دو خبریں ہیں؛ حیران کن اور ناقابلِ یقین۔ ایک امریکہ سے ہے‘ جو ہمارے نزدیک مسلم اُمہ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ہماری دانست میں جس نے ٹی وی‘ کیبل‘ انٹرنیٹ او رموبائل فون جیسی چیزیں ایجاد کر کے ہمارے ملکوں میں اس لیے بھیجیں تاکہ مسلمانوں کی اخلاقیات کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ جس نے لائوڈ سپیکر بنایا اور جب یہ ہمارے ملکوں کی سرحد پار کر کے یہاں آیا تو اسے خرافات کہا گیا اور اس کے آنے پر شدید احتجاج کیا گیا۔ جی ہاں وہی امریکہ‘ جس کے خلاف ہمارے کئی حکمران نعرے بھی لگاتے ہیں لیکن پھر اسی کو مدد کے لیے بھی پکارتے ہیں‘ اس کے سفیروں سے چھپ چھپ کر ملتے ہیں‘ انہیں اپنے زخم دکھاتے ہیں۔ وہی امریکہ جسے ہم ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں لیکن اس کی امیگریشن کے لیے گھنٹوں لائنوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں۔ اسی امریکہ سے یہ حیران کن خبر آئی ہے کہ جمعہ یکم ستمبر کی دوپہر نیویارک میں پہلی مرتبہ مساجد سے اذان کی گونج سنائی دی۔ گزشتہ ہفتے میئر نیویارک ایرک ایڈمز نے جمعہ کی اذان لائوڈ سپیکر پر دینے کی اجازت دی تھی۔نئے قانون کے مطابق مساجد کو جمعہ کے علاوہ ماہِ رمضان میں مغرب کی اذان لائوڈ سپیکر پر دینے کی اجازت بھی مل گئی ہے اور اس کے لیے کسی اضافی پرمٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔نیویارک میں لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ مسلمان آباد ہیں جبکہ شہر میں پونے تین سو سے زئد مساجد اور اسلامک سنٹرز قائم ہیں۔عیسائی امریکی آبادی کا 73فیصد جبکہ مسلمان امریکہ کی کل آبادی کا محض ایک فیصد ہیں۔ اس طرح کا فیصلہ یقینا باعثِ تعجب ہے کیونکہ مسلمانوں‘ خاص طور پر پاکستانیوں کے حوالے سے جو امریکہ میں سوچ پائی جاتی ہے اور نائن الیون کے بعد جس طرح مغرب اور اسلام میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں‘ جس طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چُن چُن کر مسلم ممالک کے حوالے سے بیان بازی کرتے رہے ہیں‘ اس کے بعد مزید پابندیوں کی توقع توکی جا سکتی ہے لیکن ریلیف سمجھ میں نہیں آتا۔
اب دوسری خبر:یہ ہمارے دوست ملک سے آئی ہے جس کے ساتھ دوستی کو ہم شہد سے میٹھی‘ سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند قرار دیتے ہیں لیکن موقع ملے تو پیچھے ہٹنے اور اپنے ایک پائو گوشت کے لیے اگلے کی گائے ذبح کرنے میں لمحے کی دیر نہیں لگاتے۔ ایک بدقسمت چینی سرمایہ کار پاکستانیوں کے ساتھ کاروباری میل جول بڑھا بیٹھا۔ اسے کیا علم تھا کہ یہاں پر بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے اوریہاں لوگ میت تک کو لوٹنے کے درپے رہتے ہیں۔یہ چینی سرمایہ کار پاکستانی شراکت داروں کی جانب سے کیے گئے ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے مبینہ فراڈ کے بعد اب انصاف کے حصول کے لیے در‘در کے دھکے کھا رہا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ یہاں تو انصاف عرصہ ہوا‘ مفقود ہو چکا ہے۔ اس سرمایہ کارکے ساتھ بھی وہی ہوا‘ جو ہر دوسرے شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔ مبینہ طور پر پاکستانی شراکت داروں نے اس کی کمپنی کے نام سے ایک دوسری کمپنی بنا لی اور آمدن دوسری کمپنی کے اکائونٹ میں ڈالتے رہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ہمارے ہاں انصاف کا یہ عالم ہے کہ مدعی کو کیس کی پیروی کے لیے شنگھائی سے آنا پڑتا ہے۔
یہ 2020ء کی بات ہے جب اس چینی شہری ژی چینگ لی نے ایف آئی اے کے پاس اپنے پاکستانی شراکت داروں کے خلاف 13 ملین ڈالر کے فراڈ کی شکایت درج کرائی تھی۔ ایف آئی اے نے اس کیس میں انکوائری شروع کی لیکن پھر بغیر کسی پیشرفت کے انکوائری روک دی۔ تفتیشی ایجنسی نے بعد میں اس کیس کو اٹھایا لیکن پھر یہ کیس ایک سے دوسرے محکمے میں بھیجاجاتارہا۔ ژی چینگ لی کا تعلق شنگھائی سے ہے‘ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے پیسے کو بھول جائے اور دوبارہ سرمایہ کاری کا سوچے بھی ناں۔ یہ ذلت‘ یہ رسوائی یونہی نہیں کمائی گئی۔ یہ برسوں‘ عشروں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی ایک بشر کا کام نہیں بلکہ پوری قوم اور نسلوں کی اجتماعی محنت اس کے پیچھے کارفرما ہے۔یہ سلسلہ ملک کے قیام سے جاری ہے اور آج اس کی رفتار کئی گنا ہو چکی ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ یہ ملک ان کو چھوڑ چکا ہے۔ یہ تو سنا تھا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن یہ ان ملکوں کے بارے میں کہا جاتا ہے جو واقعی اپنے شہریوں کو اپنی اولاد سمجھتے ہیں۔ صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی انہیں کوئی مشکل درپیش آ جائے‘ وہ کسی قدرتی آفت حتیٰ کہ کسی جرم میں بھی پکڑے جائیں تب بھی ان کی ریاستیں ان کی مدد کو ضرور پہنچتی ہیں۔ایسے ہی کورونا کی عالمی وبا میں بھی دیکھنے کو ملا کہ جب بہت سے لوگ سفر کے دوران کسی دوسرے ملک میں پھنس گئے تھے، اس وقت بھی یورپی و فلاحی ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس لانے یا انہیں صحت کی سہولتیں دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ حتیٰ کہ ایسے پاکستانی جو برطانوی شہریت رکھتے ہیں اور اس وقت پاکستان آئے ہوئے تھے‘ انہیں بخیریت واپس برطانیہ لانے کے لیے برطانوی حکومت نے خصوصی فلائٹس کا بندوبست کیا تھا۔یہ ہوتی ہے ماں اور یہ ہوتی ہے فلاحی ریاست۔
نیویارک میں جمعہ کی اذان گونجنے کی خبر ہمارے لیے بہت بڑی خبر بن گئی ہے۔ ہماری ریاست میں اذانیں تو صبح شام‘ ہر گلی‘ ہر کوچے میں گونجتی ہیں لیکن مسجد کے سپیکر سے آنے والی ان صدائوں کا مطلب اور مفہوم ہم کبھی نہیں سمجھ سکے۔اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا ہمیں مسجد کی طرف بلا رہا ہے کہ ہم جائیں اور عبادت کر کے واپس آئیں تو اُسی طرح اپنا کام دھندا چلانے لگ جائیں جس طرح پہلے کر رہے تھے کہ جس کا نہ ہمارے دین کی تعلیمات سے کوئی تعلق ہے نہ دنیا کے قوانین و اقدار سے۔دراصل اذان کی صورت میں خدا ہمیں اپنے دین کی ان حقیقی تعلیمات کی طرف بلاتا ہے جنہیں ہم بھلائے بیٹھے ہیں۔ اذان سن کر ہم مسجد تو چلے جاتے ہیں لیکن ہم میں سے کس کس کو معلوم ہے کہ ہم نماز میں کیا پڑھتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے‘ عملی زندگی میں اس کا نفاذ کتنا ہے؟ ہم قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں‘ مگر کیا قرآن میں ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والی قومِ شعیب کا ذکر نہیں جس پر ان کاموں کی وجہ سے عذاب آیا تھا جن کاموں کو ہم اپنی روٹین اور مارکیٹ کی روایت سمجھ کر بلاناغہ کرتے ہیں۔
جو چینی سرمایہ کار شہد سے میٹھی دوستی ڈھونڈتے ہوئے یہاں آیا تھا‘ کیا اسے یوں لوٹنا چاہیے تھا؟ بالفرض اگر اسے لوٹ لیا گیا تھا تو کیا ہماری ریاست کو اسے تحفظ فراہم نہیں کرنا چاہیے تھا؟اس کیس کو ترجیحی بنیاد پر نہیں نمٹانا چاہیے تھا؟ ہم نے تو اُس ملک کے باشندے کو بھی تماشا بنادیا جس کے سی پیک منصوبے کی وجہ سے ہم اپنی معیشت کو کہاں سے کہاں پہنچانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ نجانے کیوں ہم یہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں کہ ہم اچھے دوست توکیا اچھے انسان بھی نہیں ہیں۔ دنیا میں ہمارا پاسپورٹ اس وقت نچلی سطح سے چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔ یہ اس ملک کا حال ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ دنیا بھر کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ قدرتی وسائل بھی قدرت ہی نے ہمیں دیے ہیں‘ ان میں ہمارا ذاتی کمال کیا ہے؟ کمال تو تب ہوتا جب ہم ان وسائل کو ٹھیک طریقے سے بروئے کار لاتے اور مخلوقِ خدا کو کچھ آسانی فراہم کرتے۔ اپنے ملک کے جن علاقوں کو ہم سوئٹزر لینڈ سے زیادہ خوبصورت شمار کرتے ہیں‘ وہاں تک جانے کے لیے سڑکیں توہم بنا نہیں سکے اور جو سڑکیں بناتے ہیں انہیں ہم لعنت ملامت کرتے ہیں کہ سڑکیں بنانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں تو پھر ایسی لمبی لمبی ڈینگیں مارنے کا کیا فائدہ۔ آخر کون لوگ ہو تسی؟