صرف ایک تقریر کی بات نہیں

کہا جاتا ہے کہ تقاریر قسمت بدل دیتی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات سچ ہو ‘یا جھوٹ ہو۔ اس بیان پر مختلف ردعمل آئیں گے۔ صورتحال کے مطابق سب ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ کوئی بھی شعبہ ہو‘ مل جل کررہنے اور کام کرنے میں ابلاغ کا کردار بنیادی ہے ۔ بچے کی چیخ اس کے دنیا میں آنے کا پہلا اعلان ہوتی ہے ۔ اسی سے اس کی زندگی کا پتہ چلتا ہے ۔ بولنا اور اچھا یا بُرا بولنازندگی کے بہت سے پہلوئوں کا تعین کرتا ہے ۔ خاندان کے باہمی تعلقات کا دارومدار بہت حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ خیالات کا اظہار کس طرح کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کا کتنا موقع دیتے ہیں۔ کلاس کی سرگرمی میں شرکت اور پریزنٹیشن ٹیچر پر تاثر چھوڑنے اور گریڈ لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملازمت کے لیے انٹرویوکے نتائج کا دارومدار بہت حد تک انٹرویو دینے والے کی فصاحت اور قائل کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے ۔ 
اس موضوع پر تحریری مواد‘ ریسرچ‘ ٹریننگ‘ کوچنگ اور ویڈیوز کے انبار کی دستیابی کے باوجود ابلاغ‘ خاص طور پر زبانی ابلاغ ایک نایاب فن ہے ۔ ابلاغ کی بہت سی اقسام ہوسکتی ہیں‘ لیکن گفتگوخاص طور پرعوام سے مخاطب ہونا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ بہت سے مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی ذہن میں جو پانچ بڑے خوف پنہاں ہوتے ہیں ان میں سے ایک عوام سے خطاب کرنے کا بھی ہے ۔سٹیج پر آکر با ت کرنے سے لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ وہ غیر یقینی پن کا شکا رہوجاتے ہیں کہ کیا اُن کے الفاظ اُن کے خیالات کا ساتھ دیں گے یا نہیں۔ 
یوں توگروہی ابلاغ بہت سے شعبوں میں اہمیت رکھتا ہے لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں یہ فیصلہ کن عنصر ثابت ہوتا ہے اور یہ میدان ِ سیاست ہے ۔ تقاریر سیاست دانوں کا قد کاٹھ بڑھاتی ہیں۔ وہ اپنی آواز سنانا پسند کرتے ہیں۔ یہ سوچ کہ لاکھوں لوگ اُنہیں سن رہے ہیں‘ اُنہیں پرجوش کرتے ہوئے محو ِ خطاب رکھتی ہے ۔ تاہم زیادہ تر تقاریر اکتادینے والی ہوتی ہیں۔ بہت کم ذہن پر نقش بناپاتی ہیں۔ دوسری طرف متاثر کن تقاریر تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں۔ 
پاکستانی سیاست میں تقاریر کی بہت سی اصناف پائی جاتی ہیں۔ یہاں دھیرج بھی ہے اور شعلہ بیانی بھی ۔ چوہدری شجاعت حسین کے دھیمے لہجے سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی تک‘ ہمارے ہاں انداز بیان کی بہت سی اقسام ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں عالمی تقاریر بہت سے سامعین تک پہنچ جاتی ہیں ۔ اسی طرح اُن کا اثر بھی گہرا ہوتاہے ۔ اسی اعتبار سے اُن کا ناقدانہ جائزہ لیا جاتا ہے ۔ زیادہ تر اہم مواقع پر تقاریر کو اچھی طرح تیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ متاثر کن ثابت ہوں۔ دیرپااثر کے لیے ارسطوکا بیان کردہ معیار آج بھی سندہے ۔ اُنہوں نے اچھی تقاریر کے لیے تین لوازمات بتائے ہیں: اخلاقی ساکھ‘ دلائل اور جذبات۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک اچھی تقریر میں پہلے تو اخلاقی سبق ہوناچاہیے‘ بات مدلل انداز میں کی جائے اور اس میں جذبات کی آمیزیش بھی ہو۔ ان میں سے کسی عنصر کے فقدان سے تقریر کا اثر جاتا رہے گا۔ اس معیار کے مطابق ہم سیاست دانوں کی تقاریر کے اثر کو پرکھ سکتے ہیں:
1۔ مواد کا معیار: معیار ویسا ہونا چاہیے جیسے سامعین ہوتے ہیں۔ عام افراد کے سامنے دانائی سے بھرپور گفتگو کرنا بے سود ہے ‘ اسی طرح ذی فہم افراد کے سامنے عامیانہ مواد وقت کا زیاں ہے ۔ اس مرحلے پر مواد کا چنائو کرنے او ر تقریر لکھنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو اس فن میں ماہر تھے۔ جب اُنہیں عوام سے خطاب کرنا ہوتا تھا تو وہ عوامی لباس پہن کر آتے ‘ آستینیں کھلی ہوتیں‘ جارحانہ اور جذباتی لہجہ اپناتے اورزوردار الفاظ استعمال کرتے ۔ سامعین جوش سے دیوانے ہوجاتے ۔ بھٹو کے برعکس‘ اُن کے نواسے بلاول بھٹو اپنے نانا کی نقل نہیں کرپارہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنا ہیئرسٹائل اور لباس بھی تبدیل کرکے ذوالفقار علی بھٹو جیسا بنا لیا ہے‘ لیکن زبان پر عبور کی کمی اُن کی تقاریر کو غیر مؤثر بنادیتی ہے ۔ نواز شریف کبھی بھی بھٹو جیسے متاثر کن مقرر نہیں رہے تھے ‘لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُنہوں نے اپنی تقاریر میں ایسا مواد شامل کرنا شروع کردیا جو عوام کے لیے کشش رکھتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں اُن کی تقریر مقتدرہ پر بھرپور تنقید تھی ۔ اس نے دو طرح کے سامعین کو یقینا متاثر کیا ہوگا‘ ایک تو مقتدرہ مخالف مقامی عناصر ‘ اور دوسرے پاک فوج مخالف عالمی مقتدرہ ۔ تاہم عوام کو متاثر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اُن کی تقریر کا مواد ادارے کی بجائے عوام کو مخاطب کرتا۔ 
2۔ جذباتیت: چاہے مواد کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو‘ یہ آپ کا طرزِ تکلم ہے جو دوسروں کو متاثر کرتا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ ایک ہی مواد دو مختلف افراد پیش کریں اور ان کا اثر مختلف ہو ۔ سابق امریکی صدربارک اوباما اپنی تقریر کی صلاحیت‘ الفاظ اور مواد کے چنائو اور لب و لہجے کے اتار چڑھائو پر قدرت ہونے کی وجہ سے صدارت کے منصب تک پہنچ گئے ۔ارسطوکی بیان کردہ دوسری خوبی مواد میں جذبات کی آمیزش ہے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان طویل محنت کے بعد اب عالمی معیار کے مقرر بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ وہ کبھی شرمیلے لڑکے ہوتے تھے ‘ نوجوانی میں بے تکی اور روکھی تقریریں کرتے تھے ‘ لیکن اب اُن کے الفاظ کی انگلیاں عوام کے جذبات پر ہیں۔ گزشتہ برس اقوام ِمتحدہ میں کی گئی اُن کی تقریر اور موجودہ برس کی تقریر کسی بھی پاکستانی سربراہ کی بہترین تقاریر میں شمار ہوتی ہیں۔ براہ ِراست خطاب اور آن لائن خطاب‘ دونوں مواقع پر اُن کی تقاریر کو مقامی اور عالمی ناقدین اور ماہرین نے سراہا ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں‘ کشمیر اور اسلاموفوبیا پر توجہ دینے کے لیے دنیا سے اُن کی جذباتی اپیل اتنی مؤثر تھی کہ اقوام ِ متحدہ کے سربراہ نے کشمیر جدوجہد کی حمایت میں بیان دے دیا۔ 
3۔ مقرر کی ساکھ : ارسطو کا بیان کردہ تیسرا اصول اخلاقی پیمانہ ہے ۔ مقرر کی ساکھ تقریر کی سندہوتی ہے ۔بھرپور جذبات سے ادا کیے گئے شاندار الفاظ بھی سامعین کی تنقید کی زد میں آسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ نریندر مودی کی تقاریر کو مقامی سامعین پسند کرتے ہوں لیکن اُن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اتنا مایوس کن ہے کہ دنیا میں وہ جہاں بھی جاتے ہیں اور جس فورم پر بھی بات کرتے ہیں‘ اُن کے بیان کو شک وشبے کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح نواز شریف نے اے پی سی میں بلاشبہ تاریخی حوالے دیے ‘ لیکن اپنے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے اُن پر شدید تنقید ہوئی ؛ چنانچہ اس موقع پر اُن کے قول وفعل کا تضاد کھل کر سامنے آگیا ۔ وزیر ِاعظم عمران خان کا سب سے مثبت پہلو اُن کے ایماندار ہونے کی شہرت ہے ۔ یقینا اُن کی حکومت کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے ‘ لیکن جب وزیر اعظم عمران خان عوامی فلاح کی بات کرتے ہیں تو اُن کے الفاظ کے ہمراہ فلاحی ہسپتال‘ نمل یونیورسٹی اور اب احساس پروگرام کی ساکھ موجود ہوتی ہے ۔ 
نپولین نے کہا تھا کہ ایک لیڈر امیدکا بیوپاری ہوتا ہے ‘ متاثر کن گفتگو اور جذباتی تقاریر کے ذریعے امید پیدا کی جاتی ہے ۔ پراعتماد اور متاثر کن لہجے میں کی جانے والی تقاریر جذباتی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ کیا بولے گئے الفاظ نسل در نسل عوام کی رہنمائی کریں گے اور عمل کے سانچے میں ڈھل کر فائدہ پہنچائیں گے؟ یہ بولنے والے شخص کے کردار پر منحصر ہے ۔ بانی متحدہ کبھی اپنے حامیوں کو گھنٹوں بٹھا کر اپنی تقاریر سننے پر مجبور کرتے تھے ‘ اب عوامی اور قانونی احتساب اُن کے تعاقب میں ہے۔ اُن کی اپنی جماعت کے کارکن اُن کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایک لیڈر کو اگلی صفوں میں آکر قیادت کرنی ہوتی ہے ‘ لندن کے بہترین ماحول میں بیٹھ کر پرتکلف کھانے کھاتے اور پارکوں میں گھومتے ہوئے رہنما دیر پا تحریکیں نہیں چلا سکتے ‘ جبکہ اُن کے حامی مصائب جھیل رہے ہوں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تمہارا فعل تمہارے قول سے زیادہ بلند آہنگ ہوتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں