ہم اخلاقی اور دینی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں‘ اس کا اندازہ ایک سول جج کی بیوی کے ہاتھوں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی بچی سے لگایا جا سکتا ہے جو گزشتہ ایک ہفتے سے جنرل ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمش میں مبتلا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق پر لیکچر دینے والے اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے خود ہی انسانی حقوق اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور انہی غریبوں کے ٹیکسوں سے تا دمِ مرگ تنخواہیں‘ پنشنز اور مراعات وصول کرتے رہتے ہیں۔ میں کئی ایسی فیملیز کو جانتا ہوں جو بیرونِ ملک مستقل شفٹ ہونے کے لیے گئیں لیکن چند ہی ماہ بعد واپس آ گئیں کیونکہ وہاں پر وہ سب کچھ افورڈ کر رہی تھیں سوائے گھریلو ملازمین کے۔ امریکہ‘یورپ اور دیگر جدید ممالک میں گھروں میں کام کرنے والی ملازمائوں کو ہر طرح کے حقوق تو بہترین حاصل ہیں ہی ‘ ساتھ ہی ان کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس گھر میں وہ کام کرنے جاتی ہیں‘ اس گھر کے مالک سے بہتر گاڑی ان کے اپنے پاس ہوتی ہے اور اسی گاڑی پر وہ روزانہ صفائی کرنے جاتی ہیں۔ وہاں بیس‘ تیس ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے وہ یومیہ ڈیڑھ دو سو ڈالر کما لیتی ہیں جو پاکستانی پچاس ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں چوبیس گھنٹے کام کرنے والی ملازمائوں کو بھی پندرہ‘ بیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملتے۔اس کے علاوہ ان کا ہر طرح سے استحصال کیاجاتا ہے۔ نہ انہیں چھٹیاں ملتی ہیں‘ نہ ان کے علاج معالجے پر کوئی توجہ دی جاتی ہے۔ جب چاہے‘ جس کا جی چاہے‘ وہ اٹھ کر ان پر حکم چلاتا ہے اور زرخرید غلاموں کی طرح کا سلوک کرتا ہے۔ہم ایسے کم نصیب اور کم عقل لوگ ہیں کہ نہ مغرب سے سیکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے کو تیار ہیں۔ ویسے جو سلوک ہمارے ہاں عمومی طور پر روا رکھا جاتا ہے‘ ہمارا مذہب تو دور‘ وہ تو انسانیت کے کسی باب میں بھی روا نہیں۔ اس طرح کا سلوک تو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مغرب میں انسانوں کے حقوق تو ہیں ہی‘ جانوروں کوجو حقوق میسر ہیں‘ شاید وہ بھی ہمارے یہاں کے انسانوں بالخصوص گھریلو ملازمین سے ہزار درجے بہتر ہیں۔ انہیں زیادہ توجہ اور سہولتیں حاصل ہیں۔ہمارے یہاں تو سڑک پر کوئی گدھا‘ گھوڑا‘ کتا یا بلی زخمی پڑے ہوں تو لوگ ان کے علاج کا سوچنا تو درکنار‘ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وقت کے ساتھ حالات اتنے بدل گئے ہیں اور لوگوں کے خون تک سفید ہو گئے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی گاڑی والا اگر کسی بائیک والے یا سائیکل والے کو ٹکر مار دے اور غلطی گاڑی والے کی ہی ہو تو وہ رُکنے کے بجائے گاڑی بھگانے کی کوشش کرتا ہے۔ملک میں بھی کچھ برسوں سے فور ویلر ڈالا نما گاڑیوں کا عجیب کلچر چل پڑا ہے۔ یہ گاڑیاں دو سال قبل پچاس‘ ساٹھ لاکھ روپے میں مل جاتی تھیں اور زیادہ تر پروٹوکول گاڑیوں کے طور پر استعمال ہوتی تھیں لیکن اب یہ سٹیٹس سمبل بنتی جارہی ہیں اور جسے آف روڈنگ نہیں کرنی یا پہاڑوں پر نہیں بھی جانا وہ بھی ''ششکے‘‘ کو پورا کرنے اور لوگوں میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اونچی اونچی ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے کو لپک رہا ہے۔ حالانکہ یہ گاڑیاں شمالی علاقہ جات اور کچے راستوں کے لیے بنی ہوتی ہیں لیکن یہاں انہیں دکھاوے کے لیے خریدا جاتا ہے۔یہ کلچر اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ جیسے کوئی مقابلہ چل رہا ہو اور ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہو۔
بڑی بڑی گاڑیوں والا امرا کا طبقہ اپنے گھریلوملازمین کو انہی ڈالوں میں جانوروں کی طرح پیچھے بٹھا کر ریسٹورنٹس میں لے کر جاتا ہے جہاں کم سن ملازمائیں ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں مگر اس مقصد کے لیے انہیں الگ کرسیوں پر‘ دُور بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کے سامنے مزے مزے کے کھانے اڑائے جاتے ہیں اور ان کی حسرتوں کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے۔گھر میں ان سے کام کے دوران کوئی گلاس ٹوٹ جائے یا کوئی اور غلطی ہو جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو معصوم رضوانہ کے ساتھ ہوا۔ ایسے مستقل گھریلو ملازمین کو کئی کئی پہر بھوکا رکھا جاتا ہے‘ چھڑیوں اور جوتوں سے ان پر تشدد کیا جاتا ہے‘ بعض کیسز میں تو استریوں کے ساتھ ان کے جسم داغے گئے‘ ان کے بال کاٹے جاتے ہیں اور انہیں بند کمروں میں کئی کئی روز تک محبوس رکھا جاتا ہے۔ فیملی کوارٹر کے نام پر انہیں جو جگہ دی جاتی ہے‘ اس احسان کا پورا پورا بدلہ وصول کیا جاتا ہے اور جتلایا جاتا ہے کہ ہم نے تمہیں جگہ دی ہے‘ لہٰذا اب تم ہر ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائو۔
یہ لوگ جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں جا کر انہیں آٹے اور دال کا بھائو معلوم ہو جاتا ہے۔ یہاں پر نوکروں‘ چاکروں کی فوج رکھنے والوں کی وہاں شکلیں دیکھنے والی ہوتی ہیں جب سردیوں کی صبح پانچ بجے اٹھ کر انہیں اپنے گھر کی دہلیز اور گاڑیوں پر سے برف صاف کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں جسم کو چیرنے والی ہوائیں اپنے ملک کی یاد دلاتی ہیں کہ جہاں ایسا کرنے کا کبھی انہوں نے خواب میں بھی سوچانہیں ہوتا۔صرف صفائی ہی نہیں بلکہ کھانا پکانا اور مرمت کے کام بھی زیادہ تر خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ واش روم کے کموڈ کا لیور خراب ہو جائے‘ پنکھے کا بٹن تبدیل کرنا ہو‘کوئی ٹائل اکھڑ جائے‘ تالا خراب ہو جائے تو یہ سارے کام خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ شروع شروع میں ایسے لوگ کسی کوان کاموں کے لیے جب بلاتے ہیں تو جب چند گھنٹوں کے کام کے بعد اسے تین‘ چار سو ڈالر مزدوری دیتے ہیں اور پھر پاکستانی روپوں میں اس کا حساب لگاتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جو کام یہ لیبر سے چار‘ پانچ سو روپے میں کرا لیتے ہیں وہاں اس کے چالیس‘ پچاس ہزار روپے دینا پڑتے ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے۔ باہر جا کر احساس ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں کتنی موجیں لگی ہوئی تھیں۔ اپنے ملک میں عیاشی کرتے ہوئے انسانوں کو جانوروں کی طرح رگیدا جائے، انہیں بنیادی حقوق تک سے محروم رکھا جائے، اپنے بچوں کو کانٹا بھی چبھ جائے تو چیخیں نکل جائیں لیکن غریبوں کے بچوں کی کھال ادھیڑنے کے بعد ذرا سی شرم بھی محسوس نہ ہو تو ایسے لوگوں کے ساتھ یا تو قانون آہنی ہاتھوں نمٹے یا انہیں ایک چکر کسی یورپی ملک کا لگا لینا چاہیے جہاں انہیں اور اہلِ خانہ کو گھر کے فرشوں پر ٹاکیاں مارنے کے بعد احساس ہو کہ وہ اپنے ملک میں کس طرح محروم طبقے کا استحصال کرتے رہے ہیں۔
ملازمین پر جبر کے حوالے سے جب بھی ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو بڑے بڑے ایکشن لینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں‘ قانون سازی بھی ہو جاتی ہے لیکن عمل پھر بھی نہیں ہوتا۔ چائلڈ لیبر پر پاکستان میں پابندی ہے لیکن کون سے شہر میں یہ سب نہیں ہو رہا؟ کیا ہم روزانہ بازاروں دکانوں اور کارخانوں میں سات سے پندرہ برس کے بچوں کو کام کرتا ہوا نہیں دیکھتے۔ انہیں ''چھوٹا‘‘بنا کر رکھا جاتا ہے ‘ بات بات پر پھینٹی لگائی جاتی ہے ‘معمولی معاوضے پر بارہ‘ بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے اور اکثر درندے تو ان بچوں کا جنسی استحصال کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اقبال ؒ نے شاید انہی کے حوالے سے کہا تھا کہ ''یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود‘‘۔ وہ ایک نبض شناس شاعر تھے۔ جہاں وہ مسلم امت کے عروج پر روشنی ڈالتے رہے‘ وہاں انہیں مسلمانوں کی پستی کا بھی خوب ادراک و احساس تھا ۔مسلمان اقوام کے لیے کتنے افسوس کا مقام ہے کہ صفائی‘قانون پر عمل داری‘ اخلاقیات اور شائستگی کی مثالیں اقوام مغرب کی طرف سے آتی ہیں اور جب بچوں اور بچیوں کو تعلیم سے روکنے‘ ان پر تیزاب پھینکنے‘ گھروں اور بازاروں میں جبری مشقت اور تشدد کی بات آئے تو وہاں پاکستان، افغانستان، یمن، صومالیہ اور سوڈان جیسے مسلم ممالک کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو دنیا بھر میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ آخر کس منہ سے ہم روزِ محشر خدا کے سامنے پیش ہوں گے اور کس برتے پر خود کو جنت کا حقدار سمجھتے ہیں، کیا ان اعمال کے بنیاد پر‘ جنہیں دیکھ کر اور سوچ کر ہی گھن آتی ہے؟