اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ چودہ لاکھ رجسٹرڈ افغان باشندے موجود ہیں۔ غیر قانونی افغان باشندوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ گزشتہ برس یو این ایچ سی آر نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغان باشندے‘ جو پاکستان میں مقیم ہیں اور یکم اگست سے رضاکارانہ واپسی کے عمل کے ذریعے اپنے ملک افغانستان واپس جانا چاہتے ہیں‘ ایسے ہر فرد کو واپس جانے پر 375 ڈالر دیے جائیں گے؛ تاہم یہ سہولت صرف ان مہاجرین کو حاصل ہو گی جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن ہو گا جبکہ افغان سٹیزن کارڈ کے حامل اور غیر قانونی طور پر یہاں رہنے والے مہاجرین کو یہ سہولت حاصل نہیں ہو گی؛ تاہم بہت زیادہ افغان باشندوں نے اس سہولت کا فائدہ نہیں اٹھایا، الٹا مزید افغان پاکستان کا رخ کرتے رہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور امن و امان کے مسائل سنگین ہوتے گئے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد کو کہیں رہنا تھا‘ روزگار حاصل کرنا تھا‘ وسائل استعمال کرنا تھے جو پہلے ہی پاکستان کی اپنی آبادی کے لیے کم پڑ رہے ہیں۔ افغانوں کی پاکستان آمد اور ہجرت کا نتیجہ حالات کے مزید بگاڑ کی صورت میں نکلا اور پاکستان جو پہلے ہی عالمی مہنگائی اور کساد بازاری کی لہر کا شکار تھا‘ مسائل کے بھنور میں پھنستا چلا گیا۔ گزشتہ چار عشروں سے ہم افغان پناہ گزینوں کے ساتھ نرمی برت رہے ہیں‘ جس کا پھل ہمیں دہشت گردی، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی صورت میں ملا اور مل رہا ہے۔
صدر ضیاء الحق نے امریکی اتحادی کا کردار قبول کرتے ہوئے نہ صرف امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی بلکہ سوویت یونین پر چڑھائی کے لیے افغان مجاہدین کی تربیت بھی کی اور ان کے لیے پاکستان کی سرحد بھی بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے کھول دی۔ چنانچہ افغان مجاہدین سمیت افغان شہریوں کی پاکستان میں آزادانہ آمد و رفت کا ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جو تاحال تھم نہیں سکا۔ سوویت افغان جنگ کے دوران چالیس لاکھ کے قریب افغان باشندے مہاجر بن کر پاکستان میں داخل ہوئے، جنہیں اس وقت کی حکومت نے ملک کے مختلف شہروں میں عارضی قیام گاہیں بنا کر دیں، انہیں خوراک بھی حکومت کی جانب سے فراہم کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی انہیں یہاں کاروبار کرنے اور ان کے بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ یہ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوتے وقت اپنے ساتھ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بھی لے کر آئے جس کے نتیجے میں رہی سہی کسر نکل گئی اور معاشرے میں انتہاپسندی بڑھنے لگی۔
اس صورت حال کے تناظر میں حالیہ دنوں میں ملک میں مقیم غیر ملکی بالخصوص افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ دیر آید درست آید ہے ۔یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی میں ہوا جس میں آرمی چیف ‘ نگران وفاقی وزرا‘ نگران وزرائے اعلیٰ اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ اجلاس میں پاکستان میں موجود غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو 31 اکتوبر تک رضاکارانہ ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی اور اگر وہ اس ڈیڈ لائن تک واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔ اپیکس کمیٹی کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ملک کی معاشی اور امن عامہ کی صورت کو مدنظر رکھ کر کیا جانے والا بہترین اقدام بھی۔ ہمارا ملک شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جو بھی آنا چاہے‘ منہ اٹھائے بغیر پاسپورٹ اور بنا ویزا کے داخل ہو جاتا ہے۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سال جنوری سے اب تک ملک کے مختلف علاقوں میں چوبیس خودکش حملے ہوئے جن میں سے چودہ خود کش حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ دہشت گرد پاکستان میں آ کر کہیں رہتے رہے‘ کوئی انہیں تعاون اور امداد فراہم کرتا رہا۔ قوی امکان یہی ہے کہ یہ اپنے ہی ہم وطنوں یعنی افغان باشندوں کے پاس سکونت اختیار کرتے رہے ہوں گے اور اسی نیٹ ورک کے ذریعے ملک میں دہشت گردانہ حملوں کی پلاننگ کرتے رہے ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس حوالے سے ٹھوس معلومات موجود ہیں اسی لیے اس بار جس شد و مد سے غیر ملکیوں بالخصوص افغانوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس سے قبل اتنی سنجیدگی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
وفاقی حکومت اور ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے بعد افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ افغان کمشنریٹ ذرائع کے مطابق 30 افغان خاندانوں کو لے کر 12 ٹرک افغانستان روانہ ہو گئے ہیں۔ افغانستان واپس جانے والے 204 افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ قانونی کارروائی کے بعد افغان خاندانوں کو واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ دو روز میں 554 افراد پر مشتمل 60 خاندان افغانستان واپس جا چکے ہیں۔ ستمبر میں 1426 افراد پر مشتمل 280 افغان خاندان واپس افغانستان جا چکے ہیں۔ اس دوران کوئٹہ سے 94 غیر قانونی افغان باشندے گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ شہر کے مختلف تھانوں میں افغان مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے اور اب تک 22 ہزار افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔ سہراب گوٹھ کراچی سے 51 جبکہ اسلام آباد سے 503 غیرملکی افراد کو گرفتار کرکے شناختی دستاویزات نہ ہونے پر جیل بھجوایا گیا۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں لگ بھگ پونے تین لاکھ افغان مقیم ہیں جبکہ کراچی میں غیرقانونی طورپر مقیم افغان باشندوں کی تعداد 4 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے پندرہ سو کو گزشتہ ایک ماہ کے دوران ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے جبکہ سینکڑوں افغانوں کو سٹریٹ کرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سٹریٹ کرائم کی بیشتر وارداتوں میں افغان شہری ہی ملوث رہے ہیں۔ خاص طور پر ڈکیتیوں کے دوران شہریوں کی بے دریغ ہلاکتوں کے بیشتر واقعات میں ملوث افراد کا تعلق افغانستان ہی سے پایا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی اور مجرمانہ کارروائیوں میں افغان موبائل سموں کے استعمال کے انکشاف پر حساس اداروں نے سرحدی علاقوں میں افغان سموں کے استعمال پر پابندی کی سفارش کر دی ہے۔ اس وقت پاک افغان سرحدی علاقوں میں غیر رجسٹرڈ افغان سمیں عام دستیاب ہیں۔ دہشت گرد افغان سمز کو وَٹس ایپ سمیت دیگر ایپس چلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ نگرانی سے بچنے اور شناخت چھپانے کے لیے بھی افغان سمز استعمال کی جا رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو موبائل فون دہشت گردی کے فروغ میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے اسی لیے حساس مقامات اور اہم ایونٹس کے مواقع پر موبائل فون سروس منقطع کر دی جاتی ہے۔ افغانوں کی واپسی سے ڈالر کی قیمت میں کمی اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں بہتری بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ بات اب سب جانتے ہیں کہ ڈالر کی بڑھتی قیمت کے پیچھے بھی افغان نیٹ ورک کارفرما تھا اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور افغانستان سمگلنگ کی جا رہی تھی۔ اس مسئلے کو بھی نگران حکومت نے حل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے ڈالر چند ہفتوں میں تیس روپے سے زیادہ کم ہو کر 283 روپے کی سطح پر آ گیا۔ ملکی کرنسی جتنی زیادہ مضبوط ہو گی‘ اتنا ہی معیشت کے جلد سنبھلنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں سات ڈالر فی بیرل کمی ہوئی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آئندہ دنوں میں مزید کم ہوں گی اور ڈالر کی قیمت میں کمی کا بھی اس پر اثر پڑے گا۔ معیشت میں جو بہتری آنا شروع ہوئی ہے اس کا تسلسل یونہی جاری رہا تو اس کے فوائد نیچے عام آدمی تک منتقل ہوں گے اور عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے۔ گزشتہ ادوار میں جس طرح ملکی اکانومی اور سیاسی کلچر کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں‘ ان کا بھی کچھ ازالہ ہو سکے گا۔