سچ کی آواز

''اگر ہم میں سے ایک سو افراد اُن (مسلمانوں) کے دو ملین کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوجائیں توہم جیت جائیں گے اور انڈیا کو ایک ہندو قوم بنا لیں گے ۔‘‘یہ کہنا تھا پوجاشاکن پانڈے کا جو ہندو مہا سبھا کا ایک لیڈر ہے جبکہ انتہاپسند ہندوؤں کے ایک لیڈر پربھو ڈھنڈ گیری نے کہا کہ وہ مرنے یا مارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس لیڈر نے جلسے میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو تطہیر یا صفائی کا نام دیا۔گزشتہ ماہ ہندو انتہا پسند نظریات رکھنے والے گروہ کی تین روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ زہریلا بیان دیا گیا ۔یہ نسل کشی کا اعلامیہ ہے ۔ انڈین حکومت نے ردعمل میں مکمل خاموشی کا مظاہرہ کیا لیکن خاموشی کا مطلب رضامندی ہوتا ہے ۔ وسیع پیمانے پر قتل و غارت پر رضامندی جرم ‘ تشدداور سفاکیت پر رضامندی۔ من گھڑت تصورات کی بنیاد پر پھیلائی گئی نفرت کے سامنے منطق بے سود اورجھوٹ سچ بن جاتا ہے ۔ مودی کے انڈیا میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی بھی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہیں ۔ مدر ٹریسا کی فلاحی تنظیم کو کرسمس سے چند روز قبل ایک جھوٹا بہانہ بنا کر بند کردیا گیا۔ اس سے ایک با ر پھر پتہ چلتا ہے کہ نفرت کی زہر یلی فصل کس طرح اُگتی اور پروان چڑھتی ہے ۔
جھوٹ ایک وبائی مرض کی طرح پھیلتا ہے۔ سچ کا سفر مشکل ہوتا ہے۔نفرت ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے۔ محبت کے قدردان گنے چنے ہوتے ہیں۔ جعلی خبروں کے سامعین کی تعداد بہت بڑی ہے‘ مستند بات پر کان کوئی کوئی دھرتا ہے۔ حقیقت ‘ سچ اور اصول پسندی پر مبنی ابلاغ کا سفر اتنا کٹھن اور سست رو ہوتا ہے کہ زیادہ تر اس راہ سے گریز کرتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جو فوری نتائج کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جو راتوں رات کامیابی کی پوجا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جو اس کی تعریف زیادہ سے زیادہ کرتی ہے جس میں کم سے کم مثبت صفات ہوں۔ یہ وہ دنیا ہے جس کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس دنیا میں ایسے نتائج جوبظاہر نظر نہ آئیں‘ سچائی جو آخرکار غالب آئے گی اور حتمی کامیابی کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ بہت سے ماہرین مغرب کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم مسلمان پیغمبر آخر الزماں حضر ت محمدﷺ کے ساتھ کس طرح کی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں‘ لیکن مغرب یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں‘ مگر پچھلے دنوں روس کے صدر پوتن نے ہمارے موقف کی توثیق کی کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی اظہارِ رائے کی آزادی نہیں۔ صدر پوتن نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کی گستاخی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی خلاف ورزی ہے۔صدر پوتن نے فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی کچھ حدود ہیں اور اس سے دوسروں کی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔
تقریباً تین نسلوں سے ہم نے اپنی ثقافت‘ زبان‘ شناخت اور اقدار کے مسلسل زوال کا مشاہدہ کیا ہے۔ پڑوسی ممالک اور مغرب کے ساتھ موازنے سے ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا یا گیا ہے۔ ساری تفریح اور لذت مغرب میں نظر آتی ہے جہاں خوشحالی اور سہولیات نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔بھارت اور بنگلہ دیش میں ہونے والی تمام تر ترقی نے ہمارے ملک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس نے تذبذب کے شکار پاکستانیوں کے خدشات کی مزید آبیاری کی ہے۔ کسی نہ کسی طرح مشرقِ وسطیٰ‘ یورپ یا امریکہ تک پہنچنے کا خواب غریبوں کو اپنی ساری دولت صرف کرنے اور یہاں تک کہ جان کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کرنے پر بھی اکساتا ہے۔ امیروں کے لیے بیرون ملک شاندار تعطیلات گزارنا زندگی کا ایک معمول ہے۔ ان کی اگلی نسل کینیڈین یا امریکی پاسپورٹ رکھتی ہے۔ ان کا اس ملک سے تعلق برائے نام ہے لیکن بیرون ملک رہنا بھی خطرناک ہے کیونکہ آپ جہاں بھی جائیں پیدائش کے لحاظ سے ملک کی چھاپ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بالخصوص پاکستان اور بالعموم اسلام کے غلط امیج کو تقویت دینے والے عوامل یہ ہیں :
1۔ نہ بیانیہ ‘ نہ تصور: ایسی دنیا میں جو تیزی سے تخلیق کردہ‘ تعمیر شدہ‘ تیار کردہ تصورات پر استوار ہے‘ مسلم دنیا نے اپنی حقیقی شناخت کے اظہار اور بات چیت کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس خلا کو دنیا نے اپنا سکرپٹ لکھ کر اور اپنی مرضی کے رنگوں سے بھرا ہے۔ اہم تصاویر یا تو سعودی عرب کے قرونِ وسطیٰ کے مرد اور صرف مردانہ معاشرے کی ہیں یا پھر شام سے پاکستان تک سرگرم جنونیوں اوردہشت گرد وں کی ہیں۔ اس کے برعکس مغرب اور بھارت میں رہنے والوں کو آزاد اور انسان دوست کہا جاتا ہے۔ یہ مناظر ایسے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت پرکشش تصویر ابھارتے ہیں جن کے پاس وسائل اور رسائی کے مواقع بہت کم ہیں ۔
2۔ نفرت انگیز بیانیے کو بے نقاب کرنا: مودی اورٹرمپ کے نفرت پھیلانے والے بریگیڈ نے کووڈ سے خوف زدہ عوام کے ہیجان سے فائدہ اٹھایا۔ پریشان‘ ناراض‘ بھوکے اور نظر انداز شدہ عوام نے اپنی مایوسی کا اظہار نسلی اور امتیازی سلوک کے ذریعے کیا۔ جیسے جیسے معیشتیں کمزور ہوئیں اقلیتوں کے خلاف آواز بلند ہوئی۔ اس خلیج میں ہونے والا اضافہ مزید دراڑیں بھی ڈالنے لگا۔امریکہ میں ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کانگریس پر حملے اور ہندوستان میں مسلمانوں پر بپھرے ہوئے ہجوم کا تشدد اور چرچ کی توڑ پھوڑ سے پڑنے والے کریک میں سچ کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوگئیں۔ امریکی یونیورسٹی پروفیسر جنہوں نے ہندوتوا پر ایک سیمینار منعقد کرنے کی جرأت کی تھی‘کو جان سے مارنے کی دھمکیوں نے بھارت میں جمہوریت کے چہرے کوداغ دار کردیا تاہم سیا لکوٹ میں فیکٹری منیجر کی تشدد سے موت جیسے واقعات بھی یقیناً مذمت کے قابل ہیں لیکن بہت سے حلقے ایسے واقعات کو بہت زیادہ اچھالتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم اور امت ان پروپیگنڈامشینوں کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکے۔
3۔ قیادت اورآواز بلندکرنے میں کوتاہی: وجہ یہ ہے کہ اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کرنے والی قیادت کی آواز غائب تھی۔ ماضی میں بھی کچھ کوششیں کی گئیں لیکن ان کا کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہ آیا۔ یو این جی اے‘ او آئی سی‘ علاقائی اجلاسوں جیسے تمام بین الاقوامی فورمز پر وزیراعظم عمران خان کی مسلسل آواز بلند ہوتی رہی ہے جس نے مغرب کو یہ سمجھانے کی مسلسل کوشش کی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پوری انسانیت سے محبت کی نمائندگی کرتے ہیں۔صدر پوتن کا یہ بیان کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی آزادیٔ اظہار نہیں ‘ عالمی سطح پر وزیر اعظم عمران خان کے مسلسل آواز بلند کرنے کا نتیجہ ہے۔ ایک ایسا طریقہ کار بنا کر اس کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ اس پیغام کی گونج برقرار رہے اور مزید راہ نما بھی اس کی حمایت میں اپنی آواز ملا سکیں :
1۔ وزیر اعظم کا مسلم پلیٹ فارم تشکیل دینا: افغانستان پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس ایک بڑی کامیابی تھی۔ بین المذاہب افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لیے ایک ایسا ہی فورم متعارف کرایا جانا چاہیے جہاں مختلف اقوام کے اہم ممالک کے سربراہان شرکت کریں اور مذہب وغیرہ جیسے حساس معاملات پر باہمی احترام کے لیے ایک مکالمہ تیار کریں۔
2۔ قانونی بنیادوں پر مقدمہ لڑنا: یورپی یونین کی انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے 2018ء میں پہلے ہی قرار دیا ہے کہ پیغمبر وں کی گستاخی آزادیٔ اظہار نہیں۔ اس فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر عدالتوں سے رجوع کرکے اس قانونی تصور کو عام کرنا چاہیے۔ یہود مخالف قوانین کی طرح اسلامو فوبیا کے خلاف قوانین متعارف کرائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ قانونی حیثیت کاتعین ہوسکے۔
3۔ سچے پیغام اور حقیقی جذبے پر مبنی ورچوئل سیریز کی تیاری: یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ ایک ورچوئل ویڈیو تیار کی گئی جو نبی کریمﷺ کے دور کے پیار‘ امن اور انسانیت کے پیغام کی عکاسی کرتی ہے۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلام کی حقیقی تصویر اور حقیقت کو ابھارنے کے لیے ایسے جدت پسند پیغامات کی ضرورت ہے۔
اگرچہ نفرت اور جھوٹ پھیلانا آسان ہے‘ لیکن سچائی گہری اور زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ انتہاپسند کسی بھی ملک میں چاہے وہ امریکہ ہو‘ بھارت یا پاکستان‘ الجھن کے شکار تاریک دماغوں کی پریشانی کا فائدہ اٹھا کر انہیں تشدد پر اکسائیں گے۔ عام طور پر زیادہ روشن خیال ذہنوں میں مذہب سے بیزاری پیدا کی جاتی ہے لیکن اس کا توڑ کرنے کے لیے صرف تبلیغ اور کسی مذہب یا ثقافت کے روشن پہلو کو دکھانا ہی کام نہیں دے گا اور نہ ہی اس سے زاویۂ فکر بدلے گا۔حقیقی اقدار پر عمل پیرا ہونے سے ہی تبدیلی آئے گی۔ غیرمشروط محبت‘ سب سے ہمدردی‘ رحم اور خلوص ہی جھوٹ اور نفرت کے شور میں سچ کا نعرہ بلند کریں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں