نوجوان آبادی اور بے چینی کا سمندر

اس وقت پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے‘ جتنی تاریخ میں کبھی رہی ہے ۔ یہ معلومات اقوام ِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ رپورٹ کا حصہ ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق دوسوملین کی آباد ی میں سے 63 فیصد پاکستانی نوجوان ہیں۔ ان 126 ملین افراد میں 58.5 ملین کی عمر بیس سے چوبیس سال کے درمیان ‘جبکہ 69 ملین کی عمر پندرہ سال سے کم ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نوجوان آبادی کی تعداد سنگاپور‘ کینیڈا‘ سوئٹزر لینڈ‘ آسٹریا اور بہت سے دیگر ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے ۔ اسے نوجوان آبادی کا فشار کہا جاتا ہے ؛ اگرچہ فشارمنفی لفظ ہے ‘ اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے‘ جیسے کسی ڈھانچے پر نقصان دہ حد تک دبائو پڑگیا ہو۔ اس وقت یہ بات پاکستان پر صادر آتی ہے ۔ 
نوجوان کسی معاشرے کا سب سے باصلاحیت حصہ ہوتے ہیں۔ وہ توانائی ‘ جوش‘ جذبے اور تخلیقی صلاحیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ سیماب صفت اور تنک مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ردعمل کا بھی اظہار کرتے ہیں۔نوجوانوں کی بھڑکیلی طبیعت سے نمٹنے کے لیے خاندانوں اور معاشروں کو اُن کے کردار ‘ مہارتوں اور رویوں کی اس طرح تعمیر کرنی چاہیے کہ وہ زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہوسکیں۔ نوجوانوں کی ترقی میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مواقع فراہم کرے‘ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے ‘وہ اپنی دلچسپی اورصلاحیت کو بامقصد ہنر میں ڈھال سکیں۔ یہ کردار اس بات کا تعین کرتاہے کہ نوجوان آبادی کا پھیلائو ملک کے لیے ایک اثاثہ بنتا ہے یا خطرہ۔ 
مغربی دنیا میں بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہاں ساٹھ سال سے زائد کے افراد آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ دیر سے شادی کرنے کی روایت اور ایک فیصد سے بھی کم شرح پیدائش نے آبادی میںبچوںکی تعدا د کم کردی ہے ۔ اس کی وجہ سے اشیائے صرف کی مارکیٹ متاثر ہورہی ہے ۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت‘ چین بھی فی جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کی وجہ سے آنے والے چند عشروں میں اسی مسئلے کا شکار ہوسکتی ہے ۔ چین کو اپنی متحرک معیشت کے لیے نوجوان افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس کی وجہ سے اُس کا معاشرے اور معیشت‘ دونوں متاثر ہوسکتے ہیں۔ 
وہ کاروباری ادارے‘ جو بچوں اور نوجوانوں کے استعمال کی مصنوعات تیار کرتے ہیں ‘ جیسا کہ میکڈونلڈ ‘ کوک اور پیپسی‘ وہ ایشیائی مارکیٹوں‘ جیسا کہ پاکستان‘ کا رخ کررہے ہیں‘ تا کہ یہاں بچوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے استفادہ کریں۔ اسی طرح نوجوانوں کی کمی بہت سی دیگر مارکیٹوں اور صنعتوں پر اثر انداز ہوگی ‘ جیسا کہ تعلیم‘ سافٹ ویئر اور سروسز۔ اس طرح برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں ایشیائی ممالک میں اپنے دفاتر کھول رہی ہیں‘ تاکہ طلبہ کو اپنی ایجوکیشن مارکیٹ کی طرف متوجہ کرسکیں۔ کچھ یونیورسٹیوں نے مشرق ِوسطیٰ کی ریاستوں میں اپنے کیمپس کھولنے شروع کردیے ہیں ‘تاکہ امریکہ اور برطانیہ کا ویزہ حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنے والے طلبہ وہاں جاسکیں۔ 
کسی قوم کی اپنی آبادی‘ خاص طور پر نوجوان آبادی کو اثاثہ بنانے کی صلاحیت ایک ایسی خوبی ہے‘ جس کامظاہرہ بھارت اور چین کررہے ہیں۔ وہ اپنے نوجوانوں کو جدید تعلیم دے کر اور مہارتیں سکھا کر مقامی اور عالمی مارکیٹ میں داخل کررہے ہیں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو عملی مہارت میں ڈھالنے میں ترقی کا راز مضمر ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو یکساں سرکاری تعلیم دی جائے ‘ لیکن پاکستان میں تین طرح کا تعلیمی نظام بچوں اور نوجوانوں کو طبقاتی تقسیم کا شکار کررہا ہے ۔ ایک طرف مہنگے نجی سکولوں میں مشتمل نظام ہے ‘جو جدید اور معیاری تعلیم دیتا ہے ۔مقامی اور عالمی کمپنیاں ان اداروں سے فارغ التحصیل افراد کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس کے بعد سرکاری سکولوں کا نظام ہے ‘ جہاں ذہنی اور جسمانی تشدد کے ذریعے صلاحیتوں کو ضائع کرکے ڈگری ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے ۔ اس اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا جاب مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے؛‘چنانچہ انہیں مناسب ملازمتیں نہیں ملتی۔ یہی بات جامعات پر بھی صادر آتی ہے‘ جہاں بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کرنے والے طلبا پروفیشنل طریقے سے معمولی سی ای میلز بھی نہیں لکھ سکتے ۔ ذرا تصور کریں‘ گزشتہ سال سی ایس ایس کے امتحانات میں 94فیصد امیدوار انگریزی کے پیپر میں فیل ہوگئے تھے ۔ تیسرا نظام ِ تعلیم مدرسہ سسٹم پرمشتمل ہے‘ جس میں پچیس لاکھ کے قریب طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان مدرسوں کا نصاب انتہائی دقیانوسی اور رجعت پسند ہے ۔ ان اداروں کے فارغ التحصیل افراد عملی طور پر کسی بھی شعبے کے لیے موزوں نہیں ہوتے ۔ 
جوان ہونا‘ لیکن غیر تعلیم یافتہ‘ بے روزگار اور غیر ہنر مند رہنا‘ ان کو غیر متوازن اور انتہائی رویے سکھادیتا ہے ۔ اس منظر نامے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاںجرائم پیشہ افراد اور انتہا پسندوں کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ وہ ان کے ذہنی تنائو اور بھرپور توانائی کو اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان آبادی ایک دودھاری تلوار ہے ۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان قوم کا اثاثہ ‘ جبکہ غیر تعلیم یافتہ اور غیر ہنرمند نوجوان ہجوم ایک سلگتا ہوا آتش فشاں ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ وہ کتنے باصلاحیت ہیں‘ اور جب بھی انہیں موقع ملا ہے ‘ اُنہوںنے دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ سائنس اور سافٹ ویئر کے میدان سے لے کر اداکاری اور گلوکاری تک ‘ ہر میدان میں پاکستانی دنیا میں اپنا نام رکھتے ہیں‘ لیکن یہ انفرادی صلاحیتیں ذاتی کوشش کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔ ایسے ہزاروں نوجوان ہوں گے جو ایسی ہی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں‘ لیکن اُنہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر نہیں۔ جب نوجوان اور تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کواظہار کا موقع نہیں ملے گا‘ تو اُن کی صلاحیتیں منفی اور تباہ کن راہوں پر چل نکلیں گی۔ 
اس ضمن میں حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو عملی شکل میں ڈھالنے کا موقع فراہم کرے ۔ جرمنی میں نوجوانوں کو سکول کی لازمی تعلیم کے بعد آپشن دیا جاتا ہے کہ کیا وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں گے یا ٹیکنکل مہارت ؟ پاکستان بھی اپنے نوجوانوں کو ٹیکنکل ٹریننگ دے کر ہنر سکھا سکتا ہے ۔ اس وقت پاکستان ایک تاریخی دوراہے پر موجود ہے‘ جہاں اس کے پاس نوجوانوں کی صورت میں صارفین کی ایک بھاری تعداد بھی موجود ہے اور جو صنعتی ترقی کے لیے ہنرمند‘نوجوان افرادی قوت فراہم کرسکتا ہے ۔ 
آج کا نوجوان ماضی کا نوجوان نہیں ۔ آج کی نسل بہت باصلاحیت ہے ‘ لیکن ان کی صلاحیتیں اچھائی کی طرف بھی جاسکتی ہیں اور برائی کی طرف بھی ۔ وہ وقت کے جس دھارے میں موجود ہیں‘ وہ بے چینی اور افراتفری سے عبارت ہے ۔ اس لیے ان نوجوانوں کو زیادہ توجہ اور راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ اگر اس راہنمائی میں سماجی معاونت شامل نہ ہوئی‘ تو وہ یہ نسل بے سمت اور گمراہ بھی ہوسکتی ہے ۔ عام طور پر نوجوانوں کو بلاوجہ باغی سمجھا جاتا ہے ‘ اگر اُنہیں کوئی اچھی سمت نہ ملے‘ تو اُن کی توانائیاں لازمی طور پر غلط سمت کا رخ کرلیں گی ۔ یہ والدین‘ اساتذہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو نہ صرف جدید علوم اور مہارتیں سکھائیں ‘بلکہ محنت ‘ جانفشانی‘ نظم و ضبط اور لگن کے پرانے اصولوں سے بھی آشنا کریں۔ان اقدار کی بنیاد اور جدید مہارتوں کے حصول کے بغیریہ نوجوان آبادی‘ ایک سرمائے کی بجائے ایک بغیر سمت کے میزائل ثابت ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں