روشنی میں اندھیرے

اگرچہ اپنی آئینی مدت کے اختتام کے قریب ‘حکومت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کررہی ہے ‘ لیکن صارفین کواس اندھیری سرنگ کے سرے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن چکی ہے ۔ پہلے کی طرح اس کا دورانیہ بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا۔ سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے بیانات اور پریس کانفرنسوں سے یہ طے شدہ نمونہ تبدیل نہیںہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مسلے کا کوئی حل موجود نہیں۔بجلی کی تعطلی کے تاریک معمولات، فیڈرز کے ٹرپ ہوجانے‘ تیل کی کمی اورتقسیم کے نظام میں نقصانات کی وجہ سے بجلی کی سہولت ‘صرف انہیں دستیاب ہے‘ جو یا تو خود بجلی پیدا کرلیتے ہیں یا اُن کی اشرافیہ تک رسائی ہے ۔ نئی نسل ایسے وقت کا تصور بھی نہیں کرسکتی ‘جب لوڈشیڈنگ کی بجائے بجلی کی باقاعدہ فراہمی دیکھنے میں آئی ہو‘ تاہم ایک عشرہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ 
2001 ء میں پاکستان بھارت اور کئی ہمسایہ ممالک سے بجلی کی فراہمی کے اعتبار سے بہت بہتر تھا۔ یہ مسئلہ 2006 ء سے سنگین ہونا شروع ہوگیا۔ بجلی کی فراہمی میں کمی واقع ہونے لگی‘ اور آج یہ کمی ایک جن بن کر بوتل سے باہر آچکی ہے ۔ بجلی کی فراہمی حکومتوں کے منشور پر اولین ترجیح کے طور پر رہی‘ لیکن وہ پیداوار اور تقسیم کے نظام میں جدت اورحقیقی اصلاحا ت لانے میں ناکام رہیں۔ زیادہ سے زیادہ پلانٹ لگاکر پیداوار کو بڑھانے کی دوڑ سسٹم کی گنجائش کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوئی ہے ۔ 
اصول یہ ہے کہ آپ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں‘ اگر آپ کسی زنجیرکا حصہ ہیں‘ تو آپ کی طاقت اُس کی سب سے کمزور کڑی کے برابر ہوگی۔کسی بھی پلانٹ مینجمنٹ یا پیداواری منصوبے کی بنیاد سپلائی چین کا نظام ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ استعمال ہونے والا میٹریل، جیسا کہ تیل‘گیس ‘ رقم اور پھر پیداوارکو تقسیم کرنے کا نظام اضافی گنجائش کا دبائو برداشت کرسکے۔ پلانٹس کو تیل‘ کوئلے اور گیس کی فراہمی ‘ سولر ‘ اور ایسے ہر پلانٹ کا افتتاح ، اور کئی میگا واٹ بجلی کا اضافہ پہلے سے موجود خرابی کو مزید بڑھا دیتا ہے ۔ اس مثال پر غور کریں کہ ایک مشین چلنے کے لیے تیار ہے‘ لیکن اسے چلانے کے لیے فیول نہیں یا ایک فیکٹری ہے ، جہاں آپ اشیاء تیار کرتے ہیں‘ لیکن ان تیار شدہ اشیاء کو صارفین تک پہنچانے کے لیے ٹرک نہیں ہے ۔ 
توانائی کا بحرا ن صرف یہی نہیں کہ لوگوں کو گرمی کی لہر برداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ ہماری صنعتی پیداوار بھی زوال پذیر ہے ۔ ملازمت کے مواقع اور معیشت کی پیداواری شرح، سب کچھ متاثر ہوتا ہے ۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے ہماری برآمدات میں شدید کمی واقع ہوچکی ہے ۔ ایکسپورٹرز خود بجلی پیدا کرکے اشیاء تیار کرنے سے بلند لاگت اور تاخیر سے آرڈرز کی تکمیل جیسے مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ عالمی منڈی میں مسابقت سے قاصر ، فیصل آباد کی ملوں کی پچاس فیصد پیداواری صلاحیت کم ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ سے خاص طو ر پر کم آمدنی والا محنت کش طبقہ بے روزگار ہے ۔ چنانچہ ملک کے غریب عوام مزید پسماندگی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ صورت ِحال ملک کے سماجی ڈھانچے کے لیے تباہ کن ہے ۔ اس کی وجہ سے جرائم، قتل، فائرنگ، خود کشی اور آبروریزی کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ 
پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کا مسلۂ دوپہلو رکھتا ہے ۔ پہلا 2013ء کے اعدادوشمار کے مطابق ملک 22000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جبکہ اُس وقت بجلی کی طلب صرف 16000 میگا واٹ تھی‘ لیکن لوڈ شیڈنگ کی وجہ پرانی ٹیکنالوجی، نااہل انتطامیہ، بدعنوانی، مالیاتی بدانتظامی تھی۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے لئے گئے قرضہ جات نظام میں اصلاحات سے مشروط تھے۔ ان اداروں کی جاری کردہ ہر رپورٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت مجوزہ اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہے ۔ اس طرح نااہل افراد کی کسی میرٹ کے بغیر ٹیکنکل میدان کے اعلیٰ عہدوں پر تقرریوںکا بنیادی مسلۂ حل کیے بغیر مزید منصوبے بنانے کی پالیسی نے توانائی کے شعبے کے قرضے میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ 
موجودہ حکومت پانچ سالوں کے دوران 10,000 میگا واٹ مزید بجلی سسٹم میںداخل کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے لوڈ شیڈنگ کو کنٹرول کرلیا ہے ‘ لیکن حقیقی ایشو کہیں بڑھ کر ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر پلانٹس یا تو تاخیر کا شکار ہوئے‘ جیسا کہ نندی پور۔ یہ منصوبہ تکمیل کی لاگت میں پانچ سو فیصد اضافے کے باجود اپنی گنجائش کا صرف پچیس فیصد پیدا کررہا ہے ۔ اس طرح کے منصوبے ابھی صرف آزمائشی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں، یہ مکمل طور پر فعال نہیں ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر ایل این جی سے چلنے والے پلانٹس‘جیسا کہ حویلی بہادرشاہ، بھیکی اور بلوکی(ان کی مجموعی پیداواری گنجائش 3,600 میگاواٹ ہے )ابھی تک آزمائشی مراحل میں ہیں۔ ان سے صارفین کو استعمال کے لیے بجلی فراہم نہیں کی جارہی۔ پانی کی قلت کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار بھی کم ہے ۔ نیلم جہلم منصوبہ برس ہا برس گزر جانے کے بعد ابھی تک آزمائشی مراحل میں ہے ۔ 
اگر یہ تمام منصوبے فعال ہوجائیں،‘لیکن ترسیل کے نظام کو بہتر بنائے بغیر پیدا ہونے والی اضافی بجلی ضائع ہوجائے گی‘ لیکن اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جارہی‘کیوں؟ اس لیے کہ ترسیل کے نظام پر سرمایہ کاری کوئی چکاچوند منصوبہ نہیں ۔ اس سے سیاسی طور پرکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف پلانٹس اور منصوبے ''دکھائی ‘‘ دیتے ہیں۔ انہیں جلداز جلد مکمل کرنے کی نمائش کی جاتی ہے ‘ ان کا افتتاح کیا جاتا ہے‘ انہیں سیاست دانوں سے منسوب کیا جاتا ہے ‘ یہ سیاسی اثاثہ جات ثابت ہوے ہیں‘لیکن بجلی کے ترسیل کے نظام کو بہتر بناناپریشان کن، طویل اور مشکل کام ہے ۔ اور پھر یہ سیاسی مفاد میں نہیں ڈھلتاہے ۔ چنانچہ اس کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے جاتے ‘اور بجلی کی ترسیل ایک ڈرائونا خواب بن جاتی ہے ۔ ایک اور نہ دکھائی دینے والا‘ لیکن سب کچھ ہڑپ کرجانے والا عفریت گردشی قرضہ ہے۔ 
2013-14ء میں حکومت نے اقتدار میں آتے ہی 420 بلین روپوں کا گردشی قرضہ اداکردیا‘ کیسے ؟ یہ تاحال ایک سربستہ راز ہے ۔ کیے گئے تمام آڈٹ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ پرکشش ادائیگیاں غیر شفاف تھیں۔ اگرچہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسے چیلنج بھی کیا ‘لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ کیا گیا۔ اس وقت یہ قرضہ اس سے دوگنا ہوکر کم و بیش ایک ٹریلین روپوں تک پہنچ چکا ہے ۔ اس کی وجہ سے تیل فراہم کرنے والا شعبہ شدید دبائو کا شکار ہے ، اور فیول کی فراہمی میں تعطل ایک معمول بن چکا ہے ۔ پی ایس او، گیس سپلائی کرنے والی فرموں اور آئی پی پیز کو ادائیگی میں مزید تاخیر تمام نظام کو جامد کرسکتی ہے ۔ 
اصل مسئلہ اس شعبے میں شفافیت کا فقدان ہے ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایسی انرجی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے‘ جو سستے اور قابل ِ تجدید توانائی کے ذرائع کو ترجیح دے، قرضے کو کم کرے اورچوری اور بدعنوانی کو روکے۔نیپرامسلسل کہہ رہا ہے کہ لوڈشیڈنگ 2020 ء سے پہلے ختم نہیںہوسکتی‘لیکن حکومت اس کی تردید کرتے ہوئے‘ اس کے خاتمے کی مسلسل تاریخیں دے رہی ہے ۔ اور ہر مرتبہ دی گئی ڈیڈلائنز غلط ثابت ہوتی ہیں۔ لگاتار کئی حکومتیں اصلاحات لانے کے عمل کو شفاف بنانے اور رقم کے درست استعمال سے خامیوںکا سد باب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پالیسی سازوں کی فکری لوڈ شیڈنگ ختم کیے ‘بغیر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیںہوگی۔ ہمارے سامنے تاریک سرنگ کے دوسرے سرے پر کوئی روشنی ہویدا نہیں ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں