"ACH" (space) message & send to 7575

سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا!

پاکستان اور جدید ممالک کے درمیان فرق صرف وہاں کی ترقی اور چکاچوند کا نہیں‘ بنیادی فرق عوام کا ہے‘ عوامی رویوں اور ان کے لین دین اور برتائو کا ہے۔ پاکستان میں عوام کے پاس کام نہ کرنے اور دوسروں کو الزام دینے کے سو بہانے ہیں۔ کوئی اپنی گلی اپنے دروازے کی دہلیز تک صاف رکھنے کو تیار نہیں اور ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈالنے کو تیار بیٹھا ہے۔یہاں ہر کوئی کھلے عام سڑک پر کچرا پھینکتا ہے اورذرا سی عار محسوس نہیں کرتا۔ کہیں کوئی قطار لگی ہو تو کچھ لوگ اسے توڑنے اور بائی پاس کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ کچھ دن پہلے پارکنگ کیلئے جگہ کے انتظار میں تھا‘ پانچ دس منٹ بعد ایک گاڑی نکلنے لگی تو جیسے ہی وہ پیچھے آئی جھٹ سے مخالف سمت سے ایک شخص گاڑی لے کر آیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی گھسا دی اور یہ جا وہ جا۔باہر ایسے نہیں ہوتا۔ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال کرتا ہے۔ پہلے آپ گزر جائیں‘ آپ پہلے آئے ہیں آپ کا حق بنتا ہے آپ گاڑی لگا لیں‘ سب ایک دوسرے کو جگہ اور عزت دیتے ہیں۔یہاں کے عوام کے پاس صرف گلے شکوے ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ملکی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے موضوع پر طویل بحثوں کا وقت بھی ہے لیکن اپنے گھر کے باہر ایک درخت لگانے کا ٹائم نہیں۔ نہ ملک کا سوچتے ہیں نہ دوسرے عوام کا‘ بس سب کو اپنی پڑی ہے۔
نوے فیصد عوام جن کے ڈرائیونگ لائسنس بنے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کو ٹریفک سائنز کا پتہ نہیں اور جن کو علم ہے وہ ان پر عمل نہیں کرتے۔ لین اور لائن کا فرق کسی کو معلوم نہیں یاپروا نہیں۔ تین لین والی سڑک پر موٹر سائیکل نے سب سے بائیں طرف چلنا ہوتا ہے لیکن وہ سب سے دائیں لین میں آ کر گاڑی کو دائیں طرف سے کراس کریں گے۔ پھر زِگ زیگ بناتے ہوئے یوں نکلیں گے جیسے کرتب دکھانے کا مقابلہ ہو۔ موٹرسائیکل کو بس ٹائر کی چوڑائی جتنا راستہ چاہیے وہ پھر نہیں دیکھتا کہ آگے ہو گا۔ شاید یہ واحد ملک ہو گا جہاں ہیلمٹ صرف اس لئے پہنا جاتا ہے تاکہ چالان نہ ہو‘ یعنی یہاں اگر چالان ختم کر دئیے جائیں تو کوئی ہیلمٹ پہننے کی زحمت نہیں کرے گا۔ابھی لائسنس پر چالان شروع کئے گئے ہیں تو لوگ لائسنس بنوانا شروع ہو گئے ہیں وگرنہ کسی کو کیا پڑی کہ وہ یہ بیکار کام کرے۔یہ ''شاندار‘‘قوم صرف تنقید کرنا جانتی ہے‘ دوسروں پر انگلیاں کیسے اٹھانی ہیں‘اپنی ذمہ داری دوسروں پر کیسے ڈالنی ہے ان کاموں کی مہارت حاصل کرنی ہو تو پاکستانی قوم سے بہتر کوئی نہیں ملے گا جو بغیر کچھ کئے دنیا کی ترقی یافتہ قوم بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔یہ نہیں کہ لوگوں کو شعور نہیں ہے‘ لوگوں کے اندر حکمران اور اشرافیہ طبقے کے خلاف ایک نفرت کا الائو پکتا رہتا ہے جو انہیں سیدھے راستے پر آنے سے روکتا ہے۔فلاں بندہ ترقی کیسے کر گیا‘ وہ آگے کیوں نکل گیا کیسے اس کی ٹانگیں کھینچنی ہیں‘ اس میں ہر دوسرا شخص پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہے۔
ہر شخص کے پاس اگر وسائل نہیں ہیں تو ایک چیز سب کے پاس یکساں ضرور ہے اور وہ ہے وقت۔ ہر کسی کا دن چوبیس گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں کو اب کوئی کیسے استعمال کرتا ہے‘ یہ اس پر منحصر ہے۔ وہ چاہے تو بارہ گھنٹے سو تا رہے‘ چاہے تو چھ آٹھ گھنٹے میں نیند پوری کر لے۔اگر نیند کا دورانیہ آٹھ گھنٹے لگا لیں تو باقی سولہ گھنٹے بچتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ چین‘ جاپان‘ امریکہ کے لوگوں کا دن بھی تو اتنا ہی ہوتا ہے۔آخر وہ اپنا دن کیسے گزارتے ہیں؟پھر جب ہم اپنا موازنہ ان کے ساتھ کریں گے تب جا کر ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں بھی جو لوگ محنت کرتے ہیں‘ درست سمت میں سفر جاری رکھتے ہیں وہ بھی وقت کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ہمارے اور جدید ممالک میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے جو ہماری اکثریت نہیں سمجھ سکی کہ ہم لوگ کہیں سفر کرتے وقت ابھی بھی دیکھتے ہیں کہ فلاں جگہ تک کا فاصلہ اتنے کلومیٹر ہے جبکہ پوری دنیا میں سفر کو وقت سے ماپا جاتا ہے۔فرض کریں آپ نے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں جانا ہے تو آپ کے پاس دو آپشنز ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کم فاصلہ ہونے کی بنیاد بنا کر شہر کے اندر سے گزر کر جائیں کہ بظاہر اس میں کم پٹرول لگے گا یا کم کلومیٹر نظر آ رہے ہیں جبکہ دوسرا راستہ بائی پاس یا رنگ روڈ کا ہو گا جس میں فاصلہ زیادہ ہو گا لیکن اس میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہو گی اور آپ کم وقت میں پہنچ جائیں گے۔اس ملک کی اکثریت یہی فیصلہ کرے گی کہ شہر کے اندر سے جائیں گے تاکہ پٹرول بچے حالانکہ اس میں پٹرول بھی زیادہ لگے گا اور وقت بھی۔اس سوچ کی وجہ سے ہم ابھی تک ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پھنسے ہیں۔پھر دوسرا اس قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو اپ گریڈ کرنے کو تیار نہیں۔ جس نے جو ڈگری لے لی ہے وہ اسی کو لے کر بیٹھا ہے۔ بیرون ملک آپ کو لوگ چھوٹے چھوٹے کورسز اور سرٹیفیکیشنز کرتے دکھائی دیں گے جو وہ نوکری کے ساتھ کرتے رہتے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل رہا ہے اور وقت کے ساتھ چلنے کیلئے ایسی سرٹیفکیشنز کرنا بہت ضروری ہے‘ تاہم ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں۔پہلے لوگ پچاس ساٹھ برس کی عمر کے بعد کمفرٹ زون میں جاتے تھے لیکن اب تو تیس پینتیس برس کے نوجوان بھی نئی چیزیں سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور ساتھ میں گلہ بھی کرتے ہیں کہ ان کا ادارہ ان کی قدر نہیں کرتا۔بہت سی ایسی سکلز ہیں جو دوران ِجاب بھی سیکھی جا سکتی ہیں اور ان میں زیادہ وقت اور پیسہ بھی نہیں لگتا‘ لیکن ہمارے ہاں ایسا کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔جو کر لے اسے لوگ مافوق الفطرت شمار کرنے لگتے ہیں۔مہنگائی اور بیروزگاری ہر دور میں رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی اور اس میں وہی شخص سروائیو کرے گا جو ہاتھ پائوں مارے گا‘ بالکل اسی طرح جیسے سمندر یا نہر میں ڈوبنے سے بچنے کیلئے ہاتھ پائوں مارے جاتے ہیں۔ہمارے عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اوپر سے احتسا ب ہو‘ اوپر والے صحیح ہوں تو ہم بھی سدھر جائیں گے۔ اب ظاہر ہے کہ نہ اُوپر والے سدھریں گے تو عوام کے پاس تو خود کو تبدیل نہ کرنے کا معقول بہانہ اور جواز موجود رہے گا اور یوں یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو معاشی‘اخلاقی اور سیاسی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرانے میں لگا ہے۔ سیاستدان مقتدرہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ کسی کو عدلیہ کے کردار پر تحفظات ہیں۔ سب ایک دوسرے کو مطعون کرنے میں لگے ہیں۔ خود کا احتساب کرنے کو کوئی تیار ہے نہ کسی میں ہمت ہے حالانکہ تبدیلی اگر آئے گی تو اسی طرح آئے گی۔ عوام‘سیاستدان اور ادارے جب تک اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے‘ اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی نہیں کریں گے‘ایک دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں چھوڑیں گے‘ملک کی بہتری کا نہیں سوچیں گے اور ذاتی مفادات سے باہر نہیں نکلیں گے تب تک ملک میں جتنے مرضی الیکشن کرا لیں‘ جو مرضی کر لیں‘ یہاں تبدیلی نہیں آئے گی۔ تب تک سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے چل رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں