بھارت کیلئے تکلیف دہ حقائق

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں مطلق العنانی سراٹھار ہی ہے ۔ مودی کا انڈیا ون مین شو بن چکا ۔ عالمی رہنمائوں‘ دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تیزو تند تنقید کے باوجود فرد ِواحد کی من مانی جاری ہے ۔ صحافیوں کوگولی ماردیں‘ این جی اوز کو بند کردیں‘ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو جیل میں ڈال دیں‘ باغیوں کو قتل کردیں‘ حقوق کیلئے بلند ہونے والی آواز کو دبا دیں‘ احتجاج کو کچل دیں۔ یہ ہیں مودی کے انڈیا کی گراوٹ کی کچھ جھلکیاں۔ روایتی طور پر بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہریوں پر جبر کرنے کے باوجود بچ نکلتا رہا ۔ ذرا اندازہ کریں کہ اگر انڈیا کی بہت بڑی معیشت کی کشش کے باوجود اس پر تنقید ہورہی ہے تو اس کے جرائم کس قدر بھیانک ہوں گے ۔ 
کہا جاتا ہے کہ بحران میں ہی کسی رہنما کے کردار کی حقیقی جانچ ہوتی ہے۔ حالات جتنے تاریک ہوں گے‘ ایک سچے رہنما کا کردار اتناہی نکھر کر سامنے آئے گا ۔ دوسری طرف ایک جھوٹے رہنما کے چہرے سے نقاب اتر جائے گااور اس کے سفاک اور گھنائونے کردار کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔ بھارت میں بالکل یہی کچھ ہوا ۔ کورونا وبا نے ہندو معاشرے میں کافی عرصے سے نظروں سے اوجھل رکھے گئے ذات پات کے نظام اورامتیازی سلوک کو بے نقاب کردیا ۔ بلاسوچے سمجھے اچانک نافذکیے گئے سخت لاک ڈائون کے فیصلے سے لے کر ہمسایہ ریاستوں میں مداخلت تک‘ بھارت کے مذموم عزائم پر سیمیناروں ‘ مضامین اور کتابوں میں کھل کر بات ہورہی ہے ۔ 
یہ دنیا کمرشل ہے اور یہ ایسی ہی رہے گی ۔ طاقتور بننے کیلئے آپ کو دولت کی ضرورت ہوتی ہے ا ور دولت کمانے کیلئے آپ کو مارکیٹ چاہیے جو کاروباری نقطہ نظر سے پرکشش ہو اور آپ کی افرادی قوت محنتی اور ہنر مند ہو۔ بھارت کو اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ وہ دو میدانوں میں کام کرتے ہوئے عالمی برادری میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ اُس کی کنزیومر مارکیٹ چین کا مقابلہ کرتی ہے لیکن اس پر چین کی طرح غیرجمہوری ملک ہونے کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاتا۔ اس نے بہت مہارت سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ‘ سب سے بڑی جمہوریہ ‘ سب سے تیزی سے نمو پاتی ہوئی معیشت ہونے کا تاثر بنائے رکھا۔ دوسری طرف بھارت ذات پات کا نظام رکھتا ہے جسے اگرچہ متروک قرار دے دیا گیا تھا لیکن ثقافتی روایت کے طور پر موجود رہا ہے۔ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈپاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگاکر کامیابی سے چھپایا جاتا رہا۔ پہلے تو مسلم اور پاکستان مخالف جذبات کو مہمیز دے کر نریندر مودی نے انتخابی کامیابی سمیٹی‘ پھر کورونا وبا آگئی ۔ ان دونوں نے بھارت کے چہرے سے نام نہاد سکیولر ازم کا نقاب اتار پھینکا ہے ۔ جب بھارت کے عالمی غلبے کی مودی کی خوش فہمی رعونت میں بدل گئی تو بھارت نے پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا۔ اُسے توقع تھی کہ پاکستان کی طرف سے محض ایک علامتی سا ردِعمل آئے گااور انسانی حقوق کی تنظیمیں محض دکھاوے کیلئے اس اقدام کی مذمت کریں گی‘ لیکن پاکستان کے طرزعمل کو دیکھ کر مودی بھونچکا رہ گیا ۔ نہ صرف وزیراعظم پاکستان نے نریندر مودی کی ہٹلر اور ان کی جماعت ‘ آر ایس ایس کی نازی پارٹی سے مماثلت کا حوالہ دیا بلکہ دنیا کی توجہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی طرف بھی مبذول کرائی ۔ 
رعونت بصیر ت سے محروم کردیتی ہے ۔ مودی نے کشمیر اور بھارت میں مزید ظلم وستم کا سلسلہ جاری رکھا۔ شہریت کی ترمیم کا قانون بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کیلئے باعث زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ اپنی اَنا کے گھوڑے پر سوارمودی نفرت اور جارحیت کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ مندرجہ ذیل تبدیل ہوتے ہوئے حقائق سے اغماض برت رہا ہے:
1۔ اوباما لیکس: ماضی میں مغرب میں ہونے والی کوئی بھی لیکس پاکستانی رہنمائوں پر ہی کیچڑ اچھالتی تھی ۔ وکی لیکس نے ڈرون حملوں پر آصف زرداری کے دہرے کردار کو بے نقاب کیا تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمن امریکا سے درخواست کرتے دکھائی دیے کہ اُنہیں اقتدار میں آنے میں مدد دی جائے ۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ سابق امریکی صدرباراک اوباما کی کتاب '' A Promised Land‘‘ میں بھارتیوں کی انتہا پسندی اورنسل پرستی کی نفرت سے آلودہ سیاست کو بے نقاب کرتی ہے ۔ اس کتاب میں کچھ چونکا دینے والے بیانات بھی ہیں۔ ''سرکاری اور نجی سطح پر تشدد بھارتی زندگی کا ایک غالب پہلو ہے ۔ قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے پاکستان دشمنی آج بھی تیر بہدف نسخہ ہے ‘‘۔ یہ بیانات مودی کے کشمیر میں کیے جانے والے لاک ڈائون سے پہلے تحریر کیے گئے تھے ۔ بھارتی معاشرے میں نفرت کے بیج اور ہندوتوا کے جذبات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن مودی نے اُنہیں پروان چڑھاکر نمایاں کردیا ۔ بھارت میں فروغ پانے والا نسلی احساس ِبرتری اور ریاست کی سرپرستی میں اقلیتوں پر سرعام تشددکوئی افسانہ نہیں۔ عالمی رہنما اس کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔ 
2۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کاحتجاج: مودی کا انڈیا عدم برداشت کی آگ میں جل رہا ہے ۔ اس عدم برداشت کا رخ صرف مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کی طرف ہی نہیں بلکہ ہر اُس شخص کی طرف ہے جو اس کی نشاندہی کی جرأت کرتا ہے ۔ جب ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کی رپورٹ تیار کی تو اس کو انڈیا سے نکل جانے کیلئے کہا گیا۔ حال ہی میں نسل کشی پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم ‘ جو دنیا میں نسل کشی کی پیش بینی کرنے اور اس کا تدارک کرنے کیلئے کام کرتی ہے ‘ نے ایک سیمینار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے دس مرحلے پیش کیے ۔ اس تنظیم کے صدرڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کا کہنا تھا ''بھارت میں یقینا نسل کشی کا ماحول بن رہا ہے ۔ آسام اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی صرف ایک مرحلے کی دوری پر رہ گئی ہے ‘‘۔ اس کی وجہ سے بھارت میں بے چینی پیدا ہورہی ہے ۔ بھارت میں ہونے والا ایک ادبی تہوار منسوخ کردیا گیا کیونکہ اس کے پینل میں معروف دانشور نوم چومسکی شامل تھے جنہوں نے مودی اور ان کے نظریے پر شدید تنقید کی تھی۔
3۔ پاکستان کی ثبوت کی بنیاد پر مہم : پاکستان نے بھارت کی اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے پورے ثبوتوں کے ساتھ مہم شروع کررکھی ہے ۔ اپنی نوعیت کے ایک منفرد واقعے میں ڈی جی آئی ایس پی آرنے ایک مفصل پریس کانفرنس میں اُن تمام بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ثبوت پیش کیے جن کی سرپرستی بھارت نے کی تھی ۔ ان میں اے پی ایس پشاور کا سانحہ اور سی پیک میں خلل ڈالنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ اقوام ِ متحدہ میں پاکستان کے نمائندے اقوام ِمتحدہ کے صدر کو بھارت کی دہشت گردی کا ثبوت پیش کرنے جارہے ہیں۔ یہ ثبوت انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے سامنے بھی رکھے جائیں گے ۔ بھارت اس سے پہلے پاکستان کی طرف سے معذرت خواہانہ رویے اور دفاعی قدموں پر چلے جانے کا عادی تھا ۔ اب پاکستان کی نئی حکمت ِعملی نے اسے حیران اور پریشان کردیا ہے ۔ 
بھارت کا بہترین دفاع اس کی مارکیٹ ہے جو کورونا وبا کی وجہ سے ڈگمگا رہی ہے ۔ اس سے پہلے بھارت اپنی بدنما حقیقت کو اپنی چکاچوند معیشت‘ فروغ پاتی ہوئی صنعت ‘ بڑھتی ہوئی برآمدات اور بھاری سرمایہ کاری کے خوش نما نقاب کے پیچھے چھپا لیتا تھا ۔ لیکن وائرس کے پھیلائو کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے اور لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ سمٹ رہا ہے ۔ پاکستان کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہے ۔ اقوام ِمتحدہ کے صدر کو ثبوت پیش کرنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں‘ دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے گروہوں اور تھنک ٹینکس کو جھنجھوڑنے کیلئے تیزوتند مہم درکار ہے ۔ سفارتی دبائو کے ساتھ ساتھ میڈیا کا مؤثر استعمال اب وہ کچھ حاصل کرسکتاہے جس کا اس سے پہلے خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ بھارت دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست ہے جبکہ پاکستان امن کا سہولت کار۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں