بیٹیوں کو بچائو

آٹھ مار چ خواتین کا عالمی دن ہے۔ تو کیا ہوا؟ یہ ایک دن ہی تو ہے، جیسے دیگر عام دن ہوتے ہیں۔ لیکن ٹھہریں! پاکستان کے کچھ حصوں میں یہ دن اپنا وجود نہیں رکھتا۔ ان حصوں میں جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ، قبائلی اور دور دراز علاقے بھی شامل ہے جہاں خواتین ستم رسیدہ ہیں اور جہاں اُن کے سامنے خوف کی دیواریں کھڑی ہیں۔ ان کا اذیت ناک سفر یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ سفر کبھی شروع ہی نہیں ہوا تھا۔ اذیت کے اس الجھے ہوئے سوت کا کوئی سرا نہیں ہے۔ جبر اور زبان بندی کے باوجود کچھ خوف ناک کہانیوں کی دھمک حصار سے باہر بھی محسوس ہوتی ہے۔ انسانی دل اور دماغ لرز اُٹھتے ہیں لیکن پھر سامنے آنے والی کہانیاں ہیولوں کی طرح تاریکی میں گم ہوجاتی ہیں۔ کہانیاں بھی اور‘ ان کے حقیقی کردار‘ خواتین بھی ،مگر مسئلہ صرف سندھ کا نہیں‘ پورے ملک کا ہے۔
ایک حالیہ خوف ناک پیش رفت سندھ سے سامنے آئی ہے، یہ مظلوم، ستم زدہ، غریب اور ناخواندہ خواتین کی تعلیم اور آزادی کے بارے میں نہیں‘ یہ تعلیم یافتہ، بااختیار اور خود مختار خواتین کے بارے میں ہے جو پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں۔ یہ ان لڑکیوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اس سطح تک پہنچنے کے لیے کئی زنجیریں توڑی ہیں۔ ان دلیر لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں لیکن یہ باصلاحیت، محنتی، پُرجوش، نسل ہے جو میڈیکل کی تعلیم کے خواب کو حقیقت کا روپ دے رہی ہے۔ یہ ان خواتین کے بارے میں ہے جنہیں جان بچانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ ان بیٹیوں کے بارے میں ہے جو اپنے والدین کے لیے باعثِ فخر بننا چاہتی ہیں۔ یہ ان رول ماڈلز کے بارے میں ہے جنہوں نے لاکھوں دوسری لڑکیوں کے لیے ممنوع امکانات کا بت توڑ ڈالا اور انہیں ''می ٹو‘‘ کا حوصلہ دیا‘ لیکن اس سارے منظر نامے میں وہ خود ''می ٹو‘‘ کا شکار ہو گئیں۔ وحشیوں کے ایک گروہ کا وہ نشانہ بنیں جنہیں مبینہ طور پر کالج کے منتظمین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ حکومت کی طرف سے بھی اُنہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ ہمیں بات کرنی چاہیے! ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ کہانی زندہ رہے۔ اگر ہم نے اب بھی زبان نہ کھولی تو اس منظم ادارہ جاتی ایذا رسانی، تشدد اور قتل کے سہولت کاروں کے زمرے میں آئیں گے۔ آئیے! بدصورت حقائق کا سامنا کرتے ہیں:
مشکوک میڈیکل کالجوں کا پوسٹ مارٹم: لوگ اندرونِ سندھ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ٭تین سال قبل 15 ستمبر 2019 کو ایک ہاسٹل سے میڈیکل فائنل ایئر کی طالبہ ڈاکٹر نمرتا کماری کی لاش ملی تھی۔ ڈاکٹر کماری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اسے قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی تھی ٭نوشین کاظمی لاڑکانہ کی ایک یونیورسٹی میں چوتھے سال کی طالبہ تھی۔ نومبر میں وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ ٭نومبر 2021ء میں ایک میڈیکل یونیورسٹی کی چوتھے سال کی طالبہ نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں خودکشی کر لی۔ ٭اسی یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ مردے سچ نہیں بول سکتے، بے نقاب نہیں کر سکتے، دفاع نہیں کر سکتے۔ اس طرح کی خودکشیوں کی کہانی قانونی اور سماجی شکوک پیدا کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ جسد خاکی کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو بھی سپرد خاک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کئی دہائیوں سے موجود ہے۔
اگر پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں کی مسنگ یا گمشدہ خواتین سے متعلق یہ رپورٹ خاصی ہولناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع سے گزشتہ چار برس کے دوران 40585 خواتین اغوا ہوئیں یا پولیس کی اصطلاح میں ''مسنگ‘‘ ہوئیں۔ 2017ء سے جنوری 2022ء تک پولیس کی رپورٹ کے مطابق 37140 میں سے کچھ بازیاب ہوئیں اور کچھ کا سراغ لگا لیا گیا۔ اس ضمن میں 53 ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ سوال بھی یہاں اہم ہے کہ گرفتار شدگان میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ کے پی کی بات کریں تو عاصمہ رانی کیس سب سے بڑی مثال ہے۔ میڈیکل کی تھرڈ ایئر کی طالبہ کو جنوری 2018ء میں رشتے سے انکار پر ضلع کوہاٹ میں اس کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کر دیا جاتا ہے اور ملزم بیرون ملک فرار ہو جاتا ہے۔ اسے بذریعہ انٹرپول واپس پاکستان لایا جاتا ہے جہاں عدالت اسے سزائے موت سنا تی ہے مگر پھر خبر سننے کو ملتی ہے کہ مذکورہ قتل کے حوالے سے صلح کے لیے ایک جرگہ منعقد ہوا، جہاں مقتولہ کے والد کے مجرم کو معاف کر دیا۔ قندیل بلوچ کے واقعے میں بھی ہم نے یہی دیکھا۔ اس ظالمانہ کلچر کو چیلنج کرنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ چاندیکا میڈیکل کالج کی پروین رند کے دلیرانہ اقدام کو حمایت، مدد اور سراہے جانے کی ضرورت ہے:
1۔ آواز بلند کرنے والوں کا تحفظ: سب سے بڑا مسئلہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ یہاں قاصد آسانی سے گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دور دراز علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ کا ریکارڈ خراب ہے۔ عزیز میمن کا قتل ایک اہم واقعہ ہے۔ اس نے موت سے پہلے اپنی وڈیو میں بتا دیا تھا کہ اسے ان افسران کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں جو اس سے ناراض تھے‘ صرف یہ انکشاف کرنے پر کہ ایک سیاسی جماعت کے ٹرین مارچ میں جو خواتین شریک تھیں‘ انہیں سرکار نے شرکت کے لیے ادائیگی کی تھی۔ میڈیکل کالج کی طالبہ پروین رند نے انکشاف کیا کہ کس طرح اس کی جان کو خطرہ تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دیگر دو لڑکیوں کو بھی قتل کیا گیا تھا جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُنہوں نے مبینہ طور پر خودکشی کی ہے۔ اس نے صوبائی وزیر صحت سے ملاقات کی اور انہیں اپنے جسم کے زخم بھی دکھائے لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اسے اور اس کے خاندان کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے مسلسل چوکس اور اعلیٰ سطحی سکیورٹی کی ضرورت ہے۔
2۔ دبائو بڑھایا جائے: صوبائی سرکاریں مطمئن ہے کیونکہ انہیں کوئی حریف نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومتوں کی کبھی پنجاب سے آگے دلچسپی نہیں رہی۔ تحریک انصاف نے کراچی پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ اب سندھ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کے ہیلتھ کارڈ اقدام وغیرہ کے دبائو کی وجہ سے صوبائی حکومت قدرے متحرک ہو گئی ہے۔ کراچی میں گرین لائن بس منصوبے نے اسے مجبور کیا کہ وہ وفاقی حکومت سے اپنے منصوبے کے لیے بسوں کی خریداری میں مدد کی درخواست کرے۔ خواتین کے تحفظ اور امن و امان پر بھی ایسا ہی دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
3۔ قومی سطح پر خطرے کی گھنٹی: زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ دیہی علاقوں کی خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اشرافیہ کے حلقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ کالجوں، کام کی جگہوں وغیرہ پر خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ایک باضابطہ مقامی ''Me Too‘‘ تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے جو ان حلقوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور ایذا رسانی پر نظر رکھے۔ عوامی خطرے کی گھنٹی بجانے اور ان علاقوں پر توجہ دینے کے لیے نہ صرف صوبوں بلکہ شہروں کا موازنہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
نوجوان، روشن، تعلیم یافتہ، بااختیار، پیشہ ور خواتین کو خاموش کیا جا رہا ہے۔ اگر تعلیم یافتہ اور ترقی پسند خواتین کواپنے تحفظ کے لیے ہیش ٹیگز کا سہارا لینا پڑتا ہے تو ذرا پسماندہ خواتین کی حالت کا تصور کریں۔ ان مسائل پر بات کرنے، لکھنے، بحث کرنے کے لیے ''خواتین کے دن‘‘ کا انتظار کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے مسلسل قانونی، سماجی اور سیاسی جدوجہد درکار ہے‘ ایک ایسا سماجی ردعمل درکار ہے جو اُن لوگوں کو مسترد کر سکے جو اس ملک کی ہونہار کلیوں کو مسل دیتے ہیں اور جن کے نام نہاد کلچر میں خواتین کی کوئی توقیر نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں