خود مختاری کی تحریک

''خود مختاری مفت میں ہاتھ نہیں آتی‘اس کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘‘ مصطفی کمال اتاترک۔ اتاترک کا مطلب ہے ''ترکوں کا باپ‘‘۔ اُنہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران استعمار اور سامراج کے خلاف ترکوں کی جنگ ِآزادی لڑی۔ آج آزاد ترک ریاست انہی کی جدوجہد کی مرہونِ منت ہے ۔تعلیم اور معیشت کی وسیع پیمانے پر اصلاح کے علاوہ اُنہوں نے ترکوں کی خود مختار شناخت کو دنیا میں متعارف کرایا۔ اُن کی حکومت نے ترک پالیسی وضع کی اور متحد‘ یک جان اور سب سے بڑھ کر ‘ ایک سیکولر قوم تخلیق کرنے کی کوشش کی ۔ ترک زبان ‘ تاریخ اور کلچر کو بحال اور رائج کیا گیا۔اتاترک نے تمام قومیتوں کو ترکی زبان بولنے کا کہا ۔ غیر ترک القاب اور غیر ملکیوں کے ناموں کو ترکی تلفظ سے تبدیل کردیا گیا۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے‘ آپ کو حریت کے بغیر خود مختاری اور خودمختاری کے بغیر آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔ زیادہ آسان زبان میں‘ خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اپنی قسمت اور ریاستوں کی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے۔ اس طرح ریاستی خودمختاری کا مطلب قوم کا بیرونی مداخلت کے بغیر پالیسیاں اور قوانین بنانے کا حق ہے۔ یہ صرف کسی بیرونی طاقت سے علاقائی‘ جغرافیائی آزادی نہیں بلکہ یہ بلا روک ٹوک سیاسی‘ سماجی ثقافتی اور اقتصادی امکانات کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا تعلق ریاستی معاملات سے ہے ۔اس سے بھی اہم‘ یہ ملک کے لیڈروں اور اہلِ وطن کی ذہنی کیفیت کانام ہے۔ پاکستان کی اپنی صلاحیت کے مطابق آگے بڑھنے اور ایک علاقائی طاقت بننے میں ناکامی کا تعلق بہت حد تک اس غلام ذہنیت سے ہے جو تاریخی طور پر اس ملک کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قومی ترقی کی راہ میں کہاں رکاوٹیں گھات لگائے بیٹھی ہیں:
1۔ سیاسی تاریخ : جہاں تک اندرونی ملی بھگت کے ذریعے ہونے والی بیرونی مداخلتوں کے خلاف کھڑے ہونے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں پاکستان کا سیاسی ماضی کسی طور تابناک نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی دباؤ نے واضح طور پر تمام اہم پالیسیوں کو متاثر کیا۔ صدر مشرف کو موصول ہونے والی ایک فون کال نے ملک کی خود مختاری کو گھائل کردیا۔ اس فون میں پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی کہ اگر پاکستان امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی نہیں بنا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ ہم نے جو قیمت ادا کی اور جو قیمت ہم اب بھی ادا کر رہے ہیں وہ عقل و فہم کو مائوف کردینے والی ہے۔ اس محکومی نے پاکستان کو بے وقعت کردیا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک نچلے درجے کے امریکی افسر ریمنڈ ڈیوس نے ڈھٹائی سے دوپاکستانیوں کو گولی مار دی اور حکومت نے امریکی دباؤ پر اسے بغیر سزا کے رخصت کر دیا۔ پیغام خوفناک ہے کہ پاکستان میں آپ قتل کر کے بچ سکتے ہیں کیونکہ سیاسی رہنما بے حس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سابق وزیراعظم عمران خان نے دباؤ میں آ کر جھکنے سے انکار کیا تو امریکی اہلکار ڈونلڈ لُو نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
2۔ اقتصادی محکومی: وہ ممالک جو معاشی طور پر کمزور ہیں وہ امداد اور قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان عالمی اداروں اور ممالک کا 100 ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں میں تقریباً 18 بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ۔ خطے میں سب سے کم برآمدی نمو کے ساتھ قرض خسارے کو پورا کرنے کا واحد ذریعہ بن گیا۔ اس سے پاکستان قرض کی شرائط کاا سیر بن چکا ہے۔ وہ ممالک جو قرض دیتے ہیں ‘ آپ کے خارجہ تعلقات کا تعین بھی وہی کرتے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں یوکرین پر ووٹ سے گریز کیا ‘ بھارت نے بھی ایسا ہی کیا‘ لیکن یورپی یونین کے ممالک نے صرف پاکستان کی ہی سرزنش کی۔ برآمدات اور ٹیکس ریونیو میں پچھلے تین سال میں اضافہ اس معاشی محکومی سے نکلنے کا ایک طریقہ تھا۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اس کا تسلسل ختم ہوسکتا ہے ۔
3 ۔ ثقافتی انتشار: پاکستانی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ پاکستانی ہونے کی تعریف وہ ہے جس انداز میں غیر ملکی میڈیا ہمارے ملک کو پیش کرتا ہے۔ ایک پاکستانی نوجوان اپنے طرز ِزندگی میں مغربی ہونے کا خواب دیکھتا ہے لیکن اسے مسلسل کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ثقافتی قدر پر قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی توانا اور جاندار ثقافت کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں بہت ضروری تھیں۔ ضروری ہے کہ پاکستانی ہونے کا فخر گھر‘ سکول‘ دفاتر میں رائج اور راسخ کیا جائے۔ اپنی زبان سے محبت پیدا کی جائے۔ پاکستان میں انگریزی بولنے والی اقلیت نے اردو بولنے والے عوام کی علمی اورسماجی صلاحیتوں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔ یہ حقیقت کہ قوم نے پہلی مرتبہ نعرہ لگایا ہے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کی غلامی پر آمادہ نہیں ۔ ماضی میں قوم لاتعلق رہی تھی لیکن آج ایک بڑی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے ۔ اب قوم کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔ اس تبدیلی کو ایک حقیقی پیش رفت میں تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ کھڑے ہو کر اپنی اہمیت کا احساس دلائو: کوئی بھی آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی زندگی کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یہ افراد کے لیے بھی سچ ہے اور ملکوں کے لیے بھی۔ پاکستان نے بہت آسانی سے دباؤ کو تسلیم کر لیا۔ ہمارے رہنما استقامت نہیں رکھتے ۔ وہ اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ بھکاریوں کے پاس کوئی انتخاب نہیں ہوتا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے سامنے حرف ِانکار کے نتائج ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ کے سامنے ''ہر گز نہیں‘‘ کے موقف نے بیرونی طاقتوں اور مقامی سٹیک ہولڈرز کو چونکا دیا۔ رہنماؤں کے پیسے اور اثاثوں کی شکل میں مفادات بیرونی ممالک میں ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ دبائو کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ اب جبکہ سابق وزیر اعظم نے یہ موقف اختیار کیا ہے‘ ہر قسم کے خطرات کے باوجود اس پرقائم رہنے کی ضرورت ہے۔ قربانیوں کے بغیر کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ عوامی حمایت کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ اس بار ایران یا چین کی طرح بیرونی طاقتوں کو جان دارپیغام دیا جائے۔
2۔ مشکل معاشی امکانات: انفرادی یا قومی احسانات کے بدلے غیر ملکی مداخلت کا دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ جب غیر ملکی طاقتیں قرض لینے کے خواہشمندوں کو رقم یا امداد دیتی ہیں تو وہ انہیں شرائط اور جرمانے کے ذریعے کنٹرول کرتی ہیں۔ پاکستان نے امریکہ سے امداد کی بھیک مانگنے سے انکار کرنے کا صحیح طریقہ اختیار کرتے ہوئے تجارت پر اصرار کیا۔ تاہم اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ٹیکس ریونیو کو کئی گنا تک بڑھایا جائے۔ اضافہ صرف زیادہ اقتصادی سرگرمیوں کی صورت نہیں ‘بلکہ یہ کہ زیادہ لوگ ٹیکس ادا کریں۔ اگر قرضوں پر انحصار کم کیا جائے تو اس پہلو کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
3 ۔ قومی شناخت کا فروغ اور اس پر فخر: پاکستانی ہونے کے جذبے کو زندہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان اور اشرافیہ جس طرح پاکستان کے بارے میں اپنی طنزیہ میمز کا اظہار کرتے ہیں اس سے الجھن اور معذرت خواہانہ انداز کی وضاحت اور ناامیدی کی عکاسی ہوتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو بین الاقوامی میڈیا پر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے‘ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ہماری اپنی ابلاغی حکمت عملی بھی اس کا تدارک نہیں کرپاتی۔ اس لیے واحد قومی نصاب ضروری ہے ۔ یہ آنے والی نسل کو ہماری اپنی زبان اور ثقافت کی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہوگا اگر یہ تعلیمی اصلاح ''پچھلی حکومت کے تمام منصوبے بند کرو‘‘کے ہتھوڑے سے مسمار کردی جائے۔
سیاسی ماحول یقینا گرم ہے۔ ملک کے تمام حصوں اور دنیا کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے حکومت میں اس متنازع تبدیلی کو پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم نکتہ بنا دیا ہے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ واقعات اس نہج تک پہنچ جائیں گے۔ اب جبکہ اس کی خودمختاری پاکستانیوں کے لیے اتحاد اور شناخت کا نقطہ بن چکی ‘قومی اصلاح کے اس اہم موڑ پر ضروری ہے کہ یہ'' عرب بہار‘‘ کے فلیش پوائنٹ میں تبدیل نہ ہو۔ یہ صرف سیاسی جماعتوں‘ اداروں اور حکومت کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہری کو ملک کو آزادی اور خودمختاری کے لیے مل کر کھڑا ہونا ہے۔ جیسا کہWael Ghonimنے تقسیم سکوائر بغاوت میں کہا تھا : ''عوام کی طاقت صاحبانِ اقتدار سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں