بھارتی کسانوں کا احتجاج اور ردِعمل

بھارت میں کسانوں کے احتجاج کوبیرونی مدد حاصل نہیں ؛چنانچہ بھارت کسانوں کے اُن مفروضہ بیرونی رابطوں کو کیسے ختم کرے گا جو حقیقت میں ہیں ہی نہیں؟ روایتی طور پر مودی سرکاری کے پاس ایک ہی نسخہ ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے سب کچھ بند کردو لیکن بعض اوقات کسی چھوٹی سے چیز کو غیر ضروری طورپر بند کرنے کی کوشش بہت بڑی خبر بن جاتی ہے ۔ کسی خبر کو پھیلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس پر پابندی لگادی جائے ۔آواز کو شور میں بدلنے کا بہترین طریقہ اسے دبانے کی کوشش کرنا ہے۔عوام کو مشتعل ہجوم میں بدلنا ہوتو ان پر طاقت کا استعمال کریں ۔
یہ کسی مزاحمت یا تحریک کا درجہ حرات بڑھانے کے لیے آزمودہ طریقے ہیں۔ حیرت ہے کہ جب ان نتائج کا پتہ ہے تو حکومتیں اس روش سے باز کیوں نہیں آتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دبائو کے عالم میں زیادہ تر انسان‘ ادارے اور حکومتیں گھبراکر وہی قدم اُٹھا لیتی ہیں جو اس مسئلے کو بڑھا دیتے ہیں جس سے نمٹنا مقصود ہوتا ہے ۔اس کے لیے ہنگامی فیصلے کیے جاتے ہیں جن کا فوری اور ہنگامی ردعمل آتا ہے۔ ممکن ہے کہ فوری نتائج عارضی طور پر اچھے ہوں لیکن جلد ہی یہ کوشش آگ بجھانے کیلئے اس پر تیل گرانے کے مترادف بن جاتی ہے ۔
بھارت کی پرانی عادت ہے کہ ہر خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد عسکریت پسندی کے لیے بھی پاکستان پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں ۔ بھارت کی بہت بڑی آبادی کی وجہ سے اس ملک کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور مارکیٹنگ کے زیرک طریقوں کی وجہ سے بھارت کی آواز بہت دور تک سماعتوں کو متاثر کرتی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کی کمزور‘ دفاعی اور غیر واضح آواز بمشکل ہی کہیں سنائی دیتی تھی ۔ اس رویے نے بھارت کو اپنا بیانیہ آگے بڑھانے میں مدد دی اور اُس نے دنیا کو باور کرانا شروع کردیا کہ پاکستان انتہاپسندی جبکہ انڈیا ترقی پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔بھارت کا یہ پرانا ڈھونگ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے جبکہ انڈیا امن کا گہوارہ ہے ‘ اور پھر مغرب میں پھیلے ہوئے اسلام فوبیا نے بھی پاکستان مخالف بھارتی مؤقف کی حمایت کی ۔ انہیں پاکستان کو دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ قرار دینے کے لیے عالمی انتہاپسندی کا مشترکہ جواز مل گیا۔ جس دوران پاکستان میں پیش آنے والے دہشت گردی کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کو اس مؤقف کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ‘ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی اور نسلی جنونیت پر بڑی حد تک 'سیکولر‘ ریاست کے جھوٹ کا پردہ پڑا ہواتھا ۔ دنیا اسی مغالطے میں رہی یہاں تک کہ کچھ واقعات نے یہ پردہ ہٹانا شروع کردیا :
1۔ مودی کی سفاکیت : مودی کو 2019 ء کی انتخابی کامیابی کا زبردست نشہ تھا ۔ یہ کامیابی پاکستان سے نفرت کا پرچار کرتے ہوئے اُسے ملی تھی اور اس سے شہ پاتے ہوئے نریندر مودی نے کشمیر میں جبر کا ہاتھ مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ آرٹیکل 370 منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر پر لاک ڈائون لگا دیا گیا ۔ بھارتیوں کا خیال تھا کہ موجودہ عالمی حمایت اور مغرب کی لاتعلقی کی وجہ سے وہ چند ایک ماہ میں کشمیریوں کو اپنی مرضی کے تابع کرلیں گے ‘ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ کشمیریوں نے ہمت نہ ہاری۔ دہلی کے کشمیری حامیوں نے بھی لاک ڈائون پر بغاوت کردی ۔ اس دوران پاکستان نے سرگرمی سے کام کیا اور بھارت کو تمام فورمز پر بے نقاب کرنا شروع کردیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا اپنا فرض بنا لیا ۔اس طرح بھارت جس چیز کو چند ماہ کاکھیل سمجھتا تھاوہ ایک سال گزرنے کے بعد تاریخ کے سفاک ترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے ۔ میڈیا نے بھی چاروناچار اس کی رپورٹنگ شروع کردی۔ مودی اپنے ہی جال میں پھنس گیا ۔ اب وہ نہ لاک ڈائون اُٹھا سکتاہے اور نہ ہی مغرب کواسے انسانی تاریخ کا بدترین محاصرہ قرار دینے سے روک سکتا ہے ۔
2۔ اندرونی تقسیم : نفرت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی فتح خود کو ہی نقصان پہنچاتی ہے ۔ انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کرنے کے بعد مودی نے محسوس کیا کہ بھارت کے ہر مسئلے کا حل نفرت کے چورن سے کیا جاسکتا ہے ۔ جب معاشی ترقی کی رفتار سست ہوئی اور لوگ بیروزگار ہونا شروع ہوئے تو مودی نے شہریت ترمیمی بل 35Aمتعارف کرانے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے بھارت کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا۔ دہلی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ریاستی قوت کا بے رحمانہ استعمال ہوا اور فسادات کروائے گئے ۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کی وجہ سے جو صورتحال نظروں سے اوجھل تھی بھارت کے ہر بڑے شہر سے اس کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔ اس کے بعد کورونا وائرس کا حملہ ہوگیا ۔ مودی کے لیے اپنی آمرانہ سوچ نقصان دہ ثابت ہوئی جب اس وبا کے حملے کی وجہ سے صرف چار گھنٹوں کے نوٹس پر بھارت کو بندکردیا گیا ۔ لاکھوں مزدور مہاجروں کی طرح اپنے گھر وں کی جانب واپس جانے کی کوشش میں سڑکوں پرپھنس گئے ۔ عالمی میڈیا نے دیکھا کہ کس طرح لوگ سڑکوں پر بھوکے پیاسے خوار ہو رہے تھے ۔ اس نے بھارت کے چہرے پر مزید کیچڑ مل دیا۔ اب بھارت کو معیشت اور کورونا مینجمنٹ کے ناکام کیس کے طور پر دیکھ دیکھا جارہا ہے ۔
3۔ عالمی سطح پر منفی تاثر : وائر س سے معیشت کو پہنچنے والی زک کے بعد جب کورونا متاثرین کی تعداد کم ہونے لگی تو مودی سرکار جلد از جلد معیشت بحال کرنا چاہتی تھی ۔ اُس نے زرعی شعبے میں فصلوں کی قیمتوں میں اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کی۔ یہ پالیسی کسی پیش بینی کے بغیربنائی گئی تھی ؛چنانچہ کسانوں نے اسے مسترد کردیا اور احتجاج پر اُتر آئے ۔ اُنہوں نے حکومت کے سامنے اپنی بھر پور قوت کا اظہار کیاجو چھوٹے کاشت کاروں کے مفادات کو نظر انداز کر تے ہوئے کارپوریشنز کافائدہ کررہی تھی ۔ کسانوں کا خیال ہے کہ آنے والے وقتوں میں نجی سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ قائم ہوجائے گا اور پھر چھوٹے کسان بڑی کارپوریشنز اور مارکیٹ کی قوتوں کے رحم وکرم پر ہوں گے ۔ متعارف کرائی جانے والی زرعی اصلاحات اُنہیں عدالتوں میں جانے کے حق سے محروم کردیتی ہیں ۔ اس کی بجائے اُنہیں تنازعات کے حل کے لیے سرکاری افسران سے رجوع کرنے کا کہتی ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے تمام اختیار اور فیصلوں کا کنٹرول طاقت ور حلقوں کے پاس چلا جائے گا۔ شروع میں تو چند ہزار کسان احتجاج کررہے تھے لیکن اب تک یہ ملک کا سب سے بڑا اور طویل عرصے تک جاری رہنے والا احتجاج بن چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی کارکنوں اور مشہور شخصیات کی توجہ اس طرح مبذول ہوگئی ہے ۔ گلوکارہ ریحانہ سے لے کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے آواز بلند کرنے والی سویڈن کی کارکن گریٹا تھنبرگ اور مینا ہیرس سے لے کر کیرن عطیہ تک سب ٹویٹ کررہے ہیں کہ دنیا کسانوں کے احتجاج پر خاموش کیوں ہے ؟ بھارتی فن کاروں کے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عالمی شخصیات اپنے کام سے کام رکھیں ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مقامی کاشت کاروں کا احتجاج اب عالمی انسانی حقوق اور نا انصافی کا ایشو بن چکا ہے ۔
ایک جھوٹ چھپائیں تو ہزار خرابیاں پید اہوجاتی ہیں ۔ بھارتی حکومت نے نفرت‘ طاقت کے استعمال اور ''بند کرو‘‘کی حکمت عملی اپنارکھی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جارہے ہیں ۔ جب ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اقلیتوں کے خلاف مودی کے جبر کی خوفناک کہانیاں بیان کرنا شروع کیں تو بھارت نے تنظیم کادفتر ہی بند کردیا۔ کسانوں کے احتجاج کے دوران دہلی میں انٹر نیٹ بند کردیا گیا ۔ جب معاملہ عالمی سطح تک پہنچ گیا تو مودی سرکاری مشتعل ہوگئی ۔ امریکی وکیل مینا ہیرس نے اپنے ٹویٹ میں بھارت میں جمہوریت پر سوال اُٹھا دیا ۔ اس پر بھارتی وزارت ِخارجہ نے ''بیرونی افراد‘‘اور اہم شخصیات پر ''ہیجان خیزی ‘‘ پھیلانے کا الزام لگایا ۔ اُنہوں نے ٹویٹر انتظامیہ سے اُن ہزاروں اکائونٹس کو بند کرنے کا بے تکامطالبہ کر ڈالا جو اُن کے خلاف بات کرنے کی جرأت کررہے ہیں ۔ ٹویٹر نے مزاحمت کی لیکن اپنے مقامی ملازمین کے جیلوں میں ڈال دینے کی دھمکی سے مرغوب ہوکر اس نے وہ اکائونٹس بند کردیے ۔ یہ قدم آزادی اظہار کے دعوؤں کے برعکس تھا ۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ کوئی رورعایت برتے بغیر ‘کھل کر بھارت کے دہرے چہرے کو دنیاکے سامنے بے نقاب کیا ۔ بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان کے دعوؤں کومسترد کیا تھا ۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک تھااور عالمی طاقتوں کوخطے میں چین کے مقابلے پر اس کی ضرورت بھی تھی۔ پاکستان ایک ایسا بیس تھا جس کی مغرب کو کبھی جنگ کے زمانے میں ضرورت پڑتی تھی۔ افغانستان سے افواج کے انخلاف کے بعد پاکستان کی تزویراتی اہمیت تبدیل ہونا لازمی تھا ۔
پاکستان کو وائٹ ہائوس میں آنے والی نئی حکومت کے ساتھ یہی اہمیت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو سری لنکا‘ نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں۔خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت ملے گی کہ یہ خطے میں امن کاخواہاں ہے ۔کورونا کی ویکسین دستیاب ہوچکی ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کہ بھارتی معیشت بحال ہوجائے گی اور اس کے بعد ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مالی اور سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر بھارتی ظلم وجبر کو نظر انداز کردیں ۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ضرور ی ہے کہ پاکستان خطے اوردنیا کے دیگر ممالک کے سامنے خود کو ایسے ملک کے طور پرپیش کرے جس کی کوویڈ کے بعد کے عالمی نظام میں بے حدا ہمیت ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں