نیلم جہلم‘کشن گنگا :دومنصوبے‘ ایک کہانی

پاکستان میں ایک عرصہ سے ایل او سی (لائن آف کنٹرول) پر فائرنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اور اس کا جواب بھی دیا جاتا ہے ‘ لیکن دوسری طرف ایل او ڈبلیو (لائن آف واٹر)کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ اتنی سیال اور متحرک ہے کہ نہ اسے نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر جوابی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ پانی کوئی مقامی یا قومی مسئلہ نہیں‘بلکہ اب یہ علاقائی‘ دوطرفہ اور کثیر الجہتی مسئلہ بن چکا ۔ یہ محض نیشنل واٹر پالیسی کے خوشنما الفاظ تک ہی محدود نہیں رہا۔ وقت کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا تعین کرنے والا سندھ طاس معاہدہ دبائو کا شکارہو رہا ہے ۔ بھارت نے نہایت تیزی سے سیاسی ‘سفارتی اور علاقائی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کشن گنگا منصوبے پر پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگادیا ہے ‘ جبکہ نیلم جہلم منصوبہ التوا اور بدعنوانی کی وجہ سے ایک قومی المیے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
پاکستان میں پانی کے بہائو کو بھارت کنٹرول کررہا ہے۔ اور عالمی بنک '' کسی غیر جانبدار ماہر کے جائزے ‘‘ کا روایتی کھیل‘ کھیل رہا ہے ؛ چنانچہ نا صرف پاکستان کے بیش قیمت پانی کا رخ بھارت کے کئی ایک منصوبوں کی طرف موڑا جارہا ہے ‘ بلکہ کچھ اقدامات کرنے کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے ۔ کشمیر کے متنازع علاقے پر دونوں ممالک کے درمیان چار تباہ کن جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ اب جبکہ بھارت آبی منصوبوں کے لیے دریائے ٔ نیلم کا پانی استعمال کررہا ہے۔ اس لیے یہاں پانی پر لڑی جانے والی جنگ کے خدشات گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ دونوںممالک کی آبادی میں ہوشربا تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ اور زیر ِ زمین پانی کی سطح گرتی جاری ہے۔ اس لیے انہیں دریائی پانی کی ضرورت ہے ؛ چانچہ نیلم کے پا نی پر ان کے درمیان تنائوخارج ازامکان نہیں۔دریائے نیلم کا پانی دریائے سندھ میں گرتا ہے‘ جس کا شمار بر ِ صغیر کے طویل ترین دریائوں میں ہوتا ہے ۔ یہ تبت سے شروع ہوکر کشمیر میں سے ہوتا ہواپاکستان کے 65 فیصد علاقے‘ بشمول پنجاب سے گزرکر بحیرہ ٔ عرب میں گرتا ہے ۔پنجاب پاکستان میں زراعت اور صنعت کا مرکز ہے ۔ 
سندھ طاس معاہدہ بھارت کو تین مشرقی دریائوںِ: بیاس‘ راوی اور ستلج کا پانی استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان تین مغربی دریائوں: چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی استعمال کرتا ہے۔ اب آبی وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی دوڑکا ارتکازنیلم کے دونوں کناروں پر بننے والے پن بجلی کے منصوبوںپر آگیا ہے۔ دریائے جہلم کا معاون دریاہونے کی وجہ سے نیلم دریا بھی معاہدے کے اعتبار سے پاکستانی حصے میں آتا ہے۔
پاکستان نے اس پر نیلم جہلم منصوبہ‘جبکہ بھارت نے اس پر کشن گنگا ڈیم کا منصوبہ بنایا۔ اب یہ کشمکش کہ کون پانی زیادہ لے جاتا ہے‘ کا تعلق اس سے ہے کہ زیادہ خون کون بہاتا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف ایک دوسرے کو سنگین لہجے میں تنبیہ کررہے ہیں‘ بلکہ اس معاملے کے تصفیے کے لیے قانونی جنگ بھی لڑرہے ہیں۔ نریندر مودی نے پاکستان کی کشمیر میں مبینہ مداخلتوں کے بعد ستمبر 2016 ء میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ''خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے ۔‘‘
یہ ممکن ہے کہ مسلح تصادم سے اجتناب کیا جائے‘ لیکن پانی پر جنگ جاری ہے ۔بھارتی وزیر اعظم نرندرمودی نے 19مئی کو 330 میگا واٹ کی گنجائش رکھنے والے تین یونٹس پر مشتمل کشن گنگا منصوبے ‘ جو سالانہ 1713 ملین یونٹس بجلی پیدا کرسکتا ہے ‘ کا افتتاح کیا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ اس پانی کا رخ موڑ دے گا‘ جو دریائے جہلم میں گرتا ہے ۔ اس پر پاکستان نے پی سی اے (Permanent Court of Arbitration, Hague) سے رجوع کیاتھا‘ لیکن پی سی اے نے بھارت کے حق میں فیصلہ سنایا اور اس دریا کے بہائو کو استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بنانے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ بھارت کے لیے رکھی گئی شرائط یہ تھیں کہ وہ ڈیم کی بلندی98 میٹر سے کم کرکے 37 میٹر ‘ اوردریا کے بہائو کو کم از کم 9 کیوسک رکھے گا۔ بھارت ان دونوں شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا‘ تاہم اب پاکستان نے یہ خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ بھارت ان شرائط کی خلاف ورزی کررہا ہے‘ عالمی بنک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 
پاکستان میں پانی کا ایشو بدعنوانی اور نااہلی کی نذر ہوچکا ہے ۔ کشن گنگا اور نیلم جہلم منصوبوں کا افتتاح دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے مئی اور اپریل میں کیا تھا؛ اگرچہ ہم پاکستان سے باہر جانے والے پانی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں‘ لیکن جو پانی پاکستان میں داخل ہورہا ہے ‘ وہ بھی غیر پیداواری ہے ۔ اور ہم اس کا کوئی عملی استعمال نہیں کرپاررہے ہیں۔ 1989 ء میںنیلم جہلم منصوبے کی تعمیر کا تخمینہ 15.2 بلین روپے تھے‘ لیکن انتیس سال ضائع کردیے گئے اور لاگت 506.8 بلین روپے تک پہنچ گئی۔ تعمیر کی لاگت میں یہ ہوشربا اضافہ ٹیکس دہندگان پر ایک بھاری بوجھ ہے ۔
واضح رہے کہ صارفین کئی برسوںسے بجلی کے بلوں پر نیلم جہلم سرچار ج ادا کررہے ہیں۔ اس اہم منصوبے کی تکمیل پر تین عشرے ضائع کردینا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے ۔ بھارت نے کشن گنگا منصوبے پر کہیں زیادہ پیش رفت کی ہے ؛ حالانکہ اس نے اسے بہت بعد میں شروع کیا تھا‘ تاہم اس تاخیر اور اربوں روپے خرچ کرکے بھی منصوبہ کام نہیں کررہاہے۔ نیلم جہلم منصوبے پر دوسرا گھائو یہ لگا کہ اس کے یونٹ نمبر 1(242.25 میگاواٹ) سے تیل لیک ہونا شروع ہوگیا۔ اس پر منصوبے کی انتظامیہ نے اکتیس مئی 2018 ء کواس کاآپریشن روک دیا۔ اس کا یونٹ نمبر 4 روٹر کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پہلے ہی بند کیا جاچکا ہے ۔ جون 2013 ء میں پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے آغاز سے لے کر اب تک منصوبے کی لاگت 274.9 بلین سے بڑھ کر 506.8 بلین روپے ہوچکی ہے ۔ یہ اضافہ 84 فیصد ہے ۔ پی ایم ایل (ن) حکومت کی آخری ECNEC میٹنگ میں‘ سیکرٹری پلاننگ نے شاہد خاقان عباسی کے سامنے‘ اس منصوبے میں ہونے والی بدعنوانی اور بدانتظامی کی کہانی رکھی تھی‘ لیکن شاہد خاقان عباسی نے اسے مسترد کردیا۔ اب 506.8 بلین روپے خرچ ہونے کی وجہ سے فی میگا واٹ لاگت 523 ملین روپے ہے ‘ جو کہ مقامی اور عالمی معیار سے کہیں زیادہ ہے ۔ 
اگر صورت حال یہی رہی‘ تو 2025 ء کے بعد پانی حاصل کرنے کے لیے پاکستانیوں کوبہت سے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ نیشنل واٹر پالیسی کو آبی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ نئے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی مقدار اور پروگراموں کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کی بھی کوشش کرنا ہوگی۔ سر پر منڈلانے والے عالمی سطح کے خطرے سے نمٹنے کیلئے تین اقدامات درکار ہیں۔کشن گنگا پر عالمی بنک سے ثالثی کرنے کی پاکستانی درخواست بہت حوصلہ افزا نتائج کی حامل نہیں ہے ۔ پہلا قدم یہ اٹھانا ہوگا کہ سینٹ کی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی اورآبی وسائل کو اٹارنی جنرل کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل دے کر ہماری قانونی ٹیم کے تیار کردہ کیس۔ اور اس کے معیار کا جائزہ لینا چاہیے کہ کس طرح بھارتی ٹیم نے عالمی پینلز میں ہمارے پیش کردہ کیسز کو مات دے دی۔ 
دوسرا یہ کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بجلی کے منصوبوں کا سوموٹو نوٹس لیا ہے ۔ اُن سے درخواست ہے وہ نیلم جہلم منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھیں اور بدعنوانی اور نااہلی کے ذمہ داروں کا تعین کریں۔ تیسرا یہ کہ ''پانی پاکستان ‘‘ جو سول سوسائٹی کی تحریک ہے ‘ کو سیاسی جماعتوں پر دبائو ڈالنا چاہیے ‘تاکہ کوئی واضح روڈ میپ تشکیل دے کر پاکستان کو آبی بحران سے بچایا جاسکے ۔ سیاسی جماعتوں کو یہ چیز اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنی چاہیے ‘ جس طرح 2013 ء کے انتخابات میں ووٹر کیلئے لوڈ شیڈنگ ایک انتخابی ایشو بنی تھی۔ اسی طرح 2018 ء میں پانی کو اہم ترین انتخابی ایشو بننا چاہیے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں