نسل کشی کا سنگین ہوتا ہوا خطرہ

''نسل کشی کوئی ہنگامی واقعہ نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہ کہ بھارتی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی ابتدائی علامات اور عمل موجود ہیں‘‘ یہ کہنا ہے جینوسائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کا۔ 1999ء میں قائم کی گئی جینو سائیڈ واچ ایک عالمی تنظیم ہے جو نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف ہے۔ ڈاکٹر سٹینٹن ورجینیا‘ امریکہ میں جارج میسن یونیورسٹی میں نسل کشی کے مطالعہ اور روک تھام کے سابق ریسرچ پروفیسر ہیں۔ وہ اس میدان کی سب سے بڑی اتھارٹی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ 1994ء میں روانڈا میں نسل کشی کے بارے میں ان کی پیشین گوئیاں 1999ء میں درست ثابت ہوئی تھیں۔گزشتہ ماہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے ایک ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کا کہنا تھا کہ بھارت نسل کْشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلمانوں کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔
نسل کشی لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسلی یا مذہبی وابستگی کی وجہ سے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے قتل کرنا ہے۔ لفظ ''نسل کشی‘‘ سب سے پہلے پولش وکیل Raphael Lemkin نے 1944ء میں اپنی کتاب :Axis Rule In Occupied Europeمیں استعمال کیا تھا۔ لیمکن نے یہ اصطلاح بنیادی طور پر ہولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے منظم قتل کی نازی پالیسیوں کے جواب میں تیار کی تھی۔ بعد ازاں رافیل لیمکن نے نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم کے طور پر تسلیم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کی مہم کی قیادت کی۔ نسل کشی کو پہلی بار 1946ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی قانون کے تحت جرم تسلیم کیا تھا۔ اسے 1948 ء کے جینوسائیڈ کنونشن میں''انڈیپنڈنٹ کرائم‘‘ کے درجے میں رکھا گیا ۔ جنوری 2018ء تک 149 ریاستیں اس کنونشن کی توثیق کر چکی ہیں۔
اس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ بھارت قتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے اور اگر کوئی کارروائی نہ کی گئی تو یہ قتل ِعام میں بدل جائے گا۔ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے‘یہ ایک غیر انسانی فعل ہے‘یہ کنونشنز کی خلاف ورزی ہے‘یہ اقدار کی بربادی ہے‘یہ خونریزی ہے‘یہ غیر اخلاقی ہے‘ یہ غیر قانونی ہے۔ پھر بھی دنیا اس سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ انسانی جان کی بے قدری پر جان بوجھ کر روا رکھی گئی چشم پوشی کی وجوہات یہ ہیں :
1۔ پالیسی کی سطح پر انڈیا کی دراندازی: بھارت کا غلبہ ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ میں انڈو امریکن (جنہیں ایسٹ انڈین‘ ایشیائی انڈین اور امریکی انڈین بھی کہا جاتا ہے) کی آبادی 40 لاکھ ہے۔امریکہ میں ان کی تعداد میکسیکو کے تارکین وطن کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ صرف یہی نہیں‘ یہ گروہ سب سے زیادہ کامیاب اور معاشی طور پر خوش حال بھی ہے۔ ان کی اوسط گھریلو آمدنی 107,000ڈالر ہے ‘جو کہ امریکی نژاد عام گھرانوں سے تقریباً دوگنا ہے۔ ان کی کامیابی کا ایک اظہار کملا ہیرس کا امریکہ کا نائب صدر بننا ہے۔ جو بائیڈن کے مشاورتی گروپ پر انڈین امریکیوں کا غلبہ ہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں بھی بورس جانسن کے ممکنہ جانشینوں میں رشی سنک بھی شامل ہے جس کا تعلق انڈین نسل سے ہے۔ اگر دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک کی قیادت انڈین نسل کے رہنما کر رہے ہیں تو اس کے نتائج یقینی طور پر واضح ہیں۔ ان سے چشم پوشی ممکن نہیں۔
2۔ ملٹی نیشنلز کا کنٹرول: انڈین امریکن جو امریکی آبادی کا ایک فیصد ہیں‘ سلیکان ویلی سٹارٹ اپس کے ایک تہائی کے مالک ہیں۔ The Other One Percent: Indians in America نامی کتاب کے مصنف نرویکر سنگھ‘ سنجوئے چکرورتی اور دیویش کپور کے مطابق امریکہ میں تمام ہائی ٹیکنالوجی فرموں میں سے تقریباً آٹھ فیصد انڈین امریکیوں نے قائم کی ہیں۔ اس وقت امریکی نژاد فارچیون 500 کمپنیوں میں سے دوفیصد‘ بشمول گوگل‘ مائیکروسافٹ‘ الفابیٹ‘ ایڈوب‘ آئی بی ایم‘ اور ماسٹر کارڈ کی قیادت انڈین امریکی کررہے ہیں۔انتہائی بااثر سیاسی پلیٹ فارم ‘ ٹوئٹر کے نئے سی ای او پیراگ اگروال ایک اور انڈین امریکی ہیں ۔
3۔ تحقیقی بیانیے کی مہارت: امریکی تعلیمی اداروں کی تحقیق اور تعلیم میں بھی انڈین رنگ گہرا ہونے لگتا ہے۔ حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ متعدد انڈین امریکیوں نے ملک کے ناموربزنس سکولوں کی قیادت سنبھالی ہے: ہاورڈ میں نتن نوہریا‘ نارتھ ویسٹرن میں دیپک جین‘ نیویارک یونیورسٹی میں رنگاراجن سندرم اور جارج ٹاؤن میں پال المیڈیا۔ اس فہرست میں بوتھ پر کمار کی جگہ مادھو راجن بھی شامل ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق انڈین امریکی ایک درجن سے زیادہ بزنس سکولوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ فیکلٹی‘ کتابوں اور اشاعت کا بھی یہی حال ہے۔ یہ بین الاقوامی تاثر مثبت رنگ بھرتے ہوئے عالمی پالیسیوں کا جھکائو انڈیا کی طرف کرتا ہے۔
مگر بھارت میں مودی کی حکومت قائم ہوگئی اور مودی نے اپنی رعونت اور خود سری سے جدید سیکولر انڈیا کا بھرم چاک کردیا ہے۔ اس کی ہندوتوا نسلی برتری کے کھلم کھلا بیانیے نے انڈیا کے عالمی معاونین کو بھی پریشان کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کو ہٹلرکا پیروکار کہنے کے جرأت دکھائی ۔ اس نے محققین کو بھارتی منافقت کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ۔ انڈیا میں دراڑیں موجود ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں ان اقدامات کی ضرورت ہے:
1۔ سفارتی اور قانونی فورمز کا قیام : نسل کشی ایک بین الاقوامی جرم ہے۔ مسلم رہنماؤں کے متحدہ موقف کے لیے یو این جی اے یا اقوام متحدہ کے دیگر مناسب فورمز میں اجلاس بلانا چاہیے‘ جیسا کہ فلسطین کے لیے کیا گیا ۔ بی جے پی کے زیر تسلط ریاستوں میں انتہا پسندانہ قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں جن سے تشدد کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ پچھلے سال اتر پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں نے بین المذاہب شادیوں کے لیے مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کی تھی ۔ایسے قوانین کو عامیانہ زبان میں ''لوجہادکے قوانین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تباہ کن قوانین ہیں ۔ ضروری ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انہیں اٹھائے۔ یہ کام او آئی سی کا خصوصی نمائندہ کر سکتا ہے جو اسلامو فوبیا کا مقابلہ کر رہا ہے۔
2۔ متبادل مارکیٹ کے طور پر تجارتی بلاک: انڈیا کی مارکیٹ ممالک اور عالمی فورمز کے لیے اہم رکاوٹ ہے۔ اپنے آپ کو مسابقتی بنانے کے لیے ہمیں پاکستان‘ ایران‘ ترکی کے ذریعے مشترکہ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ سڑک‘ سمندر اور ریل نیٹ ورک کا جال بچھانے کی ضرورت ہے جس میں وسطی ایشیائی ممالک ہوں تاکہ پاکستان کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے گیٹ وے کے طور پر مارکیٹنگ کے موقعے کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی اور وسطی تجارتی پٹی کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے تاکہ دنیا اسے انڈیا کے متبادل کے طور پر دیکھ سکے۔
3۔ عالمی تحریک اور نمائش: شاید سب سے زیادہ مؤثر تحریک سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات کی حمایت کی تحریک ہے۔ ''روانڈا کے بعدانڈیا‘‘ اور ''بھارت میں نسل کشی بند کرو‘‘مہم کی فنکاروں‘ فلم پروڈیوسروں اور کھلاڑیوں وغیرہ نے تائید کی ہے۔''نریندر مودی کے بھارت میں مسلمان ہونا کیسا ہے‘‘ کے عنوان سے'دی وائر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بالی وڈ سٹار نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ مودی کی حکومت میں مسلمانوں کو تمام شعبوں میں نہ صرف دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ان کے ساتھ ناروا سلوک بھی ہو رہا ہے اور مسلمان اپنی نسل کشی پر دفاع کرنے کی جنگ بھی لڑ سکتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منظم جرائم اور نسل پرستی پر شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خانہ جنگی کا عندیہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ تضحیک کا رویہ اختیار کرکے انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سماج کے معروف افراد کی جانب سے ان مسائل کو اٹھانے سے ایک ٹرینڈ بنتا ہے جس کا بھارتی حکومت اور عالمی اداروں پر بھی دبائو آئے گا۔
کیا دنیا صرف دکھاوا کر سکتی ہے جیسے کچھ نہیں ہو رہا؟ ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کاکہنا ہے کہ روانڈا میں 1989ء میں ایسا ہی ہوا تھا۔ نسل کشی شروع ہوئی‘ نفرت انگیز تقریریں تیار ہوئیں‘ تمام ابتدائی علامات تھیں اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 1994ء میں آٹھ لاکھ Tutsis اور روانڈا کے باشندوں کو قتل کیا گیا تھا۔ انڈیا کی آبادی کاحجم دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ یہ تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ اور پھر یہ معاملہ صر ف انڈیا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ حجم ‘ وسعت اور سنگینی کی وجہ سے اس پر دنیا بھرسے ردعمل آئے گا۔ پوری دنیا میں عالمی دہشت گردی کی نئی لہر سراٹھا سکتی ہے۔اس لیے فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں خون بہہ رہا ہے اور بھارتی عزائم اور عمل واضح طور پر ہندوتوا نظریے کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امن اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ہر ملک کی ذمہ داری ہے کہ ایک متحد اور مربوط محاذ قائم کرے تاکہ اس انسانی بحران کوسنگین ہونے سے پہلے روکا جاسکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں