نام نہاد تعلیم یافتہ افراد کی جہالت

پڑھے لکھے جاہل ‘ یا تعلیم یافتہ اَن پڑھ ‘ آپ جو بھی کہہ لیں۔ یہ ہے وہ طبقہ جو پہلے سے غیر محفوظ دنیا کی افراتفری میں اضافہ کررہا ہے ۔ زیادہ تر گفتگو غیر تعلیم یافتہ اور غریب طبقے کے بارے میں ہوتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی بہتر کرنے کے قابل نہیں لیکن اُن کے بارے میں کیا کہا جائے جو کرسکتے ہیں‘ لیکن نہیں کرتے؟ وہ جو جانتے ہیں لیکن نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ جنہیں کرنا چاہیے ‘ لیکن نہیں کرتے۔ یہ طبقہ تنقید سے بھی بچ نکلتا ہے ۔ یہی طبقہ درحقیقت سماج میں تقسیم کی لکیر کھینچتا ہے ۔ ذرا غور کیجیے ‘ ایک دکان مہنگی اشیائے ضروریات فروخت کرتی ہے ۔ ایک خاتون اور اس کے بچے دکان میں آتے ہیں۔ اُنہوں نے بہترین برانڈڈ کپڑے تو پہنے ہوتے ہیں لیکن ماسک لگانے کی زحمت نہیں کی ہوتی۔ دکاندار نے خود ماسک پہنا ہوا ہے لیکن اُس میں ان اعلیٰ تعلیم یافتہ جاہل افراد کو ماسک پہننے کا کہنے کی ہمت نہیں ۔ یہ ہے ہمارا تعلیم یافتہ اور باخبر طبقہ !
اَن پڑھ افراد کی جہالت عام دکھائی دیتی ہے ۔ تعلیم یافتہ افراد کی اصلیت اس مخصوص ماحول کی آڑ میں چھپی رہتی ہے جو اِن کی فکری جہالت پر پردہ ڈالے رکھتا ہے ۔ وہ عمدہ گفتگو اور فکری مباحث کے ذریعے اپنی اصل ذہنیت چھپاتے ہیں ۔ ان کی اصلیت پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ تنقید کے ریڈار سے دور رہتا ہے ۔ انہیں ترقی یافتہ معاشرے کا ستون سمجھا جاتا ہے ۔اُن میں سے زیادہ تر کے پاس قابلِ ذکر ڈگریاں بھی ہیں ‘زیادہ تر پیشہ ور یا سیلف میڈ افراد ہیں ۔ یہ بالائی درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والی قدرے کم حیثیت اشرافیہ ہے جس کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت کو سراہا جاتا ہے ۔ وہ بہتر حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ انہیں معاشرے کا رول ماڈل کہا جاتا ہے‘ لیکن یہ حقیقت نہیں ‘ مفروضہ ہے۔ بہت سے اپنے رویے سے خود ہی اس مفروضے کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں ۔
1۔ محنت کا صلہ: غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت مند افراد ہمیشہ دوسروں کا استحصال کرتے ہیں کیوں کہ اُنہیں دولت‘ حیثیت اور طاقت کی وجہ سے اجارہ داری حاصل ہوتی ہے ۔ غریب افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اُن کی شنوائی نہیں ۔ یہ دونوں طبقات تنقید کی زد میں رہتے ہیں ۔ دولت مندوں کو اُن کی بے رحمی اور غریبوں کو اُن کے گنوار پن کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ رول ماڈل طبقہ ‘درمیانی طبقے کے تعلیم یافتہ پیشہ ور لوگ ہیں جن کے پاس اعلیٰ اسناد ہیں ۔ اُنہوں نے تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر وظائف حاصل کئے اور پھر بلند پوزیشنیں حاصل کیں۔ اُن کے لکھے ہوئے مضامین کو پڑھا جاتا ہے ۔ فورمز پر اُن کی بات سنی جاتی ہے ‘ لیکن بدقسمتی سے اگر وہ تمام نہیںتو اُن میں سے زیادہ تر عوامی اعتماد مجروح کرتے ہیں۔ کتابوں کے لکھاریوں کو چھوڑیں‘ پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ اور ریسرچ سکالرز بھی خال خال ہی ملتے ہیں ۔ اس لیے جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں ان کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے ۔ ان میں سے چند ایک سوشل میڈیا پر کامیابیوں کی اتنی متاثرکن فہرست پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے دم بخود رہ جاتے ہیں۔ یہ 'اعلیٰ صلاحیتیں‘ اُن سے خصوصی سلوک کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ہم تعلیمی مشاورتی بورڈز ‘ تھنک ٹینکس اور سرکاری ٹاسک فورسز میں ایسے نام دیکھتے رہتے ہیں ۔ درحقیقت یہ 'تعلیم یافتہ افراد‘وہ ہیں جن کے بچے بیرونی ممالک کی جامعات میں وظائف پر پڑھتے ہیں لیکن اپنے ملک میں وہ کاروں سے باہر گند بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ شادی کی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے اُنہیں ایس اوپیز کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔
2۔ نظر انداز کرنے کی اجازت: درمیانی طبقے کے پیشہ ورماہرین ذہین بھی ہیں اور باخبر بھی ۔ وہ اپنی پوزیشنز ‘ ڈگریاں اور آواز استعمال کرنا جانتے ہیں ۔ اپنے معمولی پس منظر کو ویڈیوز اور انٹرویوز کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں سراہا جاتا ہے ۔ ان سے محنت اور لگن سے کام لینے کی تحریک لی جاتی ہے لیکن وہ اس پذیرائی کی آڑ میں بہت سے قواعدو ضوابط کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ قطار میں کھڑے ہونا اور اپنی باری کا انتظار کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کانفرنسز میں پیپرز پڑھنے جاتے ہیں لیکن اپنے اہلِ خانہ کو بھی مہنگے دوروں پر ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ ترقیاتی ایجنسیاں اُن کی سرپرستی کرتی ہیں ۔ وہ اُن کے منصوبوں میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ تحریر کی زبردست صلاحیت رکھتے ہوئے وہ مستند رپورٹس لکھ سکتے ہیں۔ ایسی رپورٹیں ترقیاتی ایجنسیوں کے ایجنڈے میں رنگ بھر دیتی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ اس رپورٹ کے خوش نما الفاظ کی آڑ میں کسی ناکامی کا جواز پیش کرنا یا کسی فیصلے پر اثر انداز ہونا مقصود ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے اخلاقیات‘ اقدار اور معمول کے قواعد کو نظر انداز کیا جارہا ہو‘لیکن رپورٹ لکھنے والوں کی ساکھ کی وجہ سے کوئی بھی اسے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
3۔ غلط کو صحیح کرکے پیش کرنا : ان نام نہاد 'رول ماڈلز‘ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی چاہے وہ اصولوں کی کتنی ہی پامالی روا رکھیں ‘ ان کی لابی اُن کا تحفظ کرتی ہے ۔ چند سال پہلے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو گرفتار کیا گیا ‘ اُن پر قوانین کی خلاف ورزی سے لے کر جنسی طو رپر ہراساں کرنے کے الزامات تھے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے اتنا دبائو ڈالااور ''اساتذہ اکرام سے یہ سلوک‘‘ کے نام پر ایسی مہم چلائی گئی کہ تحقیقاتی ایجنسی کو قدم پیچھے ہٹانے پڑے ۔ اسی طرح بہتر علم اُنہیں قوانین بنانے اور اپنا تحفظ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ جب کسی چیز پر پابندی ہو تو بھی وہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی نظروں کے سامنے اس کی خلاف ورزی کی راہ نکال لیتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں‘وہ آپ کو بھی مشورہ دیں گے کہ کس طرح آپ اور آپ کے دوست کسی سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اُن کا ناجائز اثرورسوخ صرف پیسے ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی سی وی بھی وزن رکھتی ہے ۔ اُن کی تعلیمی کامیابیاں‘ اسناد اور انعام وغیرہ بہت سے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے لیے ناجائزفائدہ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ جامعات میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کیوں کہ پروفیسرز کو اتنا مقدس سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کوئی باز پرس نہیں کی جاسکتی ۔
تعلیم یافتہ اورپڑھا لکھا ہونا ایسے الفاظ ہیں جن کی از سرنو وضاحت ضروری ہے ۔ اگرچہ پڑھا لکھا ہونے سے لفظی مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ شخص لکھ اور پڑھ سکے۔ تعلیم یافتہ کا مطلب تعلیمی ادارے کا ڈگری یافتہ ہونا ہے ‘لیکن یہ وضاحت ان علمی اسناد رکھنے والوں کے رویے‘ طرزِ فکر اور طرزِعمل کا احاطہ نہیں کرتی ۔ انسان اپنی اَنا کے اسیر ہوتے ہیں ۔ امیر افراد میں دولت اور غریبوں میں جہالت کی وجہ سے اَنا ہوسکتی ہے لیکن ایسا تعلیمی پس منظر اور اعلیٰ اسناد رکھنے والے افراد اَناپرست کیوں ہوتے ہیں ؟ ان کے پاس کیا جوازہے ؟ جو دوسروں کو اچھا انسان بننے کی تعلیم دے رہے ہیں اُن کی بدتہذیبی کی کیا وضاحت ہے ؟ لیکن یہ لوگ بھی اَنا کے اسیر ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور اسناد ان کی اَنا کی آبیاری کرتی ہیں ۔ لیکن ڈگریاں کردار کی عکاسی نہیں کرتیں ۔ ذہنی بالیدگی اور روحانی پاکیزگی کا اظہار کاغذی اسناد سے نہیں ہوتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی عظیم شخصیات کے پا س نہ کوئی تعلیمی ڈگری تھی نہ عہدہ اور نہ ہی اہم پس منظر ‘ لیکن اُن کا احترام کیا جاتا ہے ‘ اُن سے محبت کی جاتی ہے ۔ نقد رقم کی طرح سی وی کا انبار بھی آپ کو ذہنی اور جذباتی دیوالیہ پن کا شکار کرسکتا ہے ۔ اُن سے زیادہ شاید ہی کوئی جاہل ہو جو تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن گنواروں کا سا طرز عمل رکھتے ہیں۔Stephen Covey کا کہنا ہے : ''وہ جو جانتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے وہ درحقیقت کچھ نہیں جانتے ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں