سموگ نے رہی سہی آئوٹ ڈور سرگرمیوں کو بھی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ بچے پہلے ہی موبائل فون اور ٹی وی کی جان نہیں چھوڑتے‘ اب انہیں یہ بہانہ بھی مل گیا ہے کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا اور جو کچھ کرنا ہے گھر ہی میں کرنا ہے۔ عام طور پر گھروں میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے کہ اِن ڈور گیمز کھیلی جائیں۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ صوفے اور فرنیچر وغیرہ نکال کر ان کی جگہ ٹیبل ٹینس اور سنوکر ٹیبل رکھ لی جائے۔ دیکھا جائے تو ڈرائنگ رومز سب سے کم استعمال والی جگہ بن چکے ہیں۔ نئے گھروں میں اب ڈرائنگ رومز کو یا تو مختصر کیا جانے لگا ہے یا پھر ٹی وی لائونج کو ہی مہمانوں کو بٹھانے کے لیے بھی ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ جاپان جیسے ممالک میں تو اس طرح جگہ ضائع کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا جتنا کہ پاکستان یا اس طرح کے دیگر ملکوں میں۔ وہاں تو ایک ایک انچ کا دیکھ بھال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں؛ ایک تو یہ کہ جاپان میں رہائش بالخصوص بڑے شہروں میں رہائش بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ گھر بہت چھوٹے بنائے جاتے ہیں اور بلا مقصد اضافی کمرے بنانے سے حتی الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جاپانی اپنے گھروں کو شیشے کی طرح صاف رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ گھر جتنا چھوٹا ہو گا‘ اتنا ہی اسے صاف رکھنا آسان ہو گا۔ جاپان میں شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں جوتے گھر کے اندر لے جانے کی روایت یا اجازت ہو۔
اب پاکستان جیسے ممالک میں بھی بڑے گھروں کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مہنگی زمین اور کنسٹرکشن کے ہوشربا اخراجات ہیں۔ کچھ لوگ بڑا گھر بنا تو لیتے ہیں لیکن پھر اس کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بارش‘ طوفان اور مٹی کی وجہ سے بھی گھروں کی دیکھ بھال اور صفائی کا کام بہت بڑھ جاتا ہے۔ آج کل سموگ کی وجہ سے مٹی کی ایک عجیب سی تہہ گاڑیوں پر جم جاتی ہے۔ آپ اپنی گاڑی کو دو دن کے لیے کھلی ہوا میں کھڑا کریں‘ آپ کو وہ مکمل طور پر مٹی سے اَٹی نظر آئے گی۔ اندازہ کریں کہ یہی سموگ جب سانس کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں میں جاتی ہو گی تو کیا حال کرتی ہو گی۔ فضائی آلودگی پہلے زمانوں میں بھی ہوتی تھی لیکن اس کے انسانی صحت پر اتنے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے تھے۔ اس نئی قسم کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ ایک خاموش قسم کا زہر ہے جسے ہم جانتے بوجھتے روزانہ اپنے جسم میں اتارتے ہیں۔ یہ زہر اتنی خاموشی سے ہمارے جسم میں سرایت کر رہا ہے کہ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہو پاتی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اصل شرح اس سے کہیں زیادہ ہو گی کیونکہ یہاں پر بیماریوں اور اموات کا ریکارڈ درست انداز میں رکھنے کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔
لاہور میں سموگ کی شدت میں اضافے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن ایسے اعلانات اور اقدامات پچھلے کئی برس سے کیے جا رہے ہیں اور ان کے باوجود سموگ کی شدت میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے اس صورتِ حال کو انسانی جانوں کے لیے بے حد خطر ناک قرار دیا ہے۔ لاہور‘ جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا اور ایک ادبی و ثقافتی مرکز اور اپنے کھابوں کے حوالے سے مشہور تھا‘ اب اسے دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیاگیا ہے اور یہ خراب ترین فضا میں دہلی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس نئی قسم کی فضائی آلودگی میں سانس لینے میں دقت اور تکلیف تو ہوتی ہی ہے‘ پھیپھڑے بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو پہلے سے دمے کی شکایت ہے‘ یہ ایام ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں کیونکہ کسی بھی چیز سے ایک حد تک دور رہا جا سکتا یا بچا جا سکتا ہے لیکن سانس ایک ایسا عمل ہے جسے ایک لمحے کے لیے بھی معطل نہیں کیا جا سکتا۔
سموگ گھروں میں بھی داخل ہو جاتی ہے۔ کھڑکیاں دروازے مکمل بند کر کے رکھے جائیں تو بالکل ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ تازہ ہوا کے عادی لوگوں کے لیے یہ صورتِ حال کسی سخت آزمائش سے کم نہیں۔ رات کو سوتے وقت گلے میں خراش اور کیرا گرنے کی شکایات اب عام ہو چکی ہیں۔ ہسپتال بچوں‘ بزرگوں اور خواتین سے بھر چکے ہیں جہاں اتنے مریض سانس سے متعلقہ بیماریوں کے ساتھ آ رہے ہیں کہ ہسپتالوں کے لیے انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت کو سمارٹ لاک ڈائون کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ پھیپھڑوں کا انفیکشن کئی دیگر امراض کا بھی سبب بنتا ہے۔ دل کی بیماریاں ویسے ہی اب عام ہو چکی ہیں اور ان کے باعث انسانوں کی اوسط عمر بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ سموگ سے بچے، خواتین اور بزرگ تو پریشان ہیں ہی‘ کاروبار بھی ٹھپ ہو رہے ہیں کیونکہ جب لوگ باہر ہی نہیں نکلیں گے تو وہی کورونا لاک ڈائون والی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔ ابھی یہ شکر ہے کہ یہ وبا کچھ ہفتوں کے لیے آتی ہے؛ البتہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس کا دورانیہ ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے اور شدت بھی۔ بھارت میں سموگ نے پہلے ہی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ جس روز دہلی کی جانب سے ہوا کا رخ پاکستان کی طرف ہوتا ہے‘ اس دن لاہور اور گرد و نواح کے اضلاع کی شامت آ جاتی ہے۔ بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ ایک میچ کے دوران تو رات کے وقت اچانک سموگ کے بادل ایسے حملہ آور ہوئے کہ کئی مرتبہ میچ روکنا پڑ گیا۔ اسی طرح کئی کھلاڑی مسلسل کھانستے پائے گئے۔ آئے روز پریکٹس سیشن بھی سموگ کے سبب منسوخ کیے جا رہے ہیں کیونکہ اگر کھلاڑی ہی بیمار پڑ گئے تو ٹورنامنٹ کون کھیلے گا۔ کچھ شک نہیں کہ ورلڈ کپ کی لوکیشن کے ساتھ ساتھ ٹائمنگ بھی غلط ہے۔ اگر یہ مارچ‘ اپریل میں رکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
سموگ سے بچائو کے لیے طبی ماہرین بہت سی احتیاطی تدابیر اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ جب بھی باہر نکلیں تو ماسک پہن کر نکلیں۔ اسی طرح گھروں کے اندر فضا کو صاف رکھنے کے لیے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھے جائیں۔ کھلی فضا میں بلاضرورت نکلنے اور ورزش کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ کمرے میں فضا کو آلودہ عناصر سے پاک کرنے کے لیے مختلف چیزیں ملتی ہیں‘ جن میں ایئر پیوریفائر بھی شامل ہیں‘ یہ ہیٹر کی طرح کی چھوٹی سی مشین ہوتی ہے جس سے کمرے میں فضا کی کوالٹی بہتر ہو جاتی ہے اور سانس لینے میں دشواری نہیں ہوتی؛ تاہم یہ مشین ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا اور ویسے بھی یہ ایک کمرے میں ہی فضا کو صاف کر سکتی ہے اور اس کی قیمت پچاس ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ تین‘ چار کمروں پر کتنا خرچ آئے گا۔
کچھ کام حکومت کے کرنے کے ہیں جیسا کہ فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے خصوصی سٹیشنز قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے صحیح معنوں میں آلودگی کا اندازہ ہو سکے گا۔ اسی طرح غیر معیاری ایندھن کے استعمال‘ دھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی اور اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کی نگرانی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید زگ زیگ ٹیکنالوجی والے بھٹوں کا عرصہ دراز سے سن رہے ہیں لیکن ابھی تک اس پالیسی پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔ جنگلات کے رقبے میں اضافہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ملک میں درخت کو کاٹنے کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔ تمام بڑے، چھوٹے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں اندھا دھند اضافہ بھی فضائی اور صوتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے جس سے روز بروز صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ فضائی آلودگی کے خلاف اقدامات صرف سموگ کے دوران ہی نہیں بلکہ پورا سال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سموگ کے عذاب سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سموگ اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ لوگ ہر طرح کے ٹوٹکے اور بچائو کے اقدامات کے بعد بھی متاثر ہوتے رہیں گے اور انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ سموگ سے بچ کر جائیں تو جائیں کہاں۔