سی ایس ایس آفیسر بلال پاشا کی اچانک موت نے سب کو افسردہ کر دیا ہے۔ ایک پسماندہ طبقے کا نوجوان جب مقابلے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا ہے تو اس سے لاکھوں‘ کروڑوں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نوجوان کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بلال پاشا کی ناگہانی موت کو لے کر طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ابھی تک ان کی لاش کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی لیکن ہر طرف یہی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے خودکشی کی ہے اور وہ کسی ذہنی دبائو کا شکار تھے۔ بلال کی تین سال قبل شادی ہوئی تھی اور پھر جلد ہی علیحدگی ہو گئی۔ میں نے ان کے والد کا ایک تفصیلی انٹرویو دیکھا ہے جس میں انہوں نے ایسی تمام خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ایک باپ سے زیادہ کسی کو اس کے بیٹے کے بارے میں کیا علم ہو گا۔ ہماری روایت کے عین مطابق پولیس اس موت کو خودکشی قرار دے رہی ہے جو کہ قبل از وقت ہے۔ پوسٹ مارٹم کیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ حقیقت سامنے آ سکے۔ لیکن ہمارے ہاں سب سے پہلے کی دوڑ نے سب کی مَت مار رکھی ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ دور کی کوڑی سامنے لائے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہر کوئی سراغ رساں بنا بیٹھا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ موت کو قبل از وقت خودکشی یا قتل ثابت کرنے والے کچھ وقت انتظار کریں اور ٹھوس شواہد اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے آنے کے بعد اپنی رائے دیں۔
ہمارا معاشرے جس ڈگر پر گامزن ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ ڈپریشن ہر شخص کامسئلہ اگر آج نہیں تو اگلے چند برسوں میں ضرور بن جائے گا۔ دوسروں کی زندگی کی تہہ میں جانے کا شوق جتنا ہم پاکستانیوں کو ہے‘ شاید ہی کسی کو ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جو ادارے جن کاموں کے لیے بنے ہیں‘ یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ وہاں ہر کوئی شرلاک ہومز بنتا ہے نہ ہی آگے بڑھ بڑھ کر لمبی لمبی ڈینگیں چھوڑتا ہے۔ ہم لوگ ویسے تو ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے رزق میں کمی ہے‘ ہمیں روزگار کے مواقع نہیں ملتے‘ ہمارا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا لیکن ہم یہ جو اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے اور بلاوجہ ان ایشوز کے ماہر بن کر کئی کئی گھنٹے فیس بک، ایکس (ٹویٹر ) یا دیگر پلیٹ فارمز پر کمنٹس دیتے پھرتے ہیں‘ یہی وقت ہم اگر کوئی نیا ہنر سیکھنے پر لگا دیں تو ہمارا رزق بھی کشادہ ہو جائے گا اور ہم ذہنی دبائو کا بھی شکار نہیں ہوں گے۔ دوسروں کے گھروں میں جھانکنے سے ہمارے گھر کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ دوسرا کیا کر رہا ہے‘ کیسے کما رہا ہے‘ اس کی کیسے طلاق ہوئی‘ اس نے گاڑی کیسے خریدی‘ وہ عمرے یا حج پر کیسے چلا گیا‘ اس نے گھر کیسے بنا لیا‘ یہ سب باتیں لوگوں کے اپنے مسائل ہیں۔ ہم جب بلاوجہ دوسروں کی ذاتیات میں پڑتے ہیں تو اس سے اُس شخص کو فرق پڑے‘ نہ پڑے، ہم خود ضرور ایکسپوز ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اکثر کام ایسے ہیں جو ہم خود بھی کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ تنہائی میں کیے جاتے ہیں یا پھر کسی کو ان کا علم نہیں ہو پاتا‘ اس لیے ہم اپنی ان برائیوں یا کوتاہیوں کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے خود بیان نہیں کریں گے اِلّا یہ کہ پکڑیں جائیں لیکن یہی چیزیں جب دوسروں کی سامنے آ جائیں تو کانوں کو یوں ہاتھ لگا لگا کر ان کی غیبت کریں گے کہ جیسے خود وہ کام ہم نے کبھی کیا ہی نہ ہو۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ دوسروں کی کوئی ذاتی برائی کبھی سامنے آ جائے تو اسے پھیلانے سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسروں کی پردہ پوشی کرنی چاہیے۔ اگر آپ بڑھ چڑھ کر لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں گے اور زبان کے چسکے کے لیے جگہ جگہ ان معاملات کو ڈسکس کرتے رہیں گے تو عین ممکن ہے کل کو آپ کی بھی کوئی کمزوری کسی دوسرے کے ہاتھ لگ جائے اور جب آپ اپنی کسی ایسی غلطی کو دوسروں کی زبان سے سنیں گے تب آپ کو اپنی غلطی پر افسوس اور پردہ پوشی کا احساس ہو گا۔
جہاں تک نوجوانوں میں بڑھتے ذہنی دبائو کا مسئلہ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا زیادہ تعلق معاشیات سے ہے۔ کیریئر کونسلنگ ہمارے ملک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچوں نے کیا بننا ہے‘ کیا پڑھنا ہے‘ کس کیریئر کو اپنانا ہے‘ یہ فیصلہ ہمارے ملک میں بچے نہیں بلکہ ان کے ماں باپ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے دبائو میں آ کر بچے والدین کا پسند کردہ پیشہ اور شعبہ ختیار تو کر لیتے ہیں لیکن چونکہ اس میں انہیں رغبت نہیں ہوتی اس لیے جب کوئی اتار چڑھائو آئے تو وہ ٹھیک طریقے سے مسئلے کو حل نہیں کر پاتے۔ جدید ممالک میں حتیٰ کہ بھارت میں بھی اب یہ رجحان پنپ رہا ہے کہ آٹھویں جماعت ہی سے بچوں کی کیریئر کونسلنگ کی جائے تاکہ ان کا پسندیدہ شعبہ اور رجحان سامنے آ سکے۔ یہ ضروری نہیں کہ آٹھویں جماعت میں ہی یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے لیکن کم از کم کچھ ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جن سے پتا چل جاتا ہے یہ بچہ آگے چل کر کس شعبے میں زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ زندگی کو آپ کیلکوکیٹر کی طرح دو جمع دو کر کے نہیں گزار سکتے۔ بہت سے ایسے بچے بھی میں نے دیکھے ہیں جن کے والدین ڈاکٹر تھے اور بچے بھی ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن جب وہ ڈاکٹر بنے تو انہیں اس میں کوئی چارم نظر نہیں آیا اور پھر زیادہ تر تو مجبوری میں اسی شعبے میں چار و ناچار کام کرتے رہے لیکن چند ایک ایسے بھی تھے جو اس پیشے کو چھوڑ کر کسی اور شعبے میں چلے گئے اور وہاں زیادہ کامیاب ہوئے۔
ہمارے ہاں اس امر کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ دبائو کا تعلق کسی شعبے سے نہیں بلکہ پسند‘ ناپسند سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو لوگوں کی خدمت کا شوق ہے تو آپ اپنی بھوک‘ نیند‘ آرام کچھ بھی نہیں دیکھیں گے حتیٰ کہ یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ آپ جو کام کر رہے ہیں اس میں آپ کو قابلِ قدر معاوضہ مل رہا ہے یا نہیں لیکن اگر آپ کا مطمح نظر صرف پیسہ کمانا ہے تو پھر آپ ایک فالتو قدم بھی سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے اور بلاوجہ تنائو کا شکار رہیں گے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں بدقسمتی سے دن رات اگر کسی چیز کا خیال لوگوں کو ستاتا ہے تو یہ کہ جلد از جلد امیر بنا جائے اور زیادہ سے زیادہ پیسے اور اثاثے اکٹھے کر لیے جائیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اتنے زیادہ پیسوں کا آخر کرنا کیا ہے۔ سب سے قیمتی پیسہ تو وہ ہے جو آپ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا یا جس سے کسی کی مدد کی اور دوسرا اہم پیسہ وہ ہے جو آپ نے اپنی ذات پر لگایا‘ اپنی ذہنی اور جسمانی صحت پر خرچ کیا۔ یہاں لوگ صبح سے رات گئے تک کام کی چکی میں پستے رہتے ہیں لیکن بیس منٹ واک ‘یوگا یا ایکسرسائز کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ انسان کے اپنے بدن کی بھی کچھ ضروریات ہوتی ہیں۔ جس طرح دماغ کو اچھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے‘ اسی طرح جسم کو جتنا تھکائیں گے یہ اتنا ہی زیادہ چوکس اور مضبوط ہو گا۔ موبائل فون کو بہت زیادہ الزام دینا بھی درست نہیں‘ اس لیے کہ جس شخص نے اپنے لیے وقت نکالنا ہے‘ اس نے ہر صورت نکالنا ہے۔ جتنا آپ بھاگتے‘ دوڑتے رہیں گے اتنا ہی فٹ رہیں گے۔ جیسے ہی آپ آرام طلب اور جنک فوڈ کے عادی ہوئے‘ آپ بستر سے جا لگیں گے۔
کچھ دن پہلے معروف بھارتی اداکارہ شلپا سیٹھی کو سوشل میڈیا پر دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ تیس سال قبل یہ فلموں میں جیسی نظر آتی تھی‘ آج بھی ویسی ہی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ ورزش‘ یوگا اور فوڈ ایکسپرٹ ہے اور آرگینک خوراک کھاتی ہے۔ ہمارے ہاں ماضی کی اداکارائیں تو اُس وقت بھی اوور ویٹ تھیں اور بعد میں تو پتا نہیں کیا سے کیا بن چکیں۔ بلال پاشا کی موت کے ''پُراسرار پہلو‘‘ کریدنے اور شرلاک ہومز بننے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم سب اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال کریں‘ اس سے پہلے کہ دوسروں کو کریدتے کریدتے ہم خود ایسی خبر بن جائیں۔