غفلت اور نرمی

یہ پھرتیلا پن دکھانے کا وقت ہے ۔ تبدیلی کے دور میں مستعدی ترجیحی بنیادوںپر اختیار کی جاتی ہے ۔مستعدی کا مطلب تبدیلیوں کے تناظر میں کسی کمپنی یافرد کی چستی دکھانے اور بروقت کام کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ناموزوں افراد اپنے اور دوسروں کیلئے بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ ناموزوں تنظیمیں سست اورغیر فعال ہوتے ہوتے آخر کار عد م استحکام کا شکار ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول میں جہاں ٹیکنالوجی چیزوں کو راتوں رات متروک بنا دیتی ہو‘ اور جہاں معلومات کی شاہراہ پر پلک جھپکتے ہی آگاہی کی منازل طے ہو جاتی ہوں‘ غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کرنا ایک معمول ہے ‘ جس دوران نجی شعبے میں کام کرنے والی تنظیمیں ‘اس میدان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں‘ پبلک سیکٹر کو تیزی رفتاری کے معانی بھی ہضم نہیں ہورہے ۔ پبلک سیکٹر کی افسر شاہی کے پاس ''تیز رفتاری کے احمقانہ تصور ‘‘ کا تیر بہدف تریاق موجود ہے ۔ 
ایوان ِ بالا کی ایک ریگولیٹری‘ اخلاقی اورانضباطی کمیٹی کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیں؛ یہ پبلک سیکٹر میں چلنے والی ایک انٹر پرائز کی سرزنش کررہی تھی کہ وہ ایمانداری‘ تنظیم اور مستعدی دکھانے کی کوشش کیوں کررہی ہے ۔ ایوی ایشن پر سینٹ کی کمیٹی نے پاکستان کی سرکاری فضائی کمپنی کی انتظامیہ کو طلب کیا۔ اس انتظامیہ نے جعلی ڈگریاں رکھنے والے 121 ملازمین کو برطرف کیا تھا۔ کمیٹی نے بھرتی کے وقت جعلی تعلیمی اسناد پیش کرنے والے سٹاف پر سختی نہ کرنے کا کہنا ۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ کمپنی ایسے ملازمین کو معمولی سی سزا دے کر معاملہ ختم کرے ۔ اس سے زیادہ گنوار پن اور کیا ہوگا؟ دنیا میںپبلک سیکٹر میں انٹر پرائزز چلانے کا تصور مقبول نہیں ۔ ان کا نام آتے ہی لاتعلقی اور بہتری سے انحراف کا تصور ابھرتا ہے ۔ پاکستان میں یہ غیر فعالیت اور فرسودہ پن کی علامت بن چکیں‘ ان تنظیموں کو چلائے رکھنا ملکی وسائل کے ساتھ بے حسی کا مظاہرہ کرنے کے مترادف ہے ۔ ان میں سے بہت سی تنظیموں کی قیادت سیاسی عہدیداروں کے سپرد کی جاتی ہے ۔ تقرریاں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ تنظیمیں ایک چور دروازے کا کام دیتی ہیں۔ یہاں عوام‘ جن کے ٹیکس کے پیسے سے ان کی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں اور جو اس نظام کے حقیقی حکمران ہیں‘ کو مطلق خاطر میں نہیں لایا جاتا‘ بلکہ پبلک سیکٹر میں عوامی فلاح کا تصور ہی ناپید ہے ۔ 
انتظامیہ کا کاکردگی کا کڑا معیار مستعدی کی ضمانت ہوتا ہے ۔ نجی کمپنیاں ہر سال اور ہر سہ ماہی پراپنے شیئرہولڈرز کے سامنے جواب دہ ہوتی ہیں۔ کارکردگی میں گراوٹ آنے پر سی ای او اور اعلیٰ انتظامیہ کو گھر جانا پڑتا ہے ۔ تاخیر‘ نااہلیت اور نظم و ضبط سے انحراف مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر تادیبی کارروائی عمل میں آتی ہے ۔ پبلک سیکٹر میں بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ وہاں پابندی وقت ایک مذاق بن جاتا ہے۔ ڈسپلن کو غیر ضرور ی اور مستعدی کو حماقت سمجھا جاتا ہے ۔ 
الغرض اس صدی کے چار اہم ایشوز‘ پیچیدگی‘ غیر یقینی پن‘ ابہام اور غیر متوقع تبدیلیاں ہیں۔ ان سے نمٹنے کیلئے مستعدی کی ضرورت ہے ۔ تیل کی قیمتوں سے لے کر بریگزٹ تک‘ عالمی ماحول کے بارے میں پیش گوئی‘ اندازہ لگانا یا اس کے غیر متوقع پن کے سامنے پیش بندی کرنا ناممکن ہوچکا؛ اگرچہ نجی شعبے میں چلنے والی تنظیمیں ناگہانی صورت ِحال کیلئے پلاننگ کرتی ہیں‘ لیکن پبلک سیکٹر میں کسی قسم کی طویل المدت پلاننگ کا تصور خارج ازامکان ہے ‘ بلکہ یہاں پلاننگ کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تقرریاں چند سال کیلئے ہوتی ہیں؛ چنانچہ اُن کی کارکردگی کی کوئی جانچ نہیں ہوتی۔ احتساب کے فقدان کی وجہ سے افسران غفلت شعار ہوجاتے ہیں۔ اُن کی کارکردگی کا پیمانہ یہی ہے ''جلدبازی سے گریز کریں۔‘‘پبلک سیکٹر کا افسر ''رولز آف بزنس ‘‘ رکھتا ہے ۔ یہ فرسودہ قوانین بزنس میں سہولت کی بجائے سرکاری افسر کے مفاد کا تحفظ کرنے کیلئے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ وہ افسر ان قوانین کی آڑ میں اپنی ناقص کارکردگی چھپانے‘ غلط کو صحیح کردکھانے اور بے ضابطگیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہتا ہے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز غیر فعال ہیں اور اُن پر بھاری وسائل بھی ضائع ہورہے ہیں۔ ان سے وابستہ لوگ کما تو کچھ نہیں رہے ‘ بلکہ اپنا حصہ وصول کررہے ہیں۔ ان کے قوانین تبدیل کرنے کی ہر کوشش کے سامنے مافیا سیاسی اور قانونی رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں۔ پبلک سیکٹر میں چلنے والی تنظیموں کو مستعد اور فعال بنانے کیلئے کیے گئے بہت سے تجربات ناکام ہوچکے‘سیاسی وفاداروں کی تقرری ان تنظیموں کیلئے تو تباہ کن تھی ہی‘ پروفیشنل افراد کی تقرری کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروفیشنل افراد اس میدان میں آتے ہی اپنے خلاف فعال ہوجانے والی لابیز کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ سرکاری افسران؛ چونکہ ''رولز آف بزنس‘‘ کو بہتر طور پر جانتے ہیں‘ اس لیے وہ ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں‘ جس میں پروفیشنلز تنظیم کی بہتری کیلئے مشکل فیصلے نہیں کر پاتے ؛ اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو وہ نہ ختم ہونے والی قانونی جنگ میں الجھا دیے جاتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے ملنے والے حکم امتناع کی وجہ سے فعالیت محدود‘ بلکہ مسدود ہوجاتی ہے ؛ چنانچہ استعفیٰ دے کر گھر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا ایسا ہی مخصوص کیس ہے ۔ کئی عشروں سے اسے غیر پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلایا جارہا ہے ۔ بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ سنگین بحرانوں کی زد میںہے ۔ کئی سال سے اس کے مالیاتی وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ اب یہ ایئرلائن چارسو بلین روپے کے خسارے تلے دبی ہوئی ہے ۔ جب بھی آپ اس کا جائزہ لیتے ہیں یا اس کے ذریعے پرواز کرتے ہیں تو آپ کو نقصانات کا اندازہ ہونے لگتا ہے ‘ لیکن آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ا س میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنے والے شخص کو تبدیل کردیا جائے گا۔اس کی حالت سدھارنے کیلئے کی جانے والی حالیہ تبدیلیوں کا کچھ مثبت اثر دکھائی دینے لگا تھا۔ کئی سال تک خسارے میں چلنے کے بعد 2019 ء کی پہلی سہ ماہی میں کچھ بہتری کے آثار دکھائی دئیے ۔یہ مستعد‘ فعال اور دیگر فضائی کمپنیوں سے مسابقت کے قابل ہوسکتی تھی۔اس کی کوششیں شروع تھیں؛حالانکہ یہ ابھی بھی فالتو عملے اور غیر ضروری اخراجات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور مشکوک تعلیمی اسنا د رکھنے والا عملہ اور اُنہیں بھرتی کرنے کا جواز اس کے وسائل نچوڑ رہا ہے ۔
تاہم بہتری کے باوجود سینٹ کی کمیٹی چاہتی ہے کہ جعلی ڈگریاں رکھنے والے 121 افراد ‘ جن میں پائلٹس بھی شامل ہیں‘ کو 'نرم سزا‘‘ دی جائے ۔ ذرا تصور کریں کہ طیارہ ایک ایسے شخص کے حوالے کردیا جائے‘ جو پائلٹ ہونے کی باقاعدہ سند نہیں رکھتا۔ قانونی برادری میںایسی نرمی دینا توہین ِعدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ زیادہ تر ممالک میں اسے جرم کی معاونت کے مترادف سمجھا جائے گا۔ کسی اور ممالک میں ایسا کرنے والی فضائی کمپنی کا لائسنس معطل کردیا جاتا ۔ بہت سے معاشروں میں ایسا رویہ اختیار کرنے والی کمپنی کا بائیکاٹ کردیا جاتا کہ اس نے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ‘ لیکن پاکستان میں ''سب چلتا ہے ‘‘یعنی سستی اور غفلت کو برداشت کرنا کوئی ہم سے سیکھے ۔ ناقص کارکردگی‘ اخلاقی انحراف‘ قانون کی خلاف ورزی‘ پیشہ وارانہ بددیانتی کو ''رولز آف بزنس ‘‘ کے قالین تلے چھپا دیا جاتاہے ۔
آپ کو بس یہ کرنا ہے کہ عدالت جائیں اورحکم امتناع حاصل کرلیں۔ حکم امتناع کے کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ کئی نگران وائس چانسلر حکم امتناع حاصل کرکے کئی سال تک عہدوں پر براجمان ہیںاور ان کی وجہ سے جامعات کو بھاری نقصان اور اُن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے طلبا کا مستقبل تباہ ہورہا ہے ۔ گویا ہم ایک جگہ کھڑے ہیں۔ آگے بڑھنے سے گریزاں اداروںسے مستعدی اور پھرتی کی توقع رکھنا عبث ہے۔دوسری طرف پبلک سیکٹر میں چلنے والی تنظیموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے عمل میں ''سٹے‘‘ اور ''موو‘‘ کے درمیان خلیج قانونی نہیں‘ بلکہ نفسیاتی چیلنج ہے اور یہ خلیج بوجھ اور اثاثوں کے درمیان بھی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں