روحیں برائے فروخت

مولانا جلال الدین رومی کا کہنا ہے کہ کسی مادی چیز کے بدلے اپنی روح نہ بیچو۔ یہ واحد چیز ہے جو آپ اس دنیا میں لائے تھے اور یہ واحد چیز ہے جسے آپ ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ یہ حکمت کے موتی ہیں‘ تاہم عام لوگ دنیاوی موتی‘ جیسا کہ سونا‘ ہیرے‘ نقدی‘ ڈالر وغیرہ چاہتے ہیں۔ یہ دولت ان کیلئے پرکشش ہے۔ اس سے جسم‘ دماغ‘ دل اور افسوس کہ روح تک کو خریدا جا سکتا ہے۔یہ سودے سب سے زیادہ بازارِ سیاست میں طے پاتے ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں میں ان کی منڈی لگتی ہے۔ باوقار ایوانوں میں بھائو تائو ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں ارکانِ اسمبلی فوائد کے عوض اپنی جماعتوں سے نکل کر دوسری طرف چلے گئے‘ کیونکہ ان کے ووٹ کی قیمت لگ گئی تھی ۔
سیاست غیر نقد لین دین ہوا کرتی تھی‘ یہ سب کچھ خفیہ سودے کے ساتھ پردے کے پیچھے کیا جاتا تھا‘ کھلی بولیاں لگانے میں کچھ اخلاقی ہچکچاہٹ مانع تھی تاہم نواز شریف کے بازارِ سیاست میں قدم رکھنے سے یہ خالص کاروبار بنا دیا گیا۔ 90ء کی دہائی کے اوائل میں مشہور چھانگا مانگا نیلامی ہوئی۔ اراکین قومی اسمبلی کی نقد اور دیگر اجناس سے کھلے عام تجارت ہوئی۔ تنقید کے باوجود یہ واقعہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خرید و فروخت کا امتیازی نشان بن گیا۔ اس نئی اختراع نے ادائیگیوں‘ رشوت اور خریدو فروخت کی راہیں کھول دیں۔ اس کی وجہ سے یہ کسی نہ کسی شکل میں ایک باقاعدہ عمل بن گیا۔ اس نیلامی کی ایک مستقل شکل ہر تین سال بعد سینیٹ کے انتخابات میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ایک سینیٹر منتخب کروانے کے لیے ایم پی ایز کے ووٹ خریدنے پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہر وہ جماعت جو نقصان اٹھاتی ہے وہ چیخ اٹھتی ہے جبکہ فائدہ اٹھانے والی ہر پارٹی کندھے اچکا کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ اب ایک معمول بن گیا ہے۔ یہی مسئلہ ہے کہ بدعنوانی بلا روک ٹوک ایک وائرس بن چکی ہے جو پورے نظام کو متاثر کرچکی ہے۔ موجودہ عدم اعتماد بھی ملک میں گلے سڑے نظام کا اظہار ہے ۔ سیاستدان روتے ہیں پھر بھی نظام بدلنا نہیں چاہتے‘ کیونکہ:
1۔ سیاست میں قدم رکھنے کے اخراجات: سیاست ایک بڑا کاروباری کھیل ہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کے سامنے نیلام ہوتے ہیں۔ سودے بازی ہوتی ہے‘بھاؤ تاؤ کرتے ہیں ‘خرید و فروخت ہوتی ہے‘ اعلیٰ ترین پیشکش کی جاتی ہے پھر یہ اعلیٰ پیشکش ڈیل کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے فریق کے سامنے بھی رکھی جاتی ہے ۔ یہ تجارت اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ حتمی پیکیج حاصل نہ ہو جائے۔ ایک بار ڈیل مکمل ہوجانے کے بعد بھی غیر یقینی پن برقرار رہتا ہے۔یہ سودے اتنے مہنگے ہو جاتے ہیں کہ کسی نئی پارٹی کے لیے ان کو آمادہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیوں تک صرف پی پی پی اور پی ایم ایل این ہی بازار میں اس جنس کی خریدار تھیں۔ پی ٹی آئی نے 22 سال جدوجہد کی اور پھر بھی اسے الیکشن جیتنے کے لیے انہی الیکٹ ایبلز کی مدد لینا پڑی ۔ اب یہ الیکٹ ایبلز وہی کر رہے ہیں جو عام طور پر کرتے رہے ہیں۔ ہاتھ آئے موقع سے فائدہ اٹھائیںاور خود کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو پیش کردیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب اور انٹرویوز میں کہا تھا کہ مسلم لیگ( ن) نے ان کے لوگوں کو خریدنے کے لیے اسامہ بن لادن سے پیسے لیے تھے ۔
2۔ پالیسی میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ یا معاونت : ایک ایسے نظام کے ساتھ جو یکسانیت پر پروان چڑھے‘ فرسودہ قوانین اور پالیسیاں چاہے کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہوں‘ تبدیلی کے خلاف بھرپور طریقے سے مزاحمت کریں گی۔ پاکستان میں پولیس کا نظام 1857ء کا ہے ۔ کیوں تبدیل نہیں کیا گیا؟ کیونکہ یہ ان کے لیے سازگار ہے۔ مجرموں کو روکنے کے لیے آپ کو خود مجرم نہیں بننا چاہیے۔ بدقسمتی سے ارکانِ پارلیمان کی اکثریت حکمرانی کی خلاف ورزی کرنے والے‘ زمین پر قبضہ کرنے والے مافیا کے سہولت کار رہی ہے۔ اسی لیے قوانین کو نرم‘ غیر متعلقہ یا مبہم رکھا جاتا ہے۔کائیاں وکلا ابہام زدہ یا دقیانوسی قوانین کی موجودگی میں صرف ایک اچھی سماعت میں کیس اُڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ ممنوعہ علاقوں میں صنعتی آلودگی میں حصہ ڈالنے پر جرمانہ 1500 روپے بہت دیر سے چلا آرہا ہے۔ یہ کم از کم لاکھوں روپے ہونا چاہیے‘ لیکن اس میں کسی قسم کی ترمیم کے سامنے مزاحمت کی جائے گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کو آٹو مافیا کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے کیونکہ ان کا قائمہ کمیٹیوں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
3۔ حکومتیں بنانا یا گرانا: بڑا مقصد حکومتوں کو خریدنا اور گرانا ہے۔ تاریخ میں مثالیں موجود ہیں۔ 1988ء میں چھانگا مانگا کی نیلامی میں نواز شریف‘ جو بے نظیرکے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے متحرک تھے‘ ایم این ایز کو چھانگا مانگا ریسٹ ہاؤس اور مری لے گئے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بے نظیر کے خلاف ووٹ دیں۔ بینظیر ایم این ایز کو کارگو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اٹھا کر سوات لے گئیں تاکہ انحراف کو روکا جا سکے۔ ایم این ایز نے شاہانہ سلوک اور نقدی اور قسم قسم کی پیشکشوں کا مزہ لیا۔ اس طرح ایک پارٹی کو حکومتوں کو خریدنے اور گرانے کے لیے اربوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس ٹریڈنگ میں مہارت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوچاکہ عدم اعتماد کا ووٹ حکومت گرانے کا آسان طریقہ ہے کیونکہ کافی ووٹ خریدنے کی قیمت صرف چند کروڑ روپے ہے۔تحریک انصاف جیسی نئی جماعتوں کے پاس اس قسم کا پیسہ اور تجربہ نہیں ہے۔
آرٹیکل 63 اے کی رو سے بے ایمانی کو روکنا پارلیمنٹ کا کام ہے مگرہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے کر اس کی روح کو مجروح کیا جارہا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کے لیے بڑی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے اوربڑے پیمانے پر رقم عام طور پر غیر قانونی ذرائع سے آتی ہے۔ جو لوگ اسے خرچ کرتے ہیں وہ اسے مزید غیر قانونی ذرائع سے وصول کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمانی بدعنوانی کا یہ چکر جاری رہتاہے۔ اس چکر کو توڑنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات درکار ہیں:
1۔ ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے قانون سازی: ہارس ٹریڈنگ کو روکنے والے ترمیم کا راستہ روک لیا گیا۔ گزشتہ سال سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے شفاف‘ شو آف ہینڈ ووٹنگ کا بل منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پارلیمنٹ کو ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام اورنقدی ادائیگیوں کو جرم قرار دینے اور خلاف ورزی پر جرمانے میں اضافہ کرنے کے لیے کہا جانا چاہیے۔ جب تک انتخابی قوانین میں سقم کو دور نہیں کیا جائے گا اراکینِ پارلیمان کی تجارت نہیں رکے گی۔
2۔ پارلیمنٹ میں پروفیشنل طبقے کو لایا جائے: اندر کا کچرا باہرپھینکنا اور باہر کا کچرا اُٹھا کر اندر لے آناکیا اسے صفائی کانام دیا جاسکتا ہے؟ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے لوگوں کا بڑا طبقہ جاگیرداروں‘ سیاسی خاندانوں‘ جائیدادوں پر قبضہ کرنے والوں اور نودولتیوں کی نمائندگی کرتا ہے‘ جن کے پاس پیسہ ہے اور پیسے کے بل بوتے پر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ اسے زیادہ پیشہ ورانہ طبقے میں تبدیل کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں جو عام لوگوں کے لیے انتخابات لڑنا ممکن بنا سکیں۔ ارکانِ پارلیمان کی تنخواہوں کا ڈھانچہ قابل ِرحم ہے‘ انہیں لوگوں کے لیے مسابقتی بنانے کی ضرورت ہے ۔
3۔ برائے فروخت روحوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے: مندرجہ بالا اقدامات میں کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن فوری طور پر جوقدم اٹھایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اوران کا نام لے کر انہیں شرم دلائی جائے۔ حال ہی میں ایک سینیٹر جو بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کے لیے مطلوب ہے‘ بیرون ملک فرار ہونے کے بعداپنے بیٹے کی شاندار شادی میں لوگوں کے ساتھ شرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ لوگوں نے اس شاہی ضیافت کو سراہا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہوائی اڈے پر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ اس پر نہ خاندان کو کوئی شرمندگی تھی اور نہ ہی مدعو مہمانوں کو۔ ایسی بے شرمی کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔ ایسے لوگوں کے لیے باوقار طریقے سے جینا ناممکن بنادینا چاہیے ۔ روحوں کی خریدو فروخت گھٹیا ترین سودا ہے ۔ پارلیمان کے مقد س ایوانوں میں اراکین کی اس غیر قانونی ‘ غیر اخلاقی اور ڈھٹائی سے خریدو فروخت نہ صرف جمہوریت کے نام پر شرمناک دھبہ ہے بلکہ یہ عوام کے اعتماد اور انسانی ضمیر کا خون کرنے کے بھی مترادف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں