عالمی سطح پر قدر‘ مقامی بے قدری

حیرت انگیز‘ خوفناک‘ بہترین‘ بدترین‘ ترقی‘ تباہی‘ عروج‘ زوال‘ اچھا‘ برا... نہیں! یہ گرائمر میں متضاد الفاظ کا امتحان نہیں بلکہ پاکستانی معیشت کی جانچ کرنے والوں کی نیت اور اندازِ فکر کے پیمانے ہیں۔ جس دوران تمام دنیا صدی کے مشکل ترین دور میں بھی پاکستان کی دکھائی جانے والی کارکردگی کو سراہ رہی ہے{‘ مقامی ماہرین کی سوئی اس کے برعکس پر اٹکی ہوئی ہے۔ جس دوران دنیا عالمی معاشی بحران کا شکار ہوئی، غربت میں عالمگیر اضافے نے دنیا کو زچ کر دیا اور نظام صحت کا دھڑن تختہ ہو گیا، عالمی بینک، ورلڈ اکنامک فورم، عالمی ادارۂ صحت، بلومبرگ اور فچ جیسے ادارے پاکستان کی شاندار فعالیت کے معترف رہے۔ دوسری طرف ملک میں معیشت اور دیگر امور کے ماہرین اور میڈیا چیخ چیخ کر پاکستانی معیشت کو ''ناکامی‘‘ قرار دیتے رہے۔ یہ تضاد چکرا دینے والا ہے لیکن اس کے پیچھے کارفرما سیاست کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ غیر معمولی وقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح ایک نادیدہ وائرس نے بڑے بڑے برج الٹ دیے۔ آج تک امریکا اور فرانس جیسے ممالک میں روزانہ نصف ملین کیسز ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ آج بھی معیشتیں ریکارڈ قرضوں کا بوجھ اٹھا رہی ہیں، دنیا قیمتوں میں اتنا اضافہ دیکھ رہی ہے جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، کاروبار کو بحال کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ امیر ترین، انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی تعلیم یافتہ معاشروں کا حال ہے۔ اس منظر نامے میں تقریباً دیوالیہ معیشت، صحت کے بہت کم وسائل اور سہولتوں، ناخواندہ اور غریبوں کی بڑی تعداد رکھنے والے پاکستان نے جس طرح عالمی قیادت کی‘ اس پر ہمارے ماہرین اور معاشی پنڈتوں کو تو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن حال یہ ہے کہ ہر اچھی خبر پر ان کے تین رد عمل ہوتے ہیں: تردید کریں گے، کہیں گے کہ اس کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا یا مثبت کا تاثر ختم کرنے کے لیے تصویر میں منفی رنگ گہرا کر دیں گے۔ اس تضاد کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
1۔ شرح نمو کامیاب یا ناکام: ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ ترین ملکی مسابقتی رپورٹ نے پاکستان کی حکومت کی جانب سے معیشت کو انتہائی مثبت انداز میں سنبھالنے کو سراہا ہے۔ ''The Executive Opinion Survey‘‘ اعلیٰ معیار کے تصورات اور اعداد و شمار کا ایک منفرد ذریعہ ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی کے اہم پہلوؤں کے لیے عالمی سطح پر تقابلی جائزہ فراہم کرتا ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی جانب سے شیئر کیے جانے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ویلیو سکور 148 سے زیادہ اشاریوں پر بہتر ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ مقامی میڈیا یا ماہرین کی کچھ رپورٹس دیکھتے ہیں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ ''پاکستانی معیشت بحران کی زد میں‘‘، ''شرح نمو پائیدار نہیں‘‘، ''حکومت کے پاس اہلیت کا فقدان‘‘ وغیرہ۔ چونکہ عام لوگ عالمی رپورٹس پڑھنے پر قادر نہیں، اس لیے مقامی میڈیا اور آرا نے حکومت کی ناکامی کی خوفناک تصویر کشی کی ہے۔ عالمی رپورٹس اس کے برعکس دعویٰ کر رہی ہیں لیکن مفاد پرست مافیاز نے دہائی دے رکھی ہے کہ معیشت اب گئی کہ جب گئی۔ اس نے ملک میں عدم تحفظ کا جھوٹا احساس گہرا کر رکھا ہے۔
2۔ غریب افراد کا احساس یا نظر انداز: ٹاک شوز میں دہائی دی جا رہی ہوتی ہے کہ غریب آدمی غریب تر اور بے روزگار ہو چکا ہے۔ وہ کہانیاں سناتے ہیں کہ عام آدمی کس طرح تکلیف میں ہے۔ جی ہاں! مہنگائی ہے اور اس نے غریبوں کو متاثر کیا ہے لیکن مہنگائی کے کچھ اہم عوامل حکومت کے بس میں نہیں ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ اس کا موازنہ بیرون ملک مہنگائی سے کریں تو وہ اس کا موازنہ نہیں کرتے۔ اس سارے ہنگامے کے باوجود دنیا بار بار غربت کے خاتمے میں پاکستان کی کارکردگی کو سراہ رہی ہے۔ پاکستان نے اپنے احساس پروگرام کے ذریعے عالمی قیادت کو دکھایا ہے کہ انسانی وقار اور سماجی سرمائے کی اقدار پر کس طرح توجہ دی جاتی ہے۔ مقامی تجزیہ کاروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ انہیں تب ہی دیکھا یا سنا جائے گا اور ان کی ''مارکیٹ ویلیو‘‘ بڑھے گی جبب وہ تباہی کی منفی خبریں سنائیں گے۔
3۔ صحت کی سہولتوں میں جدت یا تباہی: دنیا کے سب سے بڑے صحت کے بحران میں جہاں امریکا اور یورپ بحران کا شکار ہو گئے‘ پاکستان کی کارکردگی ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گئی ہے۔ ہر عالمی اشاعت اور فورم‘ چاہے وہ اکانومسٹ ہو، ڈبلیو ایچ او یا ڈبلیو ای ایف ہو‘ نے بارہا پاکستان کی تعریف کی ہے۔ دنیا نے سمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کی انسدادِ کووڈ کی کوششوں کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے۔ جان بچانے اور معاش کے درمیان توازن کے میزان کو توجہ سے دیکھا گیا۔ یونیورسل ہیلتھ کارڈ سکیم ایک بار پھر دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی سکیم کے طور پر تسلیم کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس مقامی پنڈت ان کامیابیوں کو یہ کہہ کر گھٹانے میں مصروف ہیں کہ یہ صرف نعرے ہیں۔
حکومت کو یقینا بہت سی شعبوں میں بہتری درکار ہے۔ ماہرین کا کام انہیں اجاگر کرنا اور حکومت کو ان پر کام کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہونا چاہیے۔ خامیوں پر ہمیشہ روشنی ڈالی جانی چاہیے؛ تاہم مثبت کامیابیوں کو مکمل طور پر مسترد کرنا اور بین الاقوامی جائزوں کو رد کرنا بھی منصفانہ اور درست طرزِ عمل نہیں۔ حکومت کو سامعین تک رسائی میں جدت لاتے ہوئے اس ''ختم ہوگئی، ناکام ہو گئی‘‘ سموگ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ مثبت سفیر وں کی تلاش: ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک متوازن تصویر پیش کی جائے۔ یقینا بہت سی خامیاں ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے؛ تاہم اس دوران بہت سی کامیابیاں بھی ہیں جن کا جشن منانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ سیمی فائنل میں شکست کے باوجود قوم نے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر کیسے جشن منایا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت، ماحولیات اور غربت کے خاتمے جیسے کئی شعبوں میں جدوجہد، آفات اور پھر شاندار کام کی پوری کہانی بتائی جائے۔ یہ کہانی ماہرین کو نہیں بلکہ معاشرے کے عام نمائندوں جیسے اساتذہ، ڈاکٹروں، پلمبروں وغیرہ کو سنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے ساتھ ان کی آواز مل سکے۔
2۔ سماجی تبدیلی کی رفتار بڑھانا: سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ چار دہائیوں سے معاشرے نے بڑی حد تک مصنوعی ترقی دیکھی ہے۔ معیشت، خوشحالی، سالمیت اور ساکھ کے معاملے میں دونسلوں نے دیکھا ہے کہ کامیابی کے لیے صرف شارٹ کٹ ہی کام کرتے ہیں۔ امیر اور بااثر افراد جائز و ناجائز طریقے سے اچھی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بدمعاش انتہائی کامیاب اور سیدھے سادے لوگ شکست خورد ہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرزِ عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی حکومت اکیلے اقدار کے نظام کو تبدیل نہیں کر سکتی اگر عوام نہ چاہیں۔ اس طرح مساجد، سکولوں اور کمیونٹی ورکرز کی مدد سے ایک سماجی جائزہ پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے: شارٹ کٹ سے انکار کریں‘ ٹیکس چوری سے انکار کریں‘جھوٹ سے دور رہیں۔ یہ پروگرام مقامی زبانوں میں مقامی افراد کی مدد سے چلایا جائے۔ ہر گھر تک‘ ہر سطح تک یہ پیغام پہنچے۔
3۔ عالمی آواز کو مقامی کانوں تک پہنچانا: عالمی سطح پر مسلسل پذیرائی حاصل کرنا پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ان کارناموں کی مقامی تفہیم پیدا کرنے کے لیے مربوط مواصلاتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مقامی عوامی شخصیات کو اس بارے میں بات کرنی چاہیے کہ کس طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن وغیرہ پاکستان کو ان شعبوں میں سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں جہاں سپر پاور ممالک ناکام ہو چکے ہیں۔
قومیں عوامی جذبات اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ہی زوال سے عروج کا سفر کرتی ہیں۔ تعمیری تنقید ضروری ہے لیکن مایوسی اور حقائق کے برعکس مسلسل پیغام دینا قوم کے جذبے کو پست کرنے کے مترادف ہے۔ غرور اور تعصب بھی راہ میں کانٹے بو دیتے ہیں۔ اسی لیے دونوں میں توازن خاص طور پر ایسے وقت میں ضروری ہے جب پوری دنیا وبائی امراض کے جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر کربناک تجربے سے گزر رہی ہے۔ یہ حقیقت کہ اس صدی کی بدترین آفت کو پاکستان نے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر طور پر برداشت کیا‘ اس قوم کا عروج کی طرف پہلا قدم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں