پاک بھارت تعلقات: ٹریک ٹو سے ٹریک ون تک

جنگ کے سائے امن کو نگل لیتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاک بھارت تعلقات کواس بری طرح زک پہنچی کہ ان کی بحالی کی بات کرنا وقت کا ضیاع دکھائی دیتا تھا ‘ لیکن غلط کے ساتھ صحیح کا آپشن بھی ہوتا ہے۔ ہم پلوامہ کے بعد چھوٹے پیمانے کی جنگ سے دوچار تھے‘ لیکن تعلقات کی بحالی سنگ میل نہیں‘ سفر کا نام ہے ۔ اور ہر سفر کی طرح اس میں اچھے موڑ بھی آئیں گے اور برے ‘ بلکہ خطرناک بھی ۔ تاریخ ِعالم بتاتی ہے کہ جنگیں خوفناک ہوتی ہیں‘ انسان بے پناہ تکلیف اٹھاتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود جنگیں ہوتی ہیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگوں کے بعد سیکھنے‘ اور آگے بڑھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں‘ تاہم اس بات کا تمام تر دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کے لیڈر ا ور لوگ کیسے ہیں۔ 
پاکستا ن اور انڈیا کے درمیان جنگ کے بعد کے منظر نامے میں سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے مراحل دکھائی دیتے ہیں ۔ انڈیا میں اپریل میں انتخابات ہوئے‘ اور پلوامہ کے بعد جنگی بیانیہ شدت اختیار کرتا گیا۔ تجارت رک گئی‘ فضائی راستے بند ہوگئے ‘ اداکاروں پر پابندیاں لگ گئیں‘ اہم تزویراتی ملاقاتیں منسوخ ہوگئیں۔شاید بھارتی قومی سلامتی کے ایشو پرہونے پر انتخابات کو اس مصالحے کی ضرورت تھی اور اس کا فائدہ بھی ہواکہ بی جے پی بھاری اکثریت سے جیت گئی ۔ ضرور ی نہیں کہ یہ پاکستان کے لیے برا ہو ‘ کیونکہ ایک زیادہ پراعتماد حکومت زیادہ دلیرانہ اقدامات اٹھاسکتی ہے ۔ جیساکہ بات چیت‘ تجارتی روابط‘ ملاقاتوں کی بحالی۔ ابھی اگلے بھارتی قدم کا انتظار ہے ۔ ادھرپاکستان پرامن رہنے اور مذاکرات کی بحالی کی پالیسی پر کاربند ہے ۔ 
جہاں راستہ مسدود ہو‘ وہاں دیگر نئے راستے نکل آتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیاسی تعطل کے دوران متبادل راستے تلاش کرنے ہیں۔ چاہے کتنے ہی دشوار اور دور افتادہ کیوں نہ دکھائی دیں۔ ضرور ی کہ ہے عوامی سطح پر رابطہ بحال کیا جائے۔ ہوا تیز ہوگی‘ لیکن دیا جلانا ہے۔ اندھیرے کا مقابلہ روشنی سے ہی کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں حالیہ ٹریک ٹو مکالمہ قابل ِ تحسین ہیں۔ اس مکالمے کا عنوان ''سیاست اورتنقید سے آگے--- مشکل راہ پر نئے سفر کا آغاز‘‘تھا اور اس کی میزبانی ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ ‘ اسلام آباد نے کی ۔ یہ مکالمہ اس پیش رفت کا پہلادور تھا‘ دوسرا دور ستمبر میں نئی دہلی میں ہوگا۔ اس مکالمے میں انڈیا سے چھے رکنی وفد شرکت کررہا ہے ۔ 
ٹریک ٹو مکالمے کا عنوان اپنی وضاحت خود کررہا ہے ۔ ایک مشکل راستے پر نئے سفر کا آغازاُس صورت ِحال کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک جنگی صورت ِحال سے باہر آئے ہیں‘تاہم جنگی ماحول جاری رکھنے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی ۔ یہ قیمت ناصرف دونوں ممالک‘ بلکہ خطے کو بھی ادا کرنی ہے ۔ایک طرف افغانستان کی صورت ِحال علاقائی سکیورٹی کے لیے ایک مستقل خطرہ ‘ تو دوسری طرف ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتا ہوا تنائو ۔ اس عالم میں ایٹمی طاقت رکھنے والے دونوں ہمسایوں کے درمیان تصادم دنیا کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی صورت ِحال کو اس نہج تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ٹریک ٹو اور‘ اگر ضروری ہو تو ٹریک تھری بھی چاہیے۔ ٹریک ٹو عوام کے درمیان رابطہ ہے۔ ٹریک تھری ایک مجوزہ پیش رفت ہے کہ دیگر کھلاڑیوں کے ذریعے غیر روایتی سیاسی لائنز پر کام کیا جائے ۔ اس حوالے سے انڈیا کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کرتارپور بات چیت مفید اقدام ہے۔ یہ راہداری مختلف دھڑوں کے درمیان ایک پل بن کر دونوں حکومتوں پر تعلقات کی بحالی کے لیے دبائو ڈال سکتی ہے ۔ سپورٹس اور کلچر پر نامعقول پابندی کا خاتمہ اس بیک ڈور مکالمے کا پہلا ہدف ہونا چاہیے ۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ انڈیا اور پاکستان عالمی مقابلوں میں تو ایک دوسرے سے کرکٹ میچ کھیلتے ہیں‘ لیکن ایک دوسرے کے ملک میں نہیں۔ پاکستان میں ادبی تہوار میں شرکت کے لیے نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی جیسے فنکاروں کا آنا‘ اور بالی ووڈ میں گانے کے لیے راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کا جانا دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ ثقافتی تعلق کا اظہار ہے ۔ فن ‘ کھیل کود اور ثقافتی رشتے کی بحالی کی تحریک ناگزیر ہوچکی ہے ۔ 
دونوں ممالک کے درمیان توانائی سے بھرپور‘ متحرک عامل قوت تیس سال سے کم عمرنوجوان ہیں‘ جو پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد‘ اور انڈیا کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں‘ لیکن دیکھنا ہے کہ ہم اس قوت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے سات سو ملین نوجوان افراد روایتی نوجوان طبقہ نہیں۔ یہ نئی صدی کے نوجوان ہیں‘ جن کی طاقت صاحبان ِاقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے‘ اُن کی ترجیحات کا رخ موڑ سکتی ہے ۔ نئی صدی میں جنم لینے والے یہ نوجوان سابق نوجوان (Millennials) نسلوں سے بہت مختلف ‘ اور کہیں زیادہ بااثر ہیں۔ اعتماد‘ ارادہ‘ کامیابی‘ تخلیق اور تبدیلی اُن کی خوبیوں کا خلاصہ ہے ۔ یہ وہ نسل ہے‘ جو ماضی کی تاریخ سے متاثر نہیں‘ اور نہ ہی اس نے تقسیم کے تنائو میں آنکھ کھولی ہے ۔ یہ افراد امکانات کو تلاش کرنا اور روایتی راہوں سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔عالمی سیاسی حرکیات کو اپنے والدین سے کہیں زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے جسمانی ملاقات بے معانی ہے ۔ اگر‘ ویزے کا ایشو حل نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں ‘ سوشل میڈیا کی دنیا کھلی ہے ۔یہاں ابلاغ کے لامحدود مواقع ہیں۔ ضروری ہے کہ ٹریک ون‘ ٹو ‘ تھری‘ اور بہت سے دیگرخطوط پر مندرجہ ذیل تین امکانات کے لیے کام کیا جائے :
1۔ سرحد کے دونوں طرف مقامی آوازوں کو فروغ دینا۔ انتخابات کا موسم گزرنے کے بعد اب زیادہ معقول آوازوں کو مل کر بیانیہ تشکیل دینا چاہیے ۔ بشریٰ انصاری نے دوہمسایوں‘ جنہیں ایک دیوار نے تقسیم کررکھا ہے‘ کے بارے ایک شاندارویڈیو گانا پیش کیا ۔ حائل ہونے والی خلیج پر کرنے کے لیے سول سوسائٹی‘ لکھاریوں اور کھلاڑیوں سے ایسی مزیدآوازوں کو پل بننے کی ضرورت ہے ۔ 
2۔ گلوبل لابی استعمال کی جائے۔ بڑی طاقتوں‘ چین اور امریکہ کو خطے میں امن درکار ہے تاکہ افغان مسلے کا حل نکل سکے ؛ چنانچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پر امن مذاکرات کے لیے بااثر سیاسی حمایت موجود ہے ۔ اہم ممالک کے بااثر افراد تک رسائی کی جائے ‘تاکہ وہ ان ممالک کے درمیان گفتگو اور مذاکرات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ 
3۔ سائوتھ ایشین مینیل (Millennial) نیٹ ورک قائم کیا جائے ‘تاکہ ٹریک ٹو پیش رفت کو دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں تک لے جایا جاسکے۔ اس کا موضوع ''امن‘ اور صرف امن ‘‘ہو اور یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرجائے ۔ ویب سائٹس پر مشترکہ کاوش‘ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز کو استعمال کرتے ہوئے اور نوجوان افراد کے سیاحتی دوروں کے ذریعے‘ دونوں ممالک کے درمیان سماجی‘ سیاسی‘ اور معاشی روابط قائم کیے جائیں۔ 
بر ِصغیر دنیا کے انتہائی متحرک‘ باصلاحیت‘ تخلیقی اور تکنیکی مہارتوں سے مالامال افراد کا خطہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا میں صارفین کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر پاکستان ا ور انڈیا اور باقی دنیا کے پاس موقعہ ہے ۔ اس سے استفادہ بھی کیا جاسکتاہے ‘ اور اسے ضائع بھی کیا جاسکتا ہے ۔ نئی ہزاروی میں عالمی نظام کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار انہی دو میں سے ایک آپشن اختیار کرنے پر ہے ۔الغرض امن کامیزائل ہی جنگ کا خاتمہ کرسکتاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں