قیادت کی پر کھ کا معیار

چالاک ‘ چالباز اور مکار۔ ایسے لیڈروں کی پاکستان میں پذیرائی ہوتی ہے ‘ سراہے جاتے ہیں‘ گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں‘ والہانہ استقبال کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں رول ماڈل بننے کے خواہش مندوں میں یہ خوبیاں ہونی چاہئیں۔ قیادت کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے ان پرُکشش خوبیوں اور صفات کے ساتھ بے ضمیری بھی اختیار کرلیں ۔ ان اقدار کے ساتھ اس طرزِعمل کو اپنا لیں ‘ سیاسی راہداریوں میں اہم مقام برقرار رکھنے کا نسخہ تیار۔ یہاں اس کردار کے افراد کی پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ چاہے وہ جتنے بھی بدنام ہو جائیں اُن کے مداحوں کے دل و دماغ پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان راہوں پر چل کر کامیابی حاصل کرنے والے اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔
عالمگیر اصولوں پر پرکھیں تو ایسے افراد کو لیڈر کہنا بھی توہین ہے لیکن ہمارے ہاں سب چلتا ہے ۔ بدقسمتی سے سماجی قدریں مقبولیت کو دیکھتی ہیں معیار پرنہیں پرکھتیں۔ شاید یہ ہمارے وقتوں کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔کورونا سے بھی زیادہ خطرناک‘ سائنائڈ سے بھی زیادہ زہریلا۔ یہ ہمارے معاشرے میں اس طرح رچ بس چکا ہے کہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرتا رہے گا۔ اخلاقی قدروں کا معیار انتہائی پست اورغلط کو برداشت کرنے کا رویہ ناقابلِ برداشت حد تک توانا ہوچکا ہے ۔ غلط صحیح بن چکا اور صحیح تو ایک حماقت ہے۔کیا ایسا ہی نہیں سمجھا جاتا؟ نظام کو چکما دینے والا نظام کے مطابق چلنے والے سے زیادہ سراہا جاتا ہے ۔ٹریفک اشارے کی خلاف ورزی کرکے نکل جانے والے اور قطار توڑ کر اپنا کام کروانے والے سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ باری کا انتظار کرنے والے بس دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
اسے سماجی اور اخلاقی انحطاط کہا جاتا ہے ۔ ایسے معاشروں میں صحیح اور درست رویے دم توڑ جاتے ہیں۔ ایسے سماج میں آسانی سے دولت سمیٹنے کا خبط پایا جاتا ہے ۔ غلط کو انعام ملتا ہے ‘ صحیح کو سزا۔ جو اخلاقیات کی بات کرتے ہیں اُن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اور جو ہرجائز اور ناجائز طریقے سے دولت اور اختیار حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں اُن کی قدر ہوتی ہے ۔ بدعنوان دانشوروں کی معاونت سے اُن کے خلاف بیانیہ کھڑا کردیتے ہیں جو اس بے روح اور بداخلاق نظام کو توڑنے کی جرأت کرتے ہیں ۔ آئیں اس ملک میں قیادت کے نام کو غلط مطلب دینے کی اقسام کا جائزہ لیں:
1۔ راست بازی نقصان دہ ہے۔ ایسے نام نہاد دانشوروں کی پھیلائی ہوئی سوچ یہ ہے کہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ایماندار ہونے کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ جس نے ایمانداری سے کام لینا ہے اُسے چاہیے کہ کسی مسجد کا امام بن جائے ۔ چین اور دیگر کئی ملکوں کی مثالیں دے کر ثابت کرتے ہیں کہ وہاں بھی بدعنوانی ہے‘ وہ ممالک تیزی سے ترقی کررہے ہیں ۔ اسی طرح مہارت اور تجربے کو بھی کامیابی کی لازمی شرط مانا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کامیابی کے لیے مہارت ضروری ہے لیکن اگر اس کے ساتھ دیانت نہ ہوتو پھر بے شمار نقصان کرکے چند ایک کوفائدہ حاصل ہوگا۔ مزید یہ کہ مہارت کی تشریح بہت دلچسپ ہے ۔ اس سے مراد نظام کو چلانے کی صلاحیت نہیں بلکہ اسے چکما دینے کا ہنر ہے ۔ اس کی حالیہ مثال نواز شریف ہیں جنہوں نے نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکی اورباہر چلے گئے۔ یا آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کے لیے سینیٹ کی سیٹ نکال لی ۔ سب کے سامنے تجربے اور مہارت کے ادغام نے کامیابی حاصل کرلی ۔
2۔ پارلیمانی اقدار اور زبان ـ : دوٹوک اور کھری بات کرنامروجہ ''پارلیمانی آداب‘‘ کے منافی ہے۔اگرچہ حزب ِاختلاف کے رہنمائوں کو اعلیٰ عدلیہ نے جھوٹ بولنے ‘ دھوکہ دینے اور لوٹ مار کرنے پر سزائیں دی ہیں ‘لیکن اُنہیں چور کہنا بداخلاقی کہلائے گی ۔ اگر یہ سزا یافتہ افراد جیلوں میں وی آئی پی سہولیات کا مطالبہ کررہے ہیں تو انہیں ان سے محروم رکھنا تنگ نظری اور چھوٹی ذہنیت کی علامت قرار پائے گی ۔ اگر وزیر اعظم ہائوس کو علم کے گہوارے میں تبدیل کیا جارہا ہے تو اسے ایک حماقت اور آئینی علامت کا غلط استعمال سمجھا جاتا ہے ۔ دکھاوا‘ منافقت اورچاپلوسی کو دانائی جبکہ سچ کوسیاسی اناڑی پن کہا جاتا ہے ۔
3۔ آپ کی سابق یا موجودہ حیثیت آپ کے جرائم کو درست کردیتی ہے ۔ قانونی اداروں سے ملنے والی سزا اور ہونے والا احتساب غلط سمجھا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے شخص کے ساتھ اس طرح بدسلوکی کس طرح کی جاسکتی ہے ‘حتیٰ کہ جب اُنہیں سزا سنائی جاتی ہے اورنااہل قرار دیا جاتا ہے تو بھی سابق حیثیت کی وجہ سے ان کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے ۔اس دوران اگر وہ نظام کو چکما دے کر ملک سے فرار ہوجائیں تو یہ نظام کا قصور ہے ۔ذرا تصور کریں کہ نواز شریف کی تقاریر میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف کس طرح کچھ اہم لوگ عدالت چلے گئے تھے ۔یہ سب آزادیٔ اظہار کے نام پر کیا گیا ۔ قیادت کسی پوزیشن کا نہیں ‘ رویے اور طرزِ عمل کا نام ہے ۔ اگر قیادت کے مرتبہ سے اترتے ہی آپ کو این آر او یاچکما دے کر یا آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل جانے کی ضرورت پڑجائے تو آپ دراصل دنیا کے بدنام ترین شخص ہیں ۔ تصور کریں کہ کس طرح اُن کی لوٹ ماراور منی لانڈرنگ کو معمولی مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔یہ تاثر ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے اُن کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک پارلیمانی اسلوب کے منافی ہے ۔ یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ یہ رہنما عالمی سطح پر ملک کی کس قدر بدنامی کا باعث بنے ہیں ۔ آصف زرداری کو ان پر لکھے گئے دنیا میں ہرکالم اور بنائی گئی ہر ڈاکو منٹری میں جن ''اسمائے صفت‘‘ سے یاد کیا گیا انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جب پاناما کیس سامنے آیا تو نواز شریف اور اُن کے خاندان کی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل میں نمایاں طور شائع ہوئیں ۔ نوازشریف کو ایک اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب 2017 ء میں اُنہیں ورلڈ اکنامک فورم میں بات کرنے کا موقع دینے سے انکار کردیا گیا کیونکہ اُن کا نام پاناما پیپرز میں آچکا تھا ۔ یہ حقائق سامنے لانے پر ردعمل یہ آتا ہے کہ عمران خان نے اپنی ٹیم میں بدعنوان افراد کو شامل کیا ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمران خان کو بدعنوان نہیں کہہ سکتا‘ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ یہ ہے کہ عمران خان حکومت چلانے کے لیے نااہل ہیں۔ اُن کی قیادت میں پاکستان نے کورونا اور معاشی مینجمنٹ میں زبردست کارکردگی دکھائی لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے معاشی اشاریوں سے موازنہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی معاشی نمو کا دارومدار قرض پر تھا ‘ اُن کے ڈالر کے نرخوں نے برآمدات کا کباڑا کردیا تھا۔ جب 2018 ء میں (ن) لیگ حکومت کی مدت ختم ہوئی تو موڈیز نے پاکستان کی معیشت کو منفی اور غیر مستحکم قرار دیا تھا اور ریاست دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار تھی ۔ من پسند ٹیکنیکل مواد کا حوالہ دے کر یہ سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے ۔
جب آپ کے ر ول ماڈل وہ ہوں جو مال اکٹھاکرنے میں پھرتیلے ‘ اور دھوکہ دہی اور فریب کاری پر نازاں ہوں تو پھر یقین کرلیں کہ آپ کی نوجوان نسل کا مستقبل سماجی اور اخلاقی تباہی کے دہانے پر ہے ۔ پاکستان میں جنگ صرف کورونا‘ معیشت‘صحت اور تعلیم کے محاذوں پر ہی نہیں بلکہ اقدار کے اس نظام کے ساتھ بھی ہے جو مجرموں‘ سزا یافتہ ‘ لٹیروں اور جھوٹوں کو سراہتا ہے ‘ انہیں ہیرو کا درجہ دیتا ہے ۔ جب تک اس رویے میں تبدیلی نہیں آتی ترقی مصنوعی اور ملمع کاری کے سو ا کچھ نہیں ہوگی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں