قانون اشرافیہ کے واسطے

قانون ساز قانون بناتے ہیں۔ قانون ساز ہی کسی ملک‘ جس کے وہ حکمران ہیں‘ کے قوانین کو تبدیل کرنے‘ انہیں توڑنے مروڑنے اور اُن میں تبدیلی لانے کے مجاز ہوتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ریاست میں قانون سازوں کا حقیقی کام ایسی قانون سازی کرنا ہوتا ہے‘ جو انصاف قائم کرے اور شہریوں کو اُن کے حقوق دے‘ تاہم جب قانون سازوں کا مقصد اپنے مفادات کا حصول ہو تو پھر ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں ‘جو اُن کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ قانون کی پابندی ‘ قانون کی حکمرانی اور قانون کے نفاذپر بہت سی باتیں کی جاتی ہیں ۔ یقینا ان موضوعات پر بات ہونی چاہیے ‘ لیکن اس بحث کا دائرہ کار پھیلاتے ہوئے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کون سے قوانین عوام کے مفاد میں ہیں اور کون سے اس کے برعکس۔ بدقسمتی سے قوانین کو بھی مذہب کا درجہ دے دیا جاتا ہے کہ ان پر سوال نہ اٹھائے جائیں‘ ان پر نکتہ چینی نہ کریں‘ انہیں تبدیل نہ کریں‘ بشرطیکہ یہ قانون بنانے والوں کے مفادات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ 
کچھ قوانین مقدس گائے بن چکے‘ انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ پولیس کے قوانین‘ جو پاکستان کے تین صوبوں‘ پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ میں نافذ ہیں‘ انہیں 1861 ء میں برطانوی راج نے بنایا تھا۔ اس طرح یہ قوانین ایک سو پچاس سال پرانے ہیں‘ لیکن ان تینوں صوبوں کے قانون ساز ان دقیانوسی قوانین کے ساتھ خوش ہیں‘ کیونکہ یہ اُن کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ ہے‘ جس نے ان قوانین کو تبدیل کرتے ہوئے ''کے پی کے پولیس ایکٹ 2017ئ‘‘ متعارف کروایا ہے ۔ 
ہمارے ''معزز قانون ساز‘‘ اپنے استحقاق اور مراعات کیلئے قوانین میں کئی طرح کی تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں‘ جیسا کہ ائیرپورٹس پر وی آئی پی لائونج‘ پروٹوکول اور ٹول بوتھ پر ادائیگی سے استثنا وغیرہ اس کی چندایک مثالیں ہیں ۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب اُن کی اپنی مراعات کا معاملہ ہو تو وہ کتنے مستعدد اور فعال ہوجاتے ہیں ‘ لیکن جب عوام کوفائدہ یا بنیادی حق فراہم کرنا ہو تو وہ سستی اور بے حسی کے پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ 
مذکورہ پولیس ایکٹ کی بات کرلیتے ہیں۔ اسے کیوں کبھی نہیں چھیڑ ا گیا؟اس لیے کہ یہ قانون سازوں کے مفادات سے عین مطابقت رکھتا ہے ۔ پولیس ایک قانون نافذکرنے والا ادارہ ہے ‘ تاہم تاریخی طور پر یہ صرف غریب‘ لاچار‘ کمزور اور بے کس افراد پر ہی قانون نافذ کرتا ہے ۔برطانیہ کا بنایا گیا 1861 ء کا پولیس ایکٹ اس ادارے کو پولیس سروس کی بجائے پولیس فورس کا نام دیتا ہے ۔ اس نام کا انتخاب جان بوجھ کر کیا گیا تھا‘ کیونکہ پولیس فورس کا مقصد برِ صغیر کے عوام کو دباکراُن پر تسلط جمانا تھا۔ 
اُس وقت برطانوی سلطنت غیر ملکی سرزمینوں پر قبضہ کررہی تھی ۔ اُسے قانون کی آڑ میں ایک ایسی بے رحم طاقت کی ضرورت تھی ‘جو اس کے عزائم میں معاون ثابت ہو۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اس برطانوی ورثے کو محفوظ رکھا ‘ تاکہ اس آہنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے‘ اُن افراد کو خوفزدہ رکھیں‘ تشدد کریں اور سزائیں دیں‘ جو اُن کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کریں۔ اس فرعونیت کی ایک کلاسیکی مثال لاہورکے ایک لینڈ مافیا گروپ کی دادگیری ہے ۔ اس خاندان کے زیادہ تر افراد ارکان ِ پارلیمنٹ میں رہے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے علاقے ‘ جوہر ٹائون میں زمینیں ہتھیاکر یا اُن پر اپنی ''فورس‘‘ جیسا کہ منشا بم یا پولیس فورس کے ذریعے غیر قانونی قبضہ کرکے بے اندازہ دولت بنائی ۔ اُنہوں نے غریب افراد‘ جن میں یتیم اور بیوائیں بھی شامل ہیں‘ کی زمینوں پر قبضہ کرکے اپنا محل بنایا۔ اب یہ پولیس نہیں ‘بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں‘ جنہوں نے سوموٹو نوٹس لیا‘تو اس قبضہ مافیا کی اربوں روپوں کی ناجائز جائیدادوں کا انکشاف ہوا ۔ 
ذہن کو مائوف کردینے والا ایک قانون''پروڈکشن آرڈر‘‘ہے ۔ یہ انتہائی انوکھا قانون جیل میں قید ارکان ِپارلیمنٹ کو اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کی اجازت دیتا ہے ۔ قومی اسمبلی کے ''رول آف پروسیچر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس ‘‘ کا رول نمبر 108 کہتا ہے کہ اگرناقابل ِ ضمانت جرم میں گرفتار کسی رکن ِ پارلیمنٹ یا کمیٹی کے کسی ممبر کی اسمبلی میں موجودگی ضروری ہو تو سپیکر یا کمیٹی کا سربراہ اُ س کے پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتا ہے ۔ 
ذرا تصور کریں کہ اس سے کیسے مالیاتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ''سزا یافتہ مجرم ‘‘ کو جیل سے نکال کر اسمبلی تک پہنچانے میں بھاری رقم خرچ ہوتی ہے ۔ بعض اوقات تو کسی قیدی کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کیلئے خصوصی طیارہ بھی استعمال کرنا پڑتاہے ۔ اس کا بوجھ بھی ٹیکس دہندگان کو برداشت کرتے ہیں ۔ انہیں اسمبلی اور پھر وزرا کے انکلیو میںرکھنے پر اٹھنے والے اخراجات ٹیکس دہندگان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے‘ کیونکہ یہ شہری اس نام نہاد اشرافیہ کے ہاتھوں پہلے ہی لٹ چکے ۔ اب جب انہیں سزا ہوئی ہے‘ تو وہ ایک بار پھر اُن کی رقم سے استفادہ کررہے ہیں۔ اس طرح مجرموں کو سزا دینے کا تمام مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ ایک مرتبہ پھر پروٹوکول‘ سکیورٹی اور ایوان کے حصار میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاثر ی دیا جاتا ہے کہ اسمبلی کی کارروائی ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ؛ چنانچہ پروڈکشن آرڈر اس حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ کس طرح قانون ساز سزا کے بعد بھی اپنے استحقاق کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 
Pakistan Prisons Rule 1978 کا رول نمبر 242 ایک اوروی آئی پی قانون ہے ‘جو قیدیوں کو مختلف درجوں کی سہولیات کی اجازت دیتا ہے ۔ نواز شریف کو پہلے اور اب ''بیٹر ‘‘ یا بی کلاس سہولیات دی گئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جیل میں میٹرس‘ فرنیچر‘ کپڑے اور گھر کا کھانا کھانے اور چہل قدمی کیلئے لان اور پڑھنے کے لیے اخبار کی سہولت میسر ہوگی ۔یہ ہوٹلوں جیسی سہولیات حاصل کرنے کے مترادف ہے؛ بشرطیکہ آپ ادائیگی کرسکتے ہوں۔ ذرا غور کریں کہ اُن پر الزامات کیا ہیں اور سزا اور جرمانے کی کیا نوعیت ہے ۔ معمولی چور‘ جنہوں نے چند ہزار چرائے ہوتے ہیں‘ انہیں قیدیوں سے ٹھونسی ہوئی جیلوں میں انتہائی غیر انسانی ماحول میں رکھا جاتا ہے ‘ لیکن سیاسی قیدی‘ جیسا کہ نواز شریف اور شرجیل میمن کو بیٹر کلاس سہولیات سے نوازا جاتا ہے ۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی؟ اس قانون سے بھی نوآبادیاتی ذہنیت جھلکتی ہے ۔ انگریز و ں کے دور میں تعلیم کی بنیاد پر جیل میں بہتر سہولیات ملتی تھیں‘ یعنی کہ بہتر تعلیم یافتہ مجرم‘ جو کہ انگریز ہوتے تھے ‘ انہیں جیل میں فور سٹار سہولیات ملتی تھیں ‘ جبکہ عام باشندے تنگ و تاریک تہہ خانوں میں ڈال دئیے جاتے تھے ۔ 
اب وقت بدل گیا ہے‘ لیکن ذہنیت تبدیل ہونا باقی ہے ۔دنیا بھر کی جمہوری ریاستوں میں عوامی نمائندوں کو عوام کی ضروریات کے تابع سمجھا جاتا ہے ۔ گویا جمہوریت میں عام شہری کے حقوق کا احترام ہر چیز پر مقدم ہے ۔ برطانیہ میں ارکانِ پارلیمنٹ محض دوسو پائونڈز رقم خرچ کرنے‘ جس کا وہ استحقاق نہیں رکھتے تھے‘ پر بھی استعفیٰ دیتے دکھائی دئیے ہیں۔ وہ عام رہائش گاہوں میں رہتے ہیںاور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوئے اپنے دفاتر میں جاتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ارکان ِپارلیمنٹ خود کو عام شہریوں سے بالا تر بنانے کیلئے قانون سازی کرتے ہیں۔ جب یہ طے کیا گیا کہ ائیر پورٹس پر ارکان ِ پارلیمنٹ کو وی آئی امیگریشن اور لائونج کی سہولیات حاصل نہیں ہوں گی‘ تو دو اہم سیاسی جماعتوںسے تعلق رکھنے والے مشہور سینٹرز آپے سے باہر ہوگئے ۔ شدید احتجاج کیا کہ اُن کی منشا کے بغیر یہ ''روایتی استحقاق ‘‘ ختم کرنے کی جرأت کیوں ہوئی؟! ۔ 
قانون سازوں کا فرض صرف قانون سازی نہیں ‘ بلکہ اُنہوںنے آئین‘ انصاف اور مساوات کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کرنی ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے ابراہم لنکن کا کہنا ہے ''کوئی د ر ست قانون مجھے غلط کام کرنے کا حق نہیں دیتا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں