چاہ رہے ہیں۔
ایک وڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک گاڑی کو روکا گیا جس کی مالیت ساڑھے دس کروڑ تھی لیکن گزشتہ ایک سال سے یہ بغیر نمبر پلیٹ کے‘ اپلائیڈ فار پلیٹ کے ساتھ چل رہی تھی۔ پوچھا گیا تو موصوف نے کہا: وقت نہیں ملا۔ پوچھا گیا کہ وقت کیوں نہیں ملا؟ تو بولے: ان کا بیرونِ ملک بھی کاروبار ہے‘ اس لیے باہر آنا‘ جانا لگا رہتا ہے اس لیے وقت نہیں ملا۔ پوچھا گیا کہ کیا بیرونِ ملک آپ بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑی سڑک پر لا سکتے ہیں تو جواب میں آنکھیں نیچے کر کے کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے لوگوں کو پولیس کی وین میں بٹھا کر سیدھا تھانے پہنچا دیا جائے کیونکہ یہ لوگ صرف پاکستان میں ہی قانون کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کرتے ہیں۔ اگر یہ دبئی، یورپ یا امریکہ میں ایسا کریں گے تو ان کے ساتھ وہاں بھی یہی سلوک ہو گا کیونکہ وہاں یہ بہت سنگین جرم ہے، بلکہ وہاں تو گاڑی نمبر پلیٹ کے بغیر سڑک پر اتر ہی نہیں سکتی اور اگر کسی کو شوق ہے تو وہ ایسی کوشش کر کے دیکھ لے اور پھر بتائے کہ اس کا انجام کیا ہوا۔ وہاں تو ایسے معاملات میں اتنے بھاری جرمانے ہوتے ہیں کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے۔ سڑک پر کچرا پھینکنا یا تھوکنا‘ وہاں اس کا بھی کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ زیبرا کراسنگ کے علاوہ کوئی سڑک پار نہیں کر سکتا۔ پھر بھی اگر کوئی غلطی سے سڑک پر آ جائے تو گاڑیاں انسانوں کا خیال کرتی ہیں اور فوری رُک جاتی ہیں، ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے لیکن اگر ہوتا ہے تو غلطی سے سڑک پار کرنے والے کا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا ہے‘ یہاں کی طرح نہیں کہ جیسے لوگ اپنے گھروں میں بیڈ روم سے ٹہلتے ٹہلتے ٹی وی لائونج میں آ جاتے ہیں ویسی ہی بے اعتنائی کا مظاہرہ وہ مین روڈ پر بھی کرتے ہیں اور جب چاہے‘ جہاں سے جی چاہے‘ سڑک پار کرنے لگتے ہیں۔ پھر اگر کوئی گاڑی تیز رفتاری یا اچانک بریک نہ لگنے کی وجہ سے ان سے ٹکرا جائے تو یہ اس کے ٹکڑے کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ایک اور وڈیو میں دیکھا کہ ایک گاڑی والے کو روکا گیا تو موصوف کی گاڑی کا ٹوکن دس سال سے ادا نہیں ہوا تھا۔ اب وہ بہانہ سوچنے لگے کہ کیا بتائوں کیونکہ 'وقت نہیں ملا‘ کا بہانہ یہاں چل نہیں سکتا تھا، انہوں نے فوری کہا کہ وہ بیرونِ ملک مقیم تھے اور چند روز قبل ہی وطن واپس آئے ہیں۔ یعنی جھوٹ بھی ایسے کہ ان کے سامنے خود جھوٹ بھی شرما جائے۔ ایک اور شخص سے جب ٹوکن کا پوچھا‘ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا اور کروڑوں کی گاڑی میں بیٹھا تھا‘ اس کا جواب بہت دلچسپ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے پتا ہی نہیں کہ گاڑی کا ٹوکن ادا کیسے کرتے ہیں۔ یعنی اس کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو اپنے شعبے کا سب پتا ہے، مریضوں سے فیس کیسے لینی ہے، کروڑوں کی گاڑی کیسے خریدنی ہے، آٹھ کروڑ والی گاڑی کے فیچرز کیا کیا ہیں، یہ گاڑی چلانی بھی آتی تھی‘ اس کے ششکے بھی پورے تھے لیکن جب گاڑی کا ٹوکن ادا کرنے کی بات آئی تو وہاں ڈاکٹر صاحب کی ڈاکٹری بھی جواب دے گئی۔ ایسے لوگوں کے موبائل فون اگر چیک کیے جائیں تو ان میں درجنوں موبائل ایپس ایسی ہوں گی جو عام بندہ چلانا بھی نہیں جانتا ہو گا لیکن سرکار کی ای پے ایپ سے ٹوکن ٹیکس ادا کرنا انہیں اس لیے نہیں آتا کہ یہ مشکل کام ہے کیونکہ اس میں پیسے آتے نہیں بلکہ جاتے ہیں اور جس کام میں پیسے جاتے ہوں‘ اس کام کے لیے عوام کے پاس نہ وقت ہے نہ سوچنے کی صلاحیت۔ آپ دیکھیں گے کہ سب سے زیادہ حکومت سے گلہ کرنے والے یہی لوگ نکلیں گے کہ حکومت ہمیں کیا دیتی ہے‘ سیاستدان قانون پر عمل نہیں کرتے‘ ادارے یہ کرتے ہیں‘ یہاں کا نظام ایسا ہے مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ خود کیا کرتے ہیں۔جہاں جہاں موقع ملتا ہے‘ ہر فرد چھری تیار کر کے بیٹھا ہوتا ہے، جو جہاں جہاں ڈنڈی مار سکتا ہے‘ وہاں پر وہ ذرا بھی نہیں جھجکتا۔
حکومت عوام کی سہولت کے لیے سگنل فری سڑکیں بناتی ہے‘ یہ اس کی بھی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ کوئی وارڈن موجود نہیں ہے تو عام سڑک کو بھی 'سگنل فری‘ بنا دیتے ہیں۔ آپ لاہور میں جیل روڈ‘ فیروز پور روڈ پر چلے جائیں آپ کو موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں والے بھی ون وے کی خلاف ورزی کر کے الٹ سمت میں سفر کرتے دکھائی دیں گے۔ یہ نہ تو مخالف سمت سے آنے والی ٹریفک کی پروا کریں گے نہ ہی قانون کا کچھ احترام کریں گے۔ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ جب تک ہماری قوم میں یہ والی حرکتیں اور اس قسم کی علتیں پائی جائیں گی‘ جب تک یہ سڑکوں پر سیدھے منہ نہیں چلتی‘ یہ معاشرہ ایسے ہی رہے گا، اس سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ یہاں کچھ تبدیلی آئے گی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تبدیلی اوپر کے بجائے نیچے سے آتی ہے کیونکہ نیچے والا عام طبقہ تعداد میں کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اگر یہ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارے‘ جیسے یہی لوگ مغربی یا خلیجی ملکوں میں جا کر گزارتے ہیں تبھی ہمیں زمین پر کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دے گا۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں موٹر وے پر بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جو چلتی گاڑی سے چپس کے خالی ریپر اور پلاسٹک کی بوتلیں سڑک پر پھینکتے نظر آئیں گے اور ایسے بھی جو فور بائی فور گاڑیوں میں شمالی علاقوں میں سیر کو جاتے ہیں تو اسے خوبصورتی میں سوئٹزر لینڈ قرار دیتے ہیں لیکن وہاں اتنا گند ڈال کے آتے ہیں کہ وہ علاقہ ڈُبن پورہ سے زیادہ بدنما بن جاتا ہے۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اور تبدیلی صرف اوپر کے چند درجن حکمرانوں اور سیاستدانوں کے تبدیل ہونے سے آئے گی‘ تو میں اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔ یقینا انہیں بھی تبدیل ہونا پڑے گا لیکن انہیں تبدیل کرنے کے لیے عوام کو پہل کرنا پڑے گی۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ عوام سمجھتے ہیں کہ اوپر سب نااہل اور چور ہیں‘ پہلے وہ ٹھیک ہوں‘ پہلے وہ ٹیکس دیں‘ پھر عوام بھی بدل جائیں گے۔ اس طرح وہ محض اپنی کرپشن کا جواز تلاش کرتے ہیں جبکہ اوپر والوں نے ویسے ہی عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ پٹرول اور مہنگی بجلی کے چکر میں ڈالا ہوا ہے اور عوام اس چیز کا بدلہ ہر اس جگہ قانون توڑ کر لیتے ہیں جہاں وہ لے سکتے ہیں۔ کم وہ بھی نہیں کرتے۔ کہیں احتجاج ہو رہا ہو تو راہ چلتے افراد بھی اس سے محروم نہیں رہنا چاہتے۔ اس کی مثال ہم نو مئی کو بھی دیکھ چکے ہیں۔ کئی لوگ شوقیہ جرم کا مزہ لیتے بھی پکڑے گئے۔ مختصر یہ کہ جہاں جہاں ہم خود کو بدل سکتے ہیں‘ وہاں بھی اگر ہم جھوٹ اور بہانوں کا سہارا لیں گے تو پھر ہمیں کسی اور سے یا اس سسٹم سے بہتری کی کسی قسم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔