نیدر لینڈز کی کل آبادی پونے دو ملین یعنی ساڑھے سترہ لاکھ ہے جبکہ یہاں سائیکلوں کی تعداد ڈھائی ملین (پچیس لاکھ) ہے، یعنی ایک فرد کے پاس اوسطاً سوا سائیکل ہے۔ یہاں پر جب سے سائیکلنگ عام کی گئی ہے‘ ہسپتالوں میں رش کم ہوا ہے اور سالانہ شرحِ اموات میں بھی کمی ہوئی ہے۔ یہاں شہریوں کی صحت اچھی ہوئی ہے اور ان کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سائیکل رکھنے کی دوسری خاص وجہ یہ تھی کہ یہاں پر پٹرول کی قیمت اور گاڑیوں پر جو ٹیکسز ہیں وہ بہت زیادہ ہیں‘ لہٰذا اپنے پیسے بچانے کے لیے نیدرلینڈز کے لوگ سائیکل کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور جو تیسری اور اہم وجہ ہے وہ یہاں پر پارکنگ کا مسئلہ ہے۔ گاڑیوں کے لیے پارکنگ فیس گھنٹوں کے حساب سے ہوتی ہے اور فیس بھی کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ سائیکل کی پارکنگ فیس کم ہونے کی وجہ سے سائیکل کا استعمال یہاں بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دنیا کے کئی ممالک کی طرح مہنگائی زوروں پر ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات‘ کسی بھی سطح پر دکھائی نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ شہری اپنے طور پر بھی سنجیدہ نظر نہیں آتے اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سارا کام حکومت نے کرنا ہے اور وہ خود اپنا لائف سٹائل تک تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ نئی گاڑیاں پچھلے دو‘ تین سال کے مقابلے میں دو سے تین گنا تک مہنگی ہو چکی ہیں جبکہ پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمت میں بھی دو گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ عوام کی ایک بڑی تعداد کی مالی حالت ایسی ہے کہ نئی گاڑی خریدنا تو کجا‘ استعمال شدہ گاڑی خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی۔ جیسے تیسے اگر گاڑی خرید بھی لی جائے تب بھی اس کا مہنگا پٹرول افورڈ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ پھر جو کوئی گاڑیاں وغیرہ افورڈ کر سکتا ہے‘ وہ بہت زیادہ عیاشی کی زندگی گزارنے پر مصر ہے یعنی گھر میں اگر دو گاڑیوں سے کام چل سکتا ہے تو وہاں چار‘ چار چھ‘ چھ گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔ اب تو بلکہ گاڑیوں کے گیراج بنانے اور ان کی تشہیر کرنے کا ایک نیا ہی سلسلہ چل نکلا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لوگ مختلف طرح کی گاڑیاں خریدتے ہیں اور جب اپنے گیراج میں مختلف قسم کی درجنوں گاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں تو ان کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔
دولت کے خمار میں مبتلا کئی لوگ قافلوں کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں جن میں ڈبل کیبن گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور اس طرح بازاروں اور سڑکوں پہ اترتے ہیں گویا کسی غیر ملکی سربراہِ مملکت کا حفاظتی مسلح سکواڈ گزر رہا ہو۔ ان کے گیراج میں جو گاڑیاں ہوتی ہیں‘ ان میں کئی گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو کئی کئی ہفتے تک کھڑی رہتی ہیں اور بہت کم باہر نکالی جاتی ہیں۔ بہت سی گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو پہاڑوں پر لے جانے کے لیے مخصوص ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں انہیں معاشرے میں سٹیٹس سمبل یا 'ٹہکا جمانے‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی گاڑیاں جو بہت زیادہ کھڈوں‘ پتھروں اور غیر ہموار سطح پر چلنے کے لیے بنائی جاتی ہیں اور جن میں کیچڑ وغیرہ میں پھنسنے کی صورت میں نکلنے کی خصوصی ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے‘ اندازہ لگائیے کہ ان گاڑیوں کو بھی ہمارے یہاں شہروں میں اشرافیہ طبقہ اپنے بچوں کو سکول سے لانے‘ چھوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کسی نے ایک ڈبل کیبن گاڑی رکھی ہوئی تھی، اس سے پوچھا گیا کہ آخر دو کروڑ کی یہ گاڑی لینے کی وجہ کیا تھی تو موصوف کا جواب یہ تھا کہ اس سے سڑکوں پر گاڑیاں خود بخود یا محض ایک ڈِپر (لائٹ) مارنے پر فوری راستہ دے دیتی ہیں۔ لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ''پاوا‘‘ آ رہا ہے اس لیے سب ایک طرف سمٹ جاتے ہیں۔
پاکستان میں کچھ عرصہ سے الیکٹرک گاڑیاں بھی آ رہی ہیں لیکن یہ اتنی مہنگی ہیں کہ انہیں صرف دو‘ تین فیصد امیر طبقہ ہی خرید سکتا ہے۔ حالانکہ برقی گاڑیوں کا ایک بڑا مقصد ہے پٹرول کی بچت کرنا کیونکہ یہ گاڑیاں گھر میں بجلی پر ہی چارج ہو جاتی ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو بندہ کروڑوں کی گاڑی خرید سکتا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اسے شہر میں چلا سکے کہ شہر سے باہر اس کے چارجنگ سٹیشنز ہی نہیں ہیں‘ تو کیا وہ اس مہنگی گاڑی کے لیے پٹرول افورڈ نہیں کر سکتا؟ ملکی زرِمبادلہ ایسی فضول چیزوں کی امپورٹ میں اڑایا جا رہا ہے۔ یہاں پر برقی گاڑیاں اگر آنی چاہئے تھیں تو تھری ویلر یا پھر برقی موٹر سائیکل وغیرہ کی شکل میں آتیں، تاکہ عوام کی بڑی تعداد‘ جو مہنگا پٹرول افورڈ نہیں کر سکتی‘ وہ اسے خرید کر چلا سکتی۔
ہمارے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا حال بھی زیادہ اچھا نہیں۔ یہ تو بھلا ہو میٹرو بس اور اورنج ٹرین وغیرہ کا کہ اگر یہ منصوبے بھی نہ ہوتے تو یہاں پر وہی پھٹیچر دھواں مارنے والی بسیں ہی چل رہی ہوتیں۔ ان منصوبوں کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ خواتین اور طلبہ کو ہوا ہے کیونکہ ان سے وہ شہر میں انتہائی کم پیسوں میں باعزت انداز میں سفر کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود مگر پاکستان میں کمی ہے تو سائیکلوں کے رجحان کی‘ جس کے بنا اب مزید چلنا مشکل ہو چکا ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پروڈکشن کاسٹ اتنی اوپر جا چکی ہے کہ چھوٹی موٹی برقی گاڑی یا موٹر سائیکل کی قیمت بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔ برقی گاڑیوں کی چارجنگ ایک الگ مسئلہ ہے اور اتنے وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر بچھانا بھی آسان نہیں۔ پھر یہاں جس طریقے سے لوڈشیڈنگ کا سلسلہ چلتا ہے اور بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں‘ برقی گاڑیوں کا منصوبہ اسی طرح ناکام ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ سی این جی کے معاملے میں ہوا تھا۔ پہلے ایک فضا بنائی گئی سی این جی کی‘ جس کے بعد عام صارفین نے دھڑا دھڑ اپنی گاڑیوں میں سلنڈر رکھوا لیے‘ گھر گھر‘ محلے محلے سی این جی سٹیشنز کھل گئے جن پر آہستہ آہستہ اتنی طویل قطاریں نظر آنے لگیں کہ لوگ اس سے بھی کترانے لگے۔ یہاں تک کہ سی این جی کی قیمتیں پٹرولیم قیمتوں کے اتنے قریب آ گئیں کہ لوگوں کو اس میں فائدہ کے بجائے نقصان نظر آنے لگا کیونکہ سی این جی بھروانے میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا اور گاڑیوں کے انجن بھی متاثر ہوتے تھے یوں یہ منصوبہ چند ہی برسوں میں ٹھپ ہو گیا۔ اس ناکامی کی بھی یہی وجہ تھی کہ ہمارے ہاں جو بھی پالیسی بنتی ہے وہ شارٹ ٹرم بنیادوں پر کچھ سٹیک ہولڈرز کو فائدہ دینے کے لیے بنائی جاتی ہے جبکہ جدید ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔
پاکستان میں بے ہنگم ٹریفک اپنے عروج پر ہے حتیٰ کہ فٹ پاتھوں پر بھی اس طرح قبضہ ہو چکا ہے کہ لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا اور پیدل چلنا تک محال ہو چکا ہے۔ ایسے میں آ جا کر کچھ پوش علاقے ہی بچتے ہیں جہاں پیدل واک کی جا سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک میں جتنے بھی نئے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں، ان میں سائیکلنگ ٹریکس ضرور بنائے جائیں تاکہ سائیکل کے رواج کو عام کیا جائے۔ اسی طرح بڑی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر سائیکلنگ ٹریکس بنائے جائیں تاکہ وہ لوگ جو سائیکل چلانا چاہتے ہیں وہ بلاخوف و خطر سائیکل پر سڑکوں پر نکل سکیں۔اس سے نہ صرف لوگوں کا پٹرول کی مد میں خرچ بچے گا بلکہ صحت کے معاملات بھی بہتر ہوں گے۔ سائیکل کی پارکنگ بھی آسان ہوتی ہے اور یہ ماحول کو بھی آلودہ نہیں کرتی، اس لیے اسے چلانے میں فائدہ زیادہ اور نقصانات انتہائی کم ہیں۔
ابتدا میں ٹرائل کے طور پر شہر کی ایک دو بڑی سڑکوں پر سائیکل ٹریکس بنائے جا سکتے ہیں جنہیں آہستہ آہستہ دیگر علاقوں تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جدید ممالک میں جانا بھی چاہتے ہیں اور ان جیسا بننا بھی چاہتے ہیں لیکن وہ اقدامات نہیں کرتے جن کی بدولت ایک ترقی پذیر ملک حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ بن سکتا ہے اور یہ تب تک نہیں ہو گا جب تک ہم دماغ سے یہ خناس نہیں نکالیں گے کہ سائیکل تو غریب آدمی کی سواری ہے اور اس سے ہماری شان میں کمی آ جائے گی۔