معاشی قلت

تیل کی قیمت اوپر جارہی ہے‘ کوئلہ جلانا پڑرہا ہے‘ گیس نایاب ہوچکی ہے ‘ سامان رسد کے کرائے بڑھ چکے ہیں‘ ٹرک گنجائش سے زیادہ سامان سے لدے ہوئے ہیں‘ فلائٹس کینسل ہورہی ہیں۔ معیشت سلگ رہی ہے جبکہ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ برطانیہ سے لے کر امریکا تک اور چین سے لے کر پاکستان تک صورتحال گمبھیر اور تکلیف دہ ہے ۔ یہ معاشی قلت کی دنیا ہے۔ قدرتی وسائل ‘ پیداوار اور رسد میں کمی ایک معمول ہے‘ جبکہ مزدوری نہ ملنا ایک مسئلہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ پیداوار کم ہونے یا رُک جانے سے ذخیرہ اندوزی کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے فعال ہیں ۔ ان سب کی وجہ سے عوام پریشانی‘ بے چینی‘ عدم مساوات اور ناہمواری کا سامنا کررہے ہیں۔
معاشی قلت وہ صورتحال ہے جس میں کسی پیداوار یا سروس کی ضرورت اس کی فراہمی سے بڑھ جاتی ہے ۔ ایسی صورت میںکہا جاتا ہے کہ نظام ناہمواری کا سامنا کررہاہے ۔ یہ ناہمواری اشیا کی قیمت کو غیر معمولی حد تک بڑھا کر‘ رسد کے سلسلے کو بگاڑ کر معیشت کو عدم توازن کا شکار کردیتی ہے ۔ یہ صورتحال دنیا میں ہر جگہ ہے ۔ کووڈ سے پہلے کی حکمت عملی اب مستعمل نہیں رہی۔ ماضی میں ایک سے زیادہ سپلائر یا متبادل سپلائر موجود ہوتے تھے ۔ موجودہ معاشی صورتحال میں ہر جگہ قلت کاسامنا ہے ۔ اسی طرح ماضی کی طرح مزید متبادل تلاش کرنے کی حکمت عملی آج کام نہیں دے رہی کیونکہ پریشان کن مسائل ہر جگہ ہیں ۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ اس قلت کی وجہ کیا ہے ‘ نیزاسے حل کیسے کیا جائے ۔
1۔ عالمی وباکی وجہ سے مفلوج معیشت :دنیا کے بعض حصوں میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ ویکسین کے باوجود بہت سے ممالک میں چوتھی اور پانچویں لہر پہلے سے زیادہ شدید رہی ہے ۔ امریکا میں ستمبر میں یومیہ اموات دوہزار سے زیادہ رہیں۔ ویکسین کی فراہمی میں دکھائی دینے والی ناہمواری نے وائرس کو کنٹرول کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ کم و بیش 80 فیصد دنیا ابھی تک پہلی ڈوز کا انتظار کررہی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے شہری تیسری ڈوز لگوا رہے ہیں۔ اس نے ویکسین کی فراہمی کے سلسلے کو متاثر کیا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعات تیار کرنے والے ملک ‘ چین کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اورگیس کی قلت نے خام مال سے مصنوعات ‘ جیسا کہ چِپ اورسیمی کنڈکٹر کی تیاری محدود کردی ہے ۔ اس نے الیکٹرانکس‘ کاروں اور دیگر مصنوعات کی تیاری کو متاثر کیا ہے ۔مزدوروں کی کمیابی نے سامان کی رسد بگاڑدی ہے ۔ کورونا کے دوران کاروباری اداروں نے ملازمین کو فارغ کردیا تھا۔بندرگاہوں کے مزدور اور ٹرکوں کے ڈرائیور دستیاب نہیں۔ اس کی وجہ سے بندرگاہوں پر لنگر انداز بحری جہازوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ان سے سامان اتارنے کے لیے افرادی قوت ضرورت سے بہت کم ہے ۔ اس صورتحال نے مہنگائی کا جن بوتل سے آزاد کردیا ہے ۔ کتابوں کا ایک کنٹینر جس کی امریکی بندرگاہ پر پچیس سو ڈالر لاگت تھی‘ اب اس پر پچیس ہزار ڈالروصول کیے جارہے ہیں ۔
2۔ ناہموار بحالی : ناہمواری کی وجہ سے عدم توازن پیدا ہورہا ہے ۔ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد اشیا کی طلب میں ہوشربا اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے اور پھر کرسمس بھی قریب ہے ۔ بے تحاشا خریداری کے لیے اشیا کی دستیابی ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ سے چیزوں میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے ۔ امریکا میں مہنگائی ایک فیصد سے بڑھ کر پانچ فیصد جبکہ یورو زون میں دسمبر 2020ء میں صفر فیصد سے بڑھ کر حالیہ ستمبر میں تین فیصد ہوگئی ۔ جی ٹونٹی گروپ ‘ وہ گروپ جس کا عالمی جی ڈی پی میں80فیصد حصہ ہے ‘ میں مہنگائی کی شرح 4.5 فیصدتک ہے ۔ رواں ہفتے چین میں کاروبار کے لیے فروخت کی گئی اشیا کی پیدواری لاگت 10.7فیصد بڑھ چکی ۔ پاکستان میں ایک ماہ میں مہنگائی 8.9فیصد سے 14.50فیصد تک پہنچ تک اضافہ ہوا۔
3۔ سیاسی معیشت : اشیا کی قلت کا سب سے زیادہ نقصان آزاد تجارت کو ہوتا ہے ۔ بڑی بڑی معیشتیں اپنے کاروباری اداروں کا تحفظ کرنا شروع کردیتی ہیں ۔ ہم نے دیکھا کہ انڈیا‘ جو دنیا کا سب سے بڑا ویکسین کا تیار کنند ہ ہے ‘ نے دنیا کو ویکسین کی فراہمی روک دی کیونکہ اس کی اپنی ضروریات پوری نہیں ہورہی تھیں ۔ ہر طرف قلت کا سماں ہونے سے آزاد مارکیٹ اور تجارت میں بھونچال کا سماں ہے۔ بریگزٹ نے یورپ کو تقسیم کردیا ہے ۔ برطانیہ امریکا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے کی کوشش میں تھا لیکن اب امریکا اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی مصنوعات پرٹیرف عائد کردیا تھا۔ توقع تھی کہ صدر بائیڈن اسے اٹھا لیں گے لیکن ابھی ایسا ہونا باقی ہے ۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اس کرسمس پر ممکن ہے کہ شیلف خالی رہیں ۔ یوم تشکر پر ٹرکی ڈنر ملتوی کرنا پڑسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کرسمس ٹری کو سجانا بھی ممکن نہ رہے ۔ امریکن کرسمس ٹری ایسوسی ایشن نے گزشتہ ماہ صارفین کو خبردار کیا تھا کہ رواں سال تازہ اور مصنوعی پھولوں کی دستیابی کم رہے گی کیونکہ سپلائی چین درہم برہم ہوچکی ہے ۔
اس صورتحال میں جبکہ دنیا مہنگائی سے سلگ رہی ہے‘ پاکستان میں بھی اس کی حدت محسوس کی جارہی ہے ۔ اگرچہ تعلیم یافتہ افراد عالمی معاشی اثرات کو سمجھتے ہیں لیکن عام شہری کو معیشت کی زیادہ سمجھ نہیں ہوتی ۔وہ قیمتیں بڑھنے پر چیخ اُٹھتے ہیں ۔ مہنگائی اور عوامی غم و غصہ کم کرنے کے لیے کچھ فوری اور طویل المدت اقدامات درکار ہیں :
1۔ پالیسی میں جدت: غیر معمولی دور میں غیر معمولی پیش رفت درکار ہوتی ہے ۔ جس دوران مغربی ممالک اپنے مالیاتی بندوبست کو تحفظ دینے کی کوشش میں ہیں‘ وہ اپنے کاروباری اداروں کو بیل آئوٹ دے رہے ہیں‘ اپنی معیشت میں پیسہ ڈال رہے ہیں‘ اس وقت پاکستانی معیشت کو بھی نئے تصورات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو فوڈ سکیورٹی فنڈ قائم کرنا ہوگا جس طرح کورونا میں کیا گیا تھا۔ اس فنڈ کو وسط ایشیائی ممالک سے آٹااور دیگر اشیائے خورونوش کے تبادلے کی ضرورت ہے تاکہ ان اشیا کے بحران پر فوری طور پر قابو پایا جاسکے ۔ اسی طرح چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارں کو توانائی کے نرخوں میں امدادی قیمت دی جاسکتی ہے ۔ اُنہیں توانائی کے بلوںکی ادائیگی میں تین ماہ تک کی مہلت دی جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دے سکیں ۔
2۔ پاکستان ساختہ: اشیا کی قلت نے پاکستان کا تین دہائی پرانا مسئلہ اجاگر کردیا ۔ ہماری معیشت درآمدات پر مبنی ہے ۔ تیل سے لے کر زرعی مصنوعات‘ اور روزمرہ کی عام اشیا سے لے کر لگژری اشیا تک‘ہر چیز درآمد شدہ ہے ۔ اس صورتحال کو تبدیل کرناہو گا ۔ جس دوران ہم چین سے ترقی کا سبق سیکھ رہے ہیں ‘ ہمیں جاننا چاہیے کہ پہلے مرحلے کے طو رپر چینی وہی اشیا استعمال کرتے تھے جو اُن کا ملک بنا سکتا تھا۔ اس پالیسی کے تحت آج چین ''دنیا کا کارخانہ‘‘ بن چکا ہے ۔ حکومت نے زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے درست قدم اٹھایا ہے لیکن ضروری ہے کہ یہ صنعت میں بھی سرمایہ کاری کرے تاکہ چیزوں کی قلت پوری ہوسکے اور ہمیں بیرونی ممالک سے چیزیں نہ منگوانا پڑیں ۔ ٍ3۔ کمزور افراد کا تحفظ : غریب ترین افراد کی دست گیری کے لیے احساس پروگرام بہت اچھی پیش رفت ہے ۔ امدادی قیمت رکھنے والی اشیا کی مارکیٹ پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ منافع خور اس سے اپنی جیب نہ بھرسکیں ۔روزمرہ کے استعمال کی سبزیوں کے حصول کے لیے حکومت کو کچن گارڈننگ کا تصور اجاگر کرنا چاہیے ۔ لوگ اپنے استعمال کی سبزیاں خود ہی اگاسکتے ہیں ۔ ویڈیوز کے ذریعے اس کی ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ اس سے نہ صرف عام افراد کا مارکیٹ پر انحصار کم ہو جائے گا بلکہ قیمتیں قابومیں رکھنے میں بھی مدد ملے گی ۔
معاشی قلت نے بہت سے ممالک کی حکومتوں ‘ پیداوار اور استعمال کے نقائص بے نقاب کردیے ہیں ۔ منہ زور اور خود سر سرمایہ دارانہ نظام اور کنزیومرازم نے دنیا کو غیر محفوظ اور ناہموار بنا دیا ۔ عدم تحفظ کے گہرے ہوتے ہوئے احساس کے ساتھ بہت سے ممالک اپنی سرحدیں بند کررہے ہیں ۔ وہ معاہدے ختم کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی ضروریات کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس سے فوری دبائو کسی قدر کم ہوجائے لیکن اس رویے کے دوررس اثرات ہوں گے ۔ پاکستان کے لیے یہ نازک لمحات ہیں ۔ اس کے روایتی شراکت دار‘ امریکا اور یورپ خود بھی اشیا کی قلت کا شکار ہیں ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نئے شراکت دار‘ نئی مصنوعات اور نئے رجحانات کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو ایک خود کفیل اور پائیدار معیشت کا حامل ملک بنایا جاسکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں