غیر جانبدار تحریک سے وابستگی

21 جولائی 2019 ء کو ونزویلا کے شہر کراکس میں غیر جانبدار تحریک کے وزارا کے اجلاس کا عنوان تھا ''عالمی قانون کے احترام کے ذریعے امن کی ترویج اور استحکام‘‘۔ قطبیت کا شکار اس دنیا میں غیر جانبداررہنا ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ قطبیت گروہ بندی پر مجبور کرتی ہے‘ اور گروہ بندی تنائو کو جنم دیتی ہے ۔ہر قیمت پر توسیع پسندی پرتلے ہوئے ممالک تاریخی طور پر طاقت ‘ بلکہ انتہائی طاقت حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ غیر جانبدار تحریک دنیا کا دوسرا سب سے اہم فورم ہے ۔ اس کے اراکین کی تعداد اقوامِ متحدہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس کی حالیہ کانفرنس اپنی ٹائمنگ اور مقام کے اعتبار سے بے حد اہمیت اختیار کرگئی ۔ 
غیر جانبدار تحریک کے اجلاس کا ونزویلا کے شہر کراکس میں منعقد ہونا بذات ِخود ایک اہم خبر تھی ۔ ونزویلا شدید داخلی افراتفری کا شکار ہے ۔ ہوگو شاویز کی صدارت کے دور میں شروع ہونے والا سیاسی بحران صدر نکولس مادورکے دور میں بھی جاری ہے ۔ معیشت انتہائی افراط ِزرکا شکار ‘ جبکہ قحط‘ بیماری‘ جرائم اور ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ ان سنگین مسائل کے نتیجے میں ملک سے وسیع پیمانے پر ہجرت کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ ونزویلا کی تاریخ کا بدترین معاشی بحران ہے۔ بیسویںکے صدی کے وسط کے بعد سے کسی ملک ‘ جس نے جنگ کا سامنا نہ کیا ہو‘ کیلئے یہ بدترین صورتحال ہے ۔ 
ونزویلا جو دنیا میں تیل کے بڑے ذخائر رکھنے والے ملک میں شامل کو اشیائے خورونوش کی شدید قلت کاسامنا ہے ۔غذائی قلت کی وجہ سے 2017 ء کے بعد سے ملک کی 75 فیصد آبادی کاوزن اوسطاً اٹھ کلو گرام کم ہوچکا ۔ مارچ 2019 ء میں اقوا م متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ ونزویلا کے 94 فیصد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں‘ جبکہ دس فیصد آبادی (3.4 ملین) ملک چھوڑ کر جاچکی ۔ ملک بھر میں جرائم عام ہیں ۔ 2018 ء میں 81.4 قتل فی ایک لاکھ افراد کی شرح کے ساتھ ونزویلا کا گراف دنیا میں سب سے بلند ہے۔یہ شرح اسے دنیا بھر میں ونزویلا کو تیسرا سب سے پرُتشدد ملک بناتی ہے ۔ 
موجودہ حکومت معاشی بحران کا الزام امریکی پابندیوں اور سیاسی مداخلت پرعائد کرتی ہے۔‘لیکن داخلی بدعنوانی اور امن وامان کے مسائل بھی سماجی اور سیاسی خرابیوں کے ذمہ دار ہیں؛ چنانچہ دنیا کی نظروں میں حکومت کا قانونی جواز قائم کرنے کیلئے ونزویلا میں غیر جانبدار تحریک کا تازہ رائونڈ ضروری تھا۔ غیر جانبدار تحریک بہت دیر سے اُن ممالک کی آواز تھی‘ جو غیر ملکی تسلط کی زد میں رہے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے ‘ اور افریقا‘ ایشیا‘ لاطینی امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کے بعد اور سرد جنگ کے عروج کے دور میں غیر جانبدار تحریک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 
اس کا پہلا اجلاس یکم تا چھ ستمبر 1961 ء میں بلغراد میں منعقد ہوا۔ کانفرنس میں پچیس ممالک نے شرکت کی ۔ غیر جانبدار تحریک کے اہم اصول ''اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں اور عالمی قوانین کا احترام‘ تمام ریاستوں کی خودمختاری‘ مساوات‘ علاقائی ربط کا احترام‘ ہر رنگ و نسل ‘ اقوام اور مذاہب کے حقوق اور حق ِ خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہیں‘‘تاہم وقت گزرنے کے ساتھ غیر جانبدار تحریک کا فروغ ماند پڑتاگیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے سرد جنگ کے دوران اُس وقت قائم کیا گیا ‘جب دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے دنیا کی دیگر اقوام کو اپنے دائرہ اثر میں لینے کی کوشش میں تھیں۔ غیر جانبدار تحریک ایک ایسا پلیٹ فارم تھا ‘جو حق ِ خود ارادیت کی دوٹوک ترویج اوردیگر ممالک پر جبری قبضے کی مذمت کرتاتھا۔ سوویت یونین کی تحلیل سے اس تحریک کے بیانیے میں وہ جان نہ رہی ‘لیکن نئی طاقتوں‘ جیسا کہ چین اور انڈیا کے ابھرنے سے ایک سوبیس ارکان پر مشتمل اس تحریک کا بیانیہ ایک مرتبہ پھر توانا ہوگیا ہے ۔ گزشتہ چند برسوںسے اسے اپنے اہم اراکین‘ جیسا کہ انڈیاکی طرف سے مسائل کا سامنا تھا۔ انڈیا کے پہلے وزیراعظم ‘جواہر لال نہرو کا شمار اس تحریک کے شریک بانیوں میں ہوتا تھا۔ نوآبادیاتی دور کے بعد غیر جانبدار تحریک ہی انڈیا کی خارجہ پالیسی کی روح ِرواں تھی ‘ تاہم غیر جانبدار تحریک کے 2016 ء میں مارگریشا آئی لینڈ میں ہونے والے آخری اجلاس سے اس کے اہم اراکین کی بے دلی جھلکتی تھی ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بہت سے سربراہوں نے اس میں شرکت کی بھی زحمت نہ کی ‘ جس باعث تحریک سست پڑ گئی۔ 
مودی کا سیاسی نظریہ نہرو سے مختلف ہے ‘ یعنی موجودہ بھارتی وزیراعظم نے غیر جانبدار تحریک کے تصور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سے ممالک کے ساتھ معاہدے کیے۔ مودی خطے میں امریکی اتحادیوں‘ جیسا کہ جاپان‘ آسٹریلیا اور ویت نام کے ساتھ مضبوط شراکت داری قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے جنوبی چینی سمندر کے تنازع پر ویت نام اور فلپائن کے حق میں طاقتور موقف اپنایا ہے ۔ جاپان سمیت امریکی نیوی کے ساتھ خطے میں مشقوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ غیر جانبدار تحریک کا مرکزی اصول حق ِ خودارادیت ہے ؛ چونکہ کشمیر میں اس بنیادی حق کی‘ خاص طور پر موجودہ بھارتی وزیر اعظم کے دور میں‘ سنگین خلاف ورزی ہورہی ہے ؛ چنانچہ انڈیا کا اس تحریک کو اہمیت دینے سے گریز قابل ِفہم ہے ۔ 
غیر جانبدار تحریک کو ایسی غیر جانبدار لابیز کی ضرورت ہے‘ جو ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر تحریک کے اصولوں سے وابستہ ہوں۔ پاکستان نے کراکس‘ ونزویلا میں بیس اور اکیس جولائی کو ہونے والے اجلاس میں جاندار بیان دیا۔ بیان میں موجودہ دنیا کو درپیش اہم چیلنجز کا احاطہ کیا گیا‘ جو کہ بڑی طاقتوں کی رقابت‘ کشمکش ‘ جنگیں‘ علاقائی عدم استحکام‘ بڑھتی ہوئی غربت‘ عدم مساوات‘ پسماندگی‘ بیرونی مداخلت‘ ریاستوں کی ناروا سرپرستی اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کا موقف بہت واضح ہے کہ بے چینی اور افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ‘ خاص طورپر سلامتی کونسل کے وضع کردہ اصولوں اور عالمی قوانین کو پامال کیا جارہا ہے ۔ پاکستان نے کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ۔ اب ان خلاف ورزیوں کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفاتر میں بھی رپورٹ کیا جارہا ہے ۔8 نومبر 2016 ء کو ''دی گارڈین ‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون ''India's Crackdown on Kashmir‘‘ میں بھارتی فوج کی طرف سے شہریوں کو وسیع پیمانے پر نابینا بنانے والے ہتھیار‘ پیلٹ گن کے بے دریغ استعمال پر بات کی گئی ۔ اس کے مطابق‘ شہریوں‘ جن میں چار اور پانچ سالہ بچے بھی شامل ہیں‘ کی آنکھیں چھرے لگنے سے متاثر ہورہی ہیں۔ وہ جزوی طو رپر یا مستقل‘ زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم ہورہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے مقامی اخبار کو بتایا کہ 9جولائی کے بعد سے اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک شخص کی آنکھیں پیلٹ گن کے چَھروں سے متاثر ہورہی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ روزانہ 12 آنکھوں کی سرجری ہورہی ہے ۔ یہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے ۔‘‘
غیر جانبدار تحریک کا اگلا اجلاس اکتوبر 2019ء کو باکو میں ہونے جارہا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ اجلاس میں نہیں گئے تھے ۔ پاکستان کو انڈیا پر کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دبائو بڑھانے کے لیے یہ موقع نہیں گنوانا چاہیے ۔ موجودہ صورت ِحال کے تناظر میں ضروری ہے کہ پاکستان‘ دستیاب ہر فورم پر انڈیا کا کشمیر میں کردار ‘ اور اس کی عالمی قوانین کو پامال کرنے کی پالیسی کو بے نقاب کرے ۔ انڈیا کی جانبدار ی اس غیر جانبدار تحریک کے بر خلاف ہے اور پاکستان کو اپنی آواز اس تحریک میں سب سے بلند کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں