متحد رہو‘ راج کرو

'تقسیم کرو اور راج کرو‘ ایک منحوس اور مطعون پالیسی تھی۔ تاریخی طور پر اس پالیسی کا الزام برطانوی راج کے سر جاتا ہے۔ اس نے اُن علاقوں ‘ جہاں اپنا نظام قائم کرنا تھا‘ میں ایک حکمت ِعملی کے تحت متحارب دھڑوں کے درمیان کشمکش کی آگ دہکائی‘ اس پر تیل گرایا اور اسے ہوا دی ‘لیکن پھر آزادی کی تحریکوں نے خاص طور پر بر صغیر میں‘ اس نظام کو اکھاڑپھینکا۔ اس کشمکش کی اہم مثال وہ تقسیم تھی ‘جس نے کشمیر کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ‘ اور سرحدی کشمکش کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک تنازع بنادیا۔
1970ء اور 1980ء کی دہائیاں‘ امریکہ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس نے مشرق ِوسطیٰ میں یہی پالیسی اپنائی۔ ایران‘ عراق‘ کویت ‘ سعودی عرب ‘ یمن اورحالیہ دنوں شام میں ہونے والی جنگ اسی پالیسی کا مختلف شکلوں میں اظہار ہے ۔ بنیادی طور پر دوممالک کے درمیان جنگیں اب ‘پیچیدہ اور کثیر الجہت خانہ جنگیوں میں بدل چکی ہیں۔ امریکہ اور روس ‘پس ِ پردہ رہتے ہوئے خانہ جنگی کو شہ دیتے اور اپنی تابعدار حکومتوں یامختلف دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے مغرب کا عروج اور مشرق کا جمود عالمی نظام کا طے شدہ نمونہ رہا ہے۔مشرقی ایشیا کے ٹائیگر ‘چین کا مغربی بالا دستی کو چیلنج کرنا ابھی حالیہ پیش رفت ہے ۔ مسلم دنیا‘ خاص طور پر تیل پیدا کرنے والے دولت مند ‘لیکن آمرانہ مزاج کی بادشاہت رکھنے والے ممالک دنیا کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شریک ہونے کی بجائے خوفناک خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ ان دونوں خطوں کی ترقی کے انڈیکس میں اہم فرق تاریخ سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے میں کامیابی یا ناکامی ہے ‘ جس دوران مغرب نے ایک مشترکہ معاشی بلاک بنایا اور اپنے وسائل اکٹھے کیے‘ مسلم ممالک تاریخ کی دلدل سے نکلنے اور دنیا میں میسر مواقع کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہے ۔ یورپ نے ستائیس ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک بنایا‘ جبکہ مسلم ممالک نے او آئی سی‘ خلیج تعاون کونسل وغیرہ بنائیں‘ لیکن انہیں عظیم تجارتی بلاکس میں تبدیل نہ کرسکے ۔
ادھر یورپ میں دوسری جنگ ِعظیم کے بعد سنگل مارکیٹ کا تصور ابھرا۔ کشمکش اور جنگوں کی تاریخ رکھنے والے منقسم یورپ کی جگہ ایک متحد یورپ‘ یورپی یونین ‘ قائم کرنے کیلئے 1950 ء میں The Treaty of Maastricht عمل میں آئی ۔ اگلی نصف صدی تک یورپ کے ستائیس ممالک مشترکہ مارکیٹ‘ مشترکہ کرنسی اور آخر میں ایک سیاسی یونین کی صورت ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آتے گئے۔ مسلم دنیا نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے جومشترکہ بلاکس بنائے ‘ اُن میں او آئی سی نمایاں ہے ۔ا س کا قیام 1969ء میں عمل میں آیا۔ اس کا پہلا اجلاس القدس میں الاقصیٰ مسجد کو نذر ِآتش کرنے کے ایک ماہ بعد منعقد کیا گیا۔ یہ مذموم واقعہ اکیس اگست1969ء کو اُس وقت پیش آیا ‘جب ایک آسٹریلوی سیاح نے مرکزی مسجد کو آگ لگا کر 800 سال پرانا صلاح الدین منبر تباہ کردیا۔ اس واقعے کے ردِ عمل میں بائیس اور پچیس ستمبر کو چوبیس اسلامی ممالک کے نمائندے مراکش کے شہر ‘ رباط میں اکٹھے ہوئے ۔ یہ اوآئی سی کا پہلا اجلاس تھا۔ دوسرا اجلاس فرور ی 1974 ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس میں کم وبیش 35ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کا اعلامیہ ''اسلامی اقوام کا اتحاد کسی قومیت ‘ نسل یا ثقافت کے خلاف نہیں ‘‘ تھا۔ آج اس کے ارکان کی تعداد قریباً دوگنی ہوکر57 ہے ‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اثر پذیری کم ہوتی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں اور الائنسز کی بنیاد مشترکہ نظریات ‘ اور انہیں نافذ کرنے کی ذمہ داری پرہوتی ہے ۔ او آئی سی کا مرکزی بیانیہ کہتا ہے کہ یہ ''مسلم دنیا کی مشترکہ آواز ہے ‘‘ جو ''مسلم دنیا کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے ‘‘ بلاشبہ یہ ایک بامعانی اور غیر متنازع بیانیہ دکھائی دیتا ہے ‘ لیکن افسوس‘ یہ بیانیہ بذات ِخود تنازعات کا شکار ہوچکا ہے ۔ او آئی سی کے مرکزی اراکین کے مشترکہ مفادات کے ٹکرائو نے اس تنظیم کی حیثیت رسمی کردی ہے۔ اسلامی دنیا گاہے گاہے اجلاس بلا کر اسے ادارے کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ 
ایک عالمی الائنس کی فعالیت کیلئے سب سے اہم شرط مشترکہ مفاد کا ہونا ہے ۔ یورپی یونین میں جغرافیائی‘ معاشی اور سیاسی مفادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ او آئی سی میں معاشی اور سیاسی مفادات کی بجائے محض ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ شراکت داری کو فعال رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ شراکت دار ذمہ داری اٹھائیں۔ یورپی یونین کے ممبران الائنس کے ذریعے آپس میں تجارتی رشتے میں جڑ گئے ۔ تین سو ملین صارفین پر مشتمل عظیم مارکیٹ نے ہررکن ملک کو فائد ہ پہنچایا۔ کم ترقی یافتہ ممالک‘ جیسا کہ یونان اور پرتگال کو معاشی پیکج ملے ۔ یورپ کی اعلیٰ جامعات اور فنی تعلیم کے مراکز کی مشترکہ کاوشوں نے علم کی بنیاد مضبوط کرتے ہوئے یورپ کو مسابقت کی دنیا کا اہم ترین کھلاڑی بنا دیا۔ا س کے برعکس اسلامی بلاکس کبھی کبھار کوئی قرار داد منظور کرلیتے ہیں‘ جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؛ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ اقوام ِ متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے ‘ لیکن اس کی کارکردگی برائے نام ہے ۔ اس کی وجہ اس کے اندر تقسیم کی لکیریںہیں‘ نیز اس کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں ۔ اسلامی دنیا کو اپنی صلاحیتوں کو ترقی دینے اوراپنے لیے امکانات اور مواقع پیدا کرنے کے لیے مندرجہ ذیل خطوط پر غور کرنا ہوگا:۔
1۔ ایک نیا تصور‘ یا نیا بلاک قائم کرنا۔ یا تو او آئی سی کو اپنے مشن پر نظر ثانی کرتے ہوئے‘ اسے جامع اور ہمہ گیر بنانے یا پھر جدید امکانات کے حامل کسی نئے بلاک کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت ہے ۔ وہ مشن اپنی جگہ پر درست ہے‘ جو ''مسلمانوں کی ایک مشترکہ آواز ‘‘ کی بات کرتا ہے ‘ لیکن ضروری ہے کہ یہ ''مشترکہ آواز‘‘ مذہبی اور سیاسی اختلافات سے بلند ہو۔ تنازعات کے حل کیلئے مختلف مکاتب ِفکر پر مشتمل ایک کمیٹی ہو‘ جو مغربی طاقتوں کو اسلامی دنیا کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے سے روکے ۔ 
2۔ وسیع تر معاشی انحصاری۔ شراکت داری اور مفاد کی ہم آہنگی ذمہ داری کو یقینی بناتی ہے ۔ یورپی یونین کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ مشترکہ معاشی مفادات تھے۔ بریگزٹ کو اسی لیے تشویش ناک نظروں سے دیکھا جارہا ہے‘ کیونکہ اس بلاک سے نکلنے کی صورت میں برطانیہ معاشی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے ۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ایپک کی طرز پر ایک نیا مجوزہ بلاک ‘ AATAD (ایشیا‘ افریقاء ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ) تشکیل دیا جانا چاہیے ۔ 
3۔ علم کی ترقی پر توجہ۔ دنیا کی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ آپ علم اور اختراع کے شعبوں میں آگے ہوں۔ سائنٹیفک ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے او آئی سی کے ارکان پر مشتمل مجلس قائمہ ‘ COMSTECH پاکستان میں ہے ۔ ضرور ی ہے کہ اس کا معیار اور فعالیت بڑھائی جائے ‘ تاکہ یہ علم اور معیشت کو ہم آہنگ کرے‘ اور ایشیائی او ر افریقی یونیورسٹیوں کو مستقبل میں ترقی اور اختراع کی راہ دکھائے ۔ 
جب ہم جانتے ہیں کہ مغر ب نے 'تقسیم کرو‘ اور راج کرو‘ کا کھیل کھیلا ‘ تو اب ہمارے سامنے اس کے برعکس آپشن موجود ہے : 'متحد رہو‘اور راج کرو‘! اس کے لیے مشترکہ مفاد کو آگے بڑھانا ہوگا۔جب مسلم ممالک کامالی اور معاشی مفادباہم مربوط ہوگا ‘ ان ممالک کو مل کر کام کرنے اور مشترکہ اہداف حاصل کرنے کی تحریک ملے گی ‘ تب ہی اس کی آو ازعالمی اور موثرہوگی!! ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں