ٹرک حملہ اور تھپڑ

ایک خاندان سیر سے لطف اندوز ہورہا ہے ۔اچانک گاڑی کے ٹائروں کے چرچرانے اور تیزی سے ٹکرانے کی آواز آتی ہے ۔ لمحوں کی بات ہے ۔ خوشگوار موڈ میں سیر کرنے والوں کی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ چیخوں میں بدل جاتی ہے ۔ وہ لہو میں نہا جاتے ہیں ۔ ایک بے گناہ خاندان پیوندِ خاک ہوا۔ ڈرائونے خواب سے دور‘ جیتی جاگتی ہولناک حقیقت ۔ اونٹاریو (Ontario) پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔مقامی حکومت بے چین ہوجاتی ہے ۔ خود وزیر اعظم تعزیت کرتے ہیں ۔ قرب وجوار کے لوگ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پھول رکھتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ بچنے والے نوسالہ بچے کے والدین اور اُن کی والدہ کی جان کیوں لی گئی ؟کچھ لوگ بچ جانے والے بچے کو خوش قسمت کہہ رہے ہیں ‘ کچھ بدقسمت ۔ اب وہ کس طرح جئے گا؟ اس کی دو نسلوں کی جیتی جاگتی محبت اُس سے چھین لی گئی ۔ ناقابل ِ تصور اذیت۔
ایسے سانحات کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ایک بیس سالہ نوجوان کی ٹرک چلاتے ہوئے اس خاندان پر نظر پڑی ۔ وہ ان کا اسلامی حلیہ دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگیا ۔ ٹرک کی رفتار تیز کی اور اُنہیں روند ڈالا۔ ایک مسلمان خاندان کی جان لینے پر وہ مطمئن ہے ۔ اسے کوئی تاسف نہیں ۔ یہ ہے اسلامو فوبیا ۔ یہ وائرس کی طرح تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ انڈیا میں دیکھیں کیا ہورہا ہے ‘ یورپ میں کیا ہورہا ہے‘ امریکا اور کینیڈا میں کیا ہورہا ہے۔ یہ بھارتی رویہ ہے جو دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پھیل رہا ہے ۔ بالکل کورونا وائرس کی طرح ۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس کا تدارک نہ کیا گیا تویہ کورونا وائرس سے زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔ بہت سی تھیوریاں ہیں کہ اس فوبیا کو پروان چڑھنے کی اجازت کیوں دی گئی ‘ لیکن مرکزی مسئلہ کچھ یوں ہے :
1۔ مقبول عام سیاست : گیارہ ستمبر سے شروع ہونے والا اسلامو فوبیا گزشتہ عشرے سے حقیقی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ امریکا میں مسلم مخالف سرگرمیوں میں واضح اضافہ دکھائی دیتا ہے ۔ ایک دستاویز کے مطابق 2012 ء لے کر 2018 ء کے درمیان 763 ایسے واقعات پیش آئے۔ اسلاموفوبیاآسٹریا‘ ہنگری‘ برطانیہ‘ پولینڈ‘ روس‘ امریکا اور بھارت میں مقبول عام قوم پرست سیاست کا اہم جزو ہے ۔ یہ عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی آمرانہ مزاج سیاست سے جڑا ہوا تصور ہے۔ یہ ماضی‘ نسل‘ ذات یا عقیدے کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے ۔
صرف 2018 ء میں ہی فرانس میں 52فیصد اسلامو فوبیا بڑھا۔ آسٹریا میں اس میں 74فیصد اضافہ ہوا ۔ وہاں اسلامو فوبیا کے 540 واقعات پیش آئے ۔سویڈش کرائم انویسٹی گیشن کونسل نے 2016ء سے2018 ء میں اسلامو فوبیک حملوں کا سامنا کرنے والے 500 افراد کی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت کو دھمکیاں دی گئیں اور ہراساں کیا گیا۔کونسل کے محقق جوہانا اولسریڈ نے کہا ''متاثرین افراد میں مسلمانوں کی نمایاں خصوصیات موجود نہیں تھیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ مذہبی لباس پہنتے ہیں اور اپنے مسلمانوں کے ساتھ میڈیا میں نمایاں ہیں ان پر حملہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے‘‘۔
چارلی ہیبڈو واقعے کے بعد فرانس کے صدر میکرون کا بیان اسلام پر براہ راست حملہ تھا؛ چنانچہ اس کا سخت ردعمل بھی آیا۔ عوامی مقبولیت کی لہر کو اپنے حق میں کرنے کے لیے مذہبی اشتعال انگیزی ایک آسان سیاسی حربہ بن چکی ہے ۔ اس کی وجہ سے بے چینی‘ رجعت پسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے ۔
2۔ اسلامی دنیا میں تزویراتی خلاء: اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرے کے سامنے اسلامی دنیا کی قیادت نے یا تو دفاعی پوزیشن لی یا اس نے لاتعلقی اختیار کرنا بہتر سمجھا ۔ اسلامی تنظیمیں جیسا کہ اوآئی سی نے اس فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بے خوف اور مربوط حکمت عملی نہ اپنائی ۔ اس کے نتیجے میں لوگ یا ممالک اپنے طور پر انفرادی اقدامات کرتے رہے ۔ بیرونی ممالک میں کسی تحفظ کے بغیر اور اسلامی ممالک میں معمولی حمایت کے ساتھ کچھ افراد ردعمل دکھاتے ہیں ۔ ردعمل میں کی گئی ان کارروائیوں کو مغربی میڈیا اچھالتے ہوئے مسلمانوں کو دہشت گرد یا انتہا پسند بنا کر پیش کرتا ہے ۔ چارلی ہیبڈو کیس کی بات کرلیں ‘ اس واقعے سے بے پناہ ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ پیرس کے قریب ایک قصبے کے سکول ٹیچر سیموئل پیٹی(Samuel Paty) کو سوِکس کی کلاس کے دوران توہین آمیز خاکے دکھانے پر چیچنیا کے جذباتی نوجوان نے قتل کردیا ۔ اگرچہ مغربی میڈیا نے تمام مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دیا ‘ مسلم کمیونٹی حجاب پر پابندی کو انتہا پسندی اور شخصی آزادی کی سنگین خلاف ورزی قرار دلانے میں ناکام رہی ۔
3۔ میڈیا کی موجودگی : کھلے کینوس پر کوئی بھی تصویر پینٹ کرلیں ۔ میڈیا کی غیر موجودگی میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ مسلمان ممالک اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے بیانیے کے مقابلے میں کوئی بیانیہ نہ لاسکے ۔ اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر انڈین ڈس انفارمشین آرمی نے مغربی چینلوں کے مؤثر ابلاغ سے فائدہ اٹھا کر دنیامیں خیالات کے بہائو کو کنٹرول کیا ہے ۔ ایسا صرف حال ہی میں ہوا جب وزیر اعظم عمران خان نے مودی کو ہٹلر کا پیروکار اور اُس کی جماعت آرایس ایس کو نازی پارٹی جیسا قرار دیا توگویا بھارت کے شیش محل پر پتھر جا لگا ۔ تاہم اس کوشش کو وسائل‘ تائید اور وسیع حمایت درکار ہے ۔
نفرت کی آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہے ۔ گیارہ ستمبر کی کہانی کمیونی کیشن کوہینڈل نہ کرنے کا سانحہ تھا جس کے نتیجے میں خطرناک بیانیہ پروان چڑھا ۔ کووڈ 19 کے بعد جب ملازمتوں کے مواقع نایاب ہیں ‘ تارکین وطن کو مار بھگانے کی خواہش شدید ہوتی جائے گی ۔ اس لیے اسلامو فوبیا اور اس کے مضمرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر کوئی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ۔
1۔ چمپئن کی تلاش : پس منظر کی بہتر تفہیم کے لیے ہمیں مغرب میں قابل ِاحترام افراد کو تلاش کرنا ہے ۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ایسی ہی ایک شخصیت ہیں ۔ مسجد حملے میں پچاس مسلمانوں کے شہید ہونے پر وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے ردعمل نے مسلمانوں کو امیددلائی ۔ اُنہیں کچھ معتدل مزاج علاقائی آوازوں کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔یورپ اور ایشیا کے رہنمائوں کو اس مقصد کے لیے لابنگ کرنی چاہیے ۔
2۔ اتحاد کی ضرورت : اس دوران اسلامی دنیا کو بھی مذہبی جذبات کے احترام کی پاس داری کے لیے سیاسی اور قانونی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ یورپین کورٹ آف ہیومین رائٹس نے 2018 ء میں رولنگ دی تھی کہ پیغمبر کی توہین آزادی ٔاظہار کی ذیل میں نہیں آتی ۔رولنگ کے الفاظ میں'' پیغمبر کی توہین بامقصد بحث کی قابل ِقبول حدود سے تجاوز کرتی ہے‘‘۔ تمام مسلمان ممالک کے لیے یہ بیان قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔وہ اسے بنیاد بنا کر اقوام متحدہ سے Antisemitic lawsجیسا قانون بنانے کی درخواست کرسکتے ہیں جو اللہ کے آخر نبی ﷺ کی ناموس کا تحفظ یقینی بنائے۔
3۔ بیانیے کی تشکیل اور فعالیت : ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے مربوط اور جامع مہم چلائی جائے ۔ مغربی عوام اس صورت ِحال کو صرف اپنے میڈیا کے نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس موضوع کو تصویری اور دستاویزی صورت پیش کرنے اور اسے معقول بحث کے دائرے میں لانے کے لیے سوشل میڈیا اور نیٹ فلیکس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے اسلام کا امن اور ترقی پسندی پر مبنی متاثر کن پیغام سامنے لانے کی ضرورت ہے جو حجاب جیسے مسائل سے بلند ہو۔ بین المذاہب ہم آہنگی پر سول سوسائٹی فورم کو وسیع تر نیٹ ورک قائم کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں مذاہب کا احترام اجاگر کرنا ہوگا۔
حقیقی راہ نما سوشل میڈیا رجحانات سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ وہ حقیقت اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ کسی ٹوئٹر ٹرینڈ کے محتاج نہیں ہوتے ۔ کچھ افراد کے افعال کوجواز بناتے ہوئے پورے مذہب کی توہین کرتے ہوئے ممکن ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے آپ کو داد وتحسین مل جائے لیکن کہیں نہ کہیں سے اس کا ردعمل ضرور آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر میکرون نے فرانسیسی مسلمانوں پر ''علیحدگی پسندی‘‘ کا الزام لگایا تھا ۔ فرانسیسی صدر کے یہ الفاظ انتہائی ناروا اور غیر منصفانہ تھے کہ اسلام کو بطورِ مذہب بحران کا سامنا ہے ۔
اس رویے سے نہ صرف عام مسلمانوں کی طرف ردعمل آئے گا بلکہ اُنہیں بھی انتہائی اقدامات کی شہ ملے گی جو عمومی طور پر آپ کے خلاف ہیں ۔ اس کی ایک مثال ایک نوجوان کا تھپڑ رسید کرنا تھا ۔ یہ تھپڑ ایک انتہائی لیکن انفرادی فعل پر انتہائی ردعمل دینے کا جواب تھا ۔ دہرا معیار کوئی معیار نہیں ہوتا‘ جیسا کہ رابن شرما نے کہا تھا ''ہمارا طرزعمل ہمارے الفاظ سے کہیں زیادہ ایمان دارہوتا ہے ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں