انڈین لیکس ،من گھڑت خبریں‘ گمراہ کن مواد

جعلی حقائق‘ من گھرٹ کہانیاں ‘ گمراہ کن ثبوت رکھنے والی انڈین لیکس کا پردہ یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے چاک کردیا ۔ اتنے وسیع پیمانے پر گمراہ کن معلومات کا پھیلائو ایک چونکا دینے والی کہانی کی صورت میں سامنے آیا ۔ یہ جھوٹ کم و بیش پندرہ سال سے کامیابی سے چل رہا تھا ۔اس کا دائرہ 270ممالک تک پھیلا ہوا تھا ‘ 750 ویب سائٹس بنائی تھیں‘ چوٹی کے ماہرین کے نام استعمال کرتے ہوئے عالمی کمیونٹی کا حلقہ اثر استعمال کیا۔ اس نے اپنی معلومات کی تصدیق کا بیک اپ بھی تیار کیا تھاجو کہ''مستند‘‘ ویب سائٹس اور ''ساکھ رکھنے والے جال‘‘ پر مشتمل تھا‘ لیکن حرف ِآخر یہ ہے کہ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے‘ چاہے اسے کتنا ہی سچ میں ملفو ف کرکے پیش کیا جائے یا اس کی تصدیق کیلئے کتنے ہی مستند دکھائی دینے والے حوالے تیار کیے جائیں اور اسے دنیا کے طول وعرض میں پھیلا دیا جائے۔ 
یہ انکشاف اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ پہلے منظرعام پر آنے والی لیکس سے زیادہ حقائق پر مبنی ہے ۔ یہ وکی لیکس کی طرح ای میلز نہیں اور نہ ہی پاناما پیپرز کی طرح چھپائے گئے اثاثہ جات کا کسی ہیکر کے ہاتھوں منظر ِعام پر لایا جانا ہے ۔ یہ تحقیقات کی بنیاد پر حاصل کیا گیا حوالہ جات ‘ مواد اور ثبوت رکھنے والا انکشاف ہے جو یوای ڈس انفو لیب نے سرانجام دیا ہے ۔ وہ پوری ذمہ داری سے عوام کے سامنے لائے ہیں۔ یوای ڈس انفو لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر Alexandre Alaphilippe کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو ہم نے بے نقاب کیا ہو۔ اُنہوں نے اس پر تحقیقات کرکے ایک جامع رپورٹ شائع کی ہے ۔ وہ اس فراڈ نیٹ ورک قائم کرنے کا واضح مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اسے بنیادی طور پر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے اور یواین ہیومین رائٹس کونسل اور یورپی پارلیمنٹ کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کیلئے قائم کیا گیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے بے نقاب کرنے میں پندرہ سال کیوں لگ گئے ؟ آئیے بھارتی پراپیگنڈا کی پاکستان کے خلاف طویل عرصے سے جاری کارروائی کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
1۔ ڈیزائن کا الجھائو: عام طور پر ذہن سادہ چیزوں پر توجہ دینے اور انہیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ڈیٹا نیٹ ورکس نے پیچیدہ معلومات سے سائٹس کو بھر دیا۔ معلومات کے انبار میں سے معلومات حاصل کرنے والوں نے شارٹ کٹس تیار کیے‘ جن کی مدد سے خبریں پراسس اور تیار کی جاتی تھیں۔ ایک عام شخص ایک یا دو لنکس دیکھ کر معلومات کی تصدیق کرنا کافی سمجھتا ہے ۔ اوسط سے زیادہ ذہین پانچ سے سات لنکس تک رسائی کی مشقت اٹھا لیتے ہیں‘ مگر یہاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ویب سائٹس سے تصدیق کی جارہی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے اور یہاں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے ‘ وغیرہ۔بھارت نے سینکڑوں جعلی صحافتی شناختیں تخلیق کیں‘ 750 سے زیادہ میڈیا آؤٹ لٹس قائم کیے اور550 سے زیادہ جعلی ناموں سے سائٹس قائم کیں۔ بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے اس گمراہ کن مواد کو مزید بڑھا چڑھا کر برسلز اور جنیوا میں پیش کیا ۔ انہوں نے غیر فعال سائٹس‘ مرحوم پروفیسرز اور دور دراز کے لنکس استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف حقیقت نما تاثر اجاگر کیا ۔ 
2۔ خبر کی تصدیق : اپنے مواد کی ساکھ قائم کرنے کیلئے اُنہیں ایسی خبروں کی ضرورت تھی جو مواد کی تصدیق کرتے ہوئے اسے قابل ِا عتبار ظاہر کرسکیں۔ اس میں افراد سے لے کر مخصوص سطح اور نوعیت کے ادارے بھی شامل تھے ۔ یورپی یونین اور اقوام ِ متحدہ کے ساتھ عالمی قوانین اور حقوق جڑے ہوئے ہیں‘ اس حقیقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُنہوں نے عالمی تصدیق کا نظام قائم کرلیا ۔ Srivastava Groupاس مہم میں پیش پیش تھا۔ اقوام ِ متحدہ کی سند رکھنے والی کم از کم دس این جی اوزاور بہت سی دیگر کو بھارتی مفادات کو آگے بڑھانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر ہدف ِ تنقید بنانے کیلئے استعمال کیاگیا۔اس نے سری وستوا گروپ کو بااثر فورمز تک اپنی بات پہنچانے کا موقع فراہم کردیا ۔ اس کی ایک مثال مارچ 2019 ء میں اقوام ِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا چالیسواں اجلاس تھا ۔اقوام ِمتحدہ کی ایک اور سند یافتہ تنظیم‘ یونائٹیڈ سکولز انٹر نیشنل نے اپنے سلاٹس کو Yoana Barakova کیلئے استعمال کی اجازت دے دی۔ وہ ایمسٹرڈیم سے تعلق رکھنے والے ایک تھنک ٹینک‘ یورپین فائونڈیشن فار سائوتھ ایشین سٹڈیز کا ریسرچ تجزیہ کار ہے ۔ اس نے اجلاس کے دوران ''پاکستان میں رو ا رکھے جانے والے مظالم‘‘پر بات کی ۔ 
3۔ پاکستان سے تصدیق: سری وستوا گروپ نے بیرونی ممالک میں موجود پاکستانی تعاون کے علاوہ ایسے پاکستانیوں سے بھی تصدیق حاصل کی جو ممکنہ طور پر امریکی تھنک ٹینکس یا میڈیا میں کام کررہے ہیں۔ اُنہوں نے ''پاکستان میں دہشت گردی‘ انسانی حقوق اور جمہویت ‘‘پر سری وستوا گروپ کے مؤقف کی تصدیق کی ۔ تھنک ٹینک کے محققین کی شائع شدہ تحقیقات نے ان حقائق کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش کیا کہ دنیا نے ان پر یقین کرنا شروع کردیا ۔ اس مواد کو پچانوے ممالک کی پانچ سو سے زیادہ ویب سائٹس پر ڈالا گیا ۔اس کے بعد انسانی ہمدردی رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے اہم فورمز پر اس مواد کا حوالہ دیا ۔ اُن اراکین کے بیانات کو ریگولر میڈیا نے اٹھا یا اور اس طرح جعلی ویب سائٹس کا مواد مستند خبریں بن کر پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ یہ جعلی ویب سائٹس اتنی زیادہ تھیں کہ انہیں چیک نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مودی کا نظریہ ہٹلر سے ملتا جلتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولوکہ سچ لگنے لگے ۔ گزشتہ چھ برسوں سے اس گروپ کی فعالیت میں زیادہ جارحانہ پن آتا گیا ۔ مودی کی 2014ء اور2019 ء کی انتخابی مہم پاکستان سے نفرت سے عبارت تھی ۔ آر ایس ایس کے پرانے پرچارک ہونے کے ناتے مودی کو پراپیگنڈا کی طاقت پر یقین ہے ‘ ہٹلر کوبھی یقین تھا کہ دشمن سے پراپیگنڈا کے ذریعے نمٹا جائے ۔ بے جی پی کے آئی ٹی سیل نے سوشل میڈیا پر ایک اور طریق ِکار اختیار کیا ‘ اسے آسٹروٹرفنگ کہا جاتا ہے ۔ اس میں مارکیٹنگ یا پی آرکی کمپنیوں کے ذریعے جعلی تبصروں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کی وسیع تعداد کی طرف سے فیڈ بیک آرہا ہے ۔ بھارت نے اس ضمن میں مخصوص علاقوں اور افراد کو اس کا ہدف بنایا ۔ بلوچستان میں بلوچستان لبریشن تحریک اور شمالی علاقہ جات میں پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومٹ)اس کی نمایاں مثالیں ہیں کہ کس طرح کلبھوشن یا افغان سہولت کاروں کے ذریعے را نے ان تحریکوں کی پشت پناہی کی ۔
یہ پاکستان کیلئے ایک حقیقی موقع ہے کہ وہ بھارت کے خلاف کیس لے کر دنیا کے سامنے جائے ۔ پاکستان کو بھارت کے جعلی خبریں پھیلانے کے مقابلے میں سہ جہتی حکمت ِعملی پر کام کرنا چاہیے ۔ پہلا یہ کہ عالمی عدالتوں میں بھارت کے خلاف کیچڑ اچھالنے اور گمراہ کن معلومات عام کرنے پر مقدمہ کرے ۔ دوسرا ‘اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کونسل کے پاس جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے کہ کس طرح یواین کی سند رکھنے والی بے شمار این جی اوز کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ تیسرا ‘ سوشل میڈیا کے پیشہ ور ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بھارت کے خلاف تحریری مواد اور ویڈیوز کے ذریعے مہم چلائی جائے اور بھارت کی سائبر دہشت گردی کو بے نقاب کیا جائے ۔
دنیا تبدیل ہوچکی ‘ اور اسی طرح جنگی ہتھیار بھی ۔ ممکن ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فائربندی ہو‘ لیکن پانچویں نسل کی جنگ جاری ہے ‘اس کیلئے بارڈر نہیں‘ ذہن استعمال کیے جارہے ہیں۔ جنگی فنون کے ماہر Sun Tzu نے کہا تھا ''سب سے بڑی عسکری مہارت لڑے بغیر دشمن کو زیر کرنا ہے ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں